مدارسِ اسلامیہ اگلی نسلوں کے دین و ایمان کی بقاء و تحفظ کا اہم ذریعہ ہے: حافظ پیر شبیر احمد
حیدرآباد: 10؍ ستمبر (پریس ریلیز) مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ وآندھراپردیش نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ مرکزی حکومت نے جو تعلیمی نصاب کو متعارف کیا ہے اس میں مدارس کا کوئی تدکرہ نہیں ہے وہ جان بوجھ کر مدارس کا تدکرہ نہیں کرنا چاہتی۔ اس لیے کہ ہندوستان سے مدارس کانام ونشان مٹ جائے , اور زبان ختم ہوجائے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے مدارس اور مکاتب میں آن لائن تعلیم کانظام چل رہا ہے آپ اس کی جانب توجہ دے اور اپنے نونہالوں کومدارس اور مکاتب میں شریک کروائے اور اپنے لڑکے اور لڑکیوں کی دین وایمان کی حفاظت کی فکر کریں ۔کیونکہ انہی مدرسوں سے علماء کرام ,مفتیان عظام ,قاضی ,امام, اور خدام دین پیدا ہوتے ہے جو امت محمدیہ کی رہبری اور رہنمائی کرتے ہیں آج کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ مدارس اسلامیہ کو کئی ایک مسائل کا سامنا ہے۔ لہذا آپ اپنی آمدنی میں سے ان مدارس کا تعاون کرے تاکہ یہ مدارس پھر سے مضبوطی کے ساتھ اپنے قدم جما سکے۔ سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے۔اس کی تعلیمات میں روحِ انسانیت کی ان تمام تشنگیوں کا مداوا ہے جو اسے دنیاوی امور میں مختلف موڑ پر محسوس ہوتی ہیں ؛لیکن اسے کسیے حاصل کیا جائے؟ان پریشانیوں کو خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام صۡفہ کے قیام اور وہاں جمع ہو کر صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کے ذریعہ دور کردیا اور امت کو گویا یہ سبق دیا کہ اگر تمہیں دین اسلام کی بقا اور اس کی صحیح اور اصل شکل میں اشاعت مطلوب ہے اور اس کے ذریعہ اپنی دینی و تعلیمی حالت کو سنوارنا چاہتے ہو،تو تم بھی مقام صفہ کی طرح دینی درس گاہیں قائم کر کے اپنے کو اور اپنی نسلوں کو تعلیمات اسلامیہ سے روشناس کراؤ اور علم کی شمع روشن کر کے جہالت کا خاتمہ کردو۔اس کے نتیجے میں مسلمانوں نے اس مشن کو آگے بڑھایا اور مدارسِ اسلامیہ کے قیام کو کسی نہ کسی شکل میں لازمی سمجھ کر اس پلیٹ فارم کے ذریعہ امتِ مسلمہ کی تمام دینی ،اسلامی اور معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ان کی علمی تشنگی کو دور کرنے کی بھرپور کوشش کی ،جس کا لازمی اثر یہ ہوا کہ آج مدارسِ اسلامیہ اپنی مرکزی حیثیت کی بنا پر حیاتِ اسلامی کا جزوِ لانیفک ثابت ہورہے ہیں۔اسلامی مدارس حفاظتِ دین کے قلعے اور علوم اسلامیہ کے سرچشمے ہیں۔ان کا بنیادی مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہے جو ایک طرف اسلامی علوم کے ماہر،دینی کردار کے حامل اور فکری اعتبار سے صراطِ مستقیم پر گام زن ہوں، دوسری طرف وہ مسلمانوں کی دینی و اجتماعی قیادت کی صلاحیت سے بہرہ ور ہوں۔ان میں تہذیب و ثقافت،غیرت و حمیت،ایما ن داری ،وفاشعاری اور ان تمام اخلاقی و معاشرتی قدروں کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے ،جن سے دنیا میں بسنے والے ایک امن پسند شخص کو آراستہ ہونا چاہیے۔ان مدارس نے امتِ مسلمہ کو دین کے ہر شعبے میں رجالِ کاردیے ہیں؛خواہ عقائد ہوں یا عبادات،یا معاملات ،یا معاشرت ،یا اخلاق،غرض کہ دینی زندگی کے تمام شعبوں میں امت کی راہ نمائی کے لیے افراد تیار کیے ہیں۔انہی دینی مدرسوں کے بارے میں شا عر مشرق علامہ محمد اقبال نے فرمایا تھا : "ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو ، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو ، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا ؟ جو کچھ ہو گا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی ا ٹھ سو برس کی حکومت کے با وجو د اآج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈ رات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیرو ں اور اسلامی تہذیب کے ا ثار کا کوئی نقش نہیں ملتا ، ہندوستا ن میں بھی ا گرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانو ں کی ا ٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا”۔دینی مدارس جہاں اسلام کے قلعے ، ہدایت کے سر چشمے، دین کی پنا ہ گا ہیں ، اور اشا عت دین کا بہت بڑ ا ذریعہ ہیں ان دینی مدارس نے ہر دور میں تمام ترمصائب و مشکلات ، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقاء میں اہم کردار ادا کیا ہے۔