آئینۂ دکن

قومی شہریت بل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کو روکنا جمہوری اقدار کی پامالی : حافظ پیر شبیر احمد

حیدرآباد : 19:؍ دسمبر (پریس ریلیز) مولانا حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ وآندھرا پردیش نے حیدرآباد میں مختلف تنظیموں کی جانب سے(NRC)اور(CAA)بل کےخلاف احتجاجی مظاہرے کی اجازت نہ دینے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا اچانک یہ رویہ عجیب اور باعثِتشویش ہے،کیونکہ حکومت تلنگانہ خود پارلیمنٹ میں اس قومی شہریت ایکٹ بل کی مخالفت کی ہے،اس کے باوجود پرامن احتجاجی مظاہرے کو روکنا سمجھ میں نہیں آتا؟انہوں نے کہا کہ بل کی مخالفت کرنا عوام کا جمہوری حق ہے ‘ عوام کو اس حق سے محروم کرنا گویا جمہوریت کی مخالفت کرنا ہے ‘ ہماری ریاست میں محکمہ پولیس کی جانب سے پُر امن احتجاجی مظاہروں کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کرکے پولیس ان کے ساتھ نا روا سلوک کررہی ہے۔ جب کہ ریاستی حکومت اپنے آپ کو سیکولر حکومت کہتی ہے اور دستور کے تحفظ میں(NRC)اور قومی شہریت ایکٹ بل کے خلاف احتجاج کو روک کر عوامی جذبات سے کھیل رہی ہے،جب کہ دیگر ریاستوں کے وزیر اعلی خود احتجاجی مظاہرے میں شامل ہوکر بل کے خلاف دستور کے تحفظ میں عوام کے ساتھ ملکر احتجاج کر رہے ہیں،اور ہماری ریاست کی پولیس احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کررہی ہے اور ہمارے وزیر اعلی کی خاموشی بھی سمجھ میں نہیں آرہی ہے۔ حکومت تلنگانہ سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ احتجاج کرنے والوں کو احتجاج سے نہ روکے الحمداللہ تلنگانہ وآندھرا پردیش اضلاع میں پچھلے جمعهریاستی جمعیۃ کی جانب سے غیرمذاہب کے لوگوں کو لیکرکل جماعتی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا؛کیونکہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ سارے ہندوستانوں کا مسئلہ ہے اور دستور کا تحفظ کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ،ریاستی جمعیۃ علماء حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وزیر اعلی اور ان کے وزاراء فورا (NRC)اور (CAA) بل کے خلاف اپنے خاموشی کو توڑے، اور اپنا موقف ظاہر کریں،اور بل کے خلاف پورے ملک میں اور اپنے ریاست میں جو احتجاجی مظاہرے ہو رہی ہیں اس میں پولیس کے رویہ کو درست کرے۔ کیونکہ یہ عوام کا دستور حق ہے اور خود بھی قومی شہریت ایکٹ بل کے خلاف احتجاج میں شامل ہوکر اس کالے بل کی شدید مخالفت اور پرزور مذمت کریں،صدر محترم نے کہا کہ اب تک پوری ریاست میں جتنے بھی مظاہرے ہوئے ہیں اس میں نہ کسی کو نقصان پہچا اور نہ کسی کو تکلیف ہوئی تو پھر اس دستوری حق سے ہم کو کیوں روک رہی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×