آئینۂ دکن

برصغیر میں دین کے تحفظ اور عقائد کے استحکام میں مدارس کا اہم رول

حیدرآباد 23مئی ( پریس نوٹ ) مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ و آندھرا پردیش نے کہا ہے کہ برصغیر ہندوستان میں علمائے کرام نے بڑی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دین کے تحفظ اور اسلام کی سربلندی کے لئے دینی مدارس کا قیام عمل میں لایا ‘ اور رفتہ رفتہ اس سارے خطہ میں دینی مدارس کا ایک مستحکم نظام قائم ہوگیا جو برصغیر میں دین کی خاموش خدمت انجام دے رہا ہے ۔ انہوںنے ایک اپیل جاری کرتے ہوئے کہا کہ پہلی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے مسلم علمأ و زعمأ کو چن چن کر پھانسی پر لٹکا دیا اور جیلوں میں بند کردیا۔ اس وقت انگریز جہاں بھی گیا وہاں اس نے عیسائیت پھیلا دی اور مقامی لوگوں کی مذہبی کتابیں اور ان کی زمینات چھین کر ان کے ہاتھوں میں انجیل تھمادی۔ ہندوستان میں بھی یہی کچھ ہوتا اگر اس وقت علمأ نہ اٹھ کھڑے ہوتے۔ حکومت تو ہاتھ سے نکل گئی تھی اور اب دشمن دین کو چھین لینے کے درپئے تھا۔ عیسائیت کی یلغار تھی جو چو طرف سے مسلمانوں کو گھرے ہوئے تھی۔ ایسے میں جید علمائے کرام نے دینی مدارس کے قیام کا بیڑا اٹھایا اور اس کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔ ان ہی کی کوششوں کی بدولت آج سارے ہندوستان پاکستان کے علاوہ سری لنکا‘ بنگلہ دیش ‘ افغانستان‘ برما وغیرہ میں یہ مدارس دین کے قلعے بن کر دین کا تحفظ کررہے ہیں۔ ایک ایسے وقت جبکہ ماڈرن تعلیم کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کرتے ہوئے مسلمانوں سے دین کا نور چھین لینے کے درپئے ہے‘ دینی مدارس میں آج بھی طلبہ شطرنجیوں پر بیٹھ کر علم دین حاصل کررہے ہیں اور تعلیم سے فراغت کے بعد معمولی معمولی مشاہروں پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اس نظام کو کسی قسم کی سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہیں اور مسلمان اس کے پابند ہونا بھی نہیں چاہتے۔ یہ سارا نظام محض ا اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کے فضل و کرم اور اہل خیر اصحاب کے فراخدلانہ تعاون ‘ چندوں ‘ صدقات‘ زکواۃ اور عطیات پر ہی قائم ہے ‘ اور توکل پر مبنی ہے اور برصغیر کے سارے علاقہ میں چل رہا ہے‘ مگر یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ موجودہ کروناوائرس کی وبا نے جہاں زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے وہیں سب سے زیادہ نقصان دینی مدارس کے نظام کا ہوا ہے۔ اب ملک بھر کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس نظام کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچانے کے لئے دامے درمے اور قدمے تعاون کریں‘ کیونکہ دشمنان اسلام اب بھی اس تاک میں ہیں کہ ہندوستان سے مسلمانوں اور اسلام کا اسی طرح صفایا کردیا جائے جس طرح اندلس ( اسپین ) سے کردیا گیا تھا۔ وہاں مسلمانو ںکی حکومت تھی مگر عیسائی قوتوں نے سازشو ںکا جال بچھا کر حملے کرتے ہوئے نہ صرف حکومت ہتھیا لی بلکہ مسلمانوں سے ان کا دین ‘ ان کی تہذیب اور ان کی شناخت بھی چھین لی۔ یہ سب اس لئے بھی ہوا کہ وہاں دینی تعلیم کا کوئی باضابطہ نظام نہیں تھا‘ مسلمان اقتدار میں تو تھے لیکن دینی شعور سے بے بہرہ۔ اب ساری قوم کو یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم اسپین کے ڈرامہ کو اپنے ملک میں دہرانے کا موقعہ دینا پسند کریں گے۔ مسلمانوں کی سب سے قیمتی دولت ان کا ایمان ہی ہوتا جو دنیا و مافیھا یعنی جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔ اب وطن عزیم میں بھی مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے اور ان کو زبردستی ہندو دھرم میں داخل کرنے کی سازشیں اور کوششیں ہورہی ہیں اور کئی مقامات پر اس کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ مسلمان آگے آئیں اور ان مدارس کو اپنے صدقات‘ زکوۃ اور عطیات سے مضبوط و مستحکم بنائیں۔ اس وقت آپ کا ایک روپیہ بھی بہت قیمتی ہے۔ یہ نہ سوچیں کہ معمولی چندہ اور معمولی رقم سے کیا ہوگا۔ قطرہ قطرہ مل کر ہی دریا بنتا ہے۔ جو بھی آپ سے ہوسکتا ہے ان مدارس کو عطا کریں ۔ مسلمان فطرہ کی رقم بھی عطا کرسکتے ہیں۔ آپ کا عطیہ دین کی خدمت میں مصروف افراد اور اداروںکی خدمات کا اعتراف کرنے اور دین کی حفاظت میں اپنا حصہ ادا کرنے کے برابر ہوگا اور دنیا و آخرت میں آپ کی اور مسلمانوں کی سرخ روئی کا باعث ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×