آئینۂ دکن

اخلاق و کردار کے ذریعہ قلوب کو فتح کیا جاسکتا ہے: حافظ پیر شبیر احمد

حیدرآباد : 25؍ ا کٹوبر (ٖپریس ریلیز) حافظ پیر شبیر احمد صاحب صدر جمعیۃ علماء تلنگانہ وآندھراپردیش نے مسجدزم زم باغ عنبر پیٹھ حیدرآباد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ا خلاق کا لفظ ذہن میں آتے ہی ایک ایسا خاکہ ابھر کر سامنے آجاتاہے کہ جس کو ہر آدمی اپنانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ اخلاق انسان کاایک ایسا جز ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جاتی تو سمجھ لیجئے کہ وہ کامل انسان ہے، اخلاق ایک ایسی دوا ہے جو دل و دماغ دونوں کو غذا پہنچاتا ہے، رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے علم اور عبادت کی زینت اخلاق کو قرار دیا ہے، قیامت کے دن مومن کے میزان عمل میں کوئی چیز حسن اخلاق سے زیادہ باوزن نہیں ہوگی، اسی طرح مومن اپنے حسن اخلاق ہی کی وجہ سے ہمیشہ روزہ رکھنے اور تہجد گزار کا مرتبہ حاصل کرلیتا ہے، مسلم شریف کی روایت ہے کہ ’’نیکی حسن اخلاق کا نام ہے اور برائی وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تمہیں ناپسند ہو کہ لوگ اسے جانیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم کو آپ ﷺ کے زندگی کے دوپہلوں ملتے ہے ایک مکی زندگی اورایک مدنی زندگی آپ ﷺ مکہ میں اقلیت میں تھے آپ ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا آپ کو شعب ابی طالب میں محصور کردیا گیا , آپ کے راستہ میں کانٹیاں بچھائیں آپ کے اوپر کوڑا کرکٹ ڈا لاگیا آپ پر طعن وتشنی کی گئی یہاں تک کہ مکہ والے آپ ﷺ کے جان کے دشمن ہو گئے مگر قربان جائے آپ ﷺ پرآٖ پ نے مکہ والوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کیا کیونکہ عظمت اخلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز ہے، سارے انبیاء اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے دنیا میں آ ئے تھے یا یوں سمجھئے کہ قرآنی نظریہ اخلاق ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ اخلاق ہیں، جب نظر یہ عمل میں ڈھلتا ہے تو کمی بیشی عموماً ہوجاتی ہے، مگر اخلاق کا نظریہ جتنا معقول اورمستحکم ہے اتنا ہی مستحکم اخلاق کا نمونہ بھی ہے، اسی لیے دنیا کے بیشتر مفکرین اور معلّمین کی نظر میں اخلاق کا درس خوشنما نظر آتاہے،مگر جب ان کے قریب جائیے تو فکر وعمل کا تضاد اور گفتار و کردار کااختلاف سامنے آتا ہے سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی گفتار جتنی پاکیزہ ہے، کردار اتناہی پاکیزہ نظر آتا ہے، تعلیم جتنی روشن نظر آتی ہے، سیرت اتنی صیقل دکھائی دیتی ہے، کہیں پر کوئی جھول یا کسی قسم کا کھوٹ نہیں، اوراس میں کوئی شک نہیں کہ آپ واقعی اس اعزاز کے مستحق تھے؛ کیوں کہ وہ کون سا خلق حسن ہے جو آپ کی ذات گرامی میں نہیں تھا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اخلاق حسنہ کی دولت سے تڑپتی انسانیت کی غمخواری کی، اپنے ازلی وابدی دشمنوں کو پتھر کے جواب میں پھولوں کا گلدستہ پیش کیا، نفرت کے اندھیروں میں الفت و محبت کی شمع روشن کی، آپسی تفرقہ بازی اور دائمی بغض و عداوت کی بیخ کنی کرکے بھائی چارگی اور الفت ومحبت کے چشمے بہائے انہوں نے کہاکہ یہی نہیں بلکہ ذرا دو قدم آگے بڑھے جب آپ ﷺ اکثریت میں آئے فتح مکہ کی تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوتے ہیں، صحابہ کرام کی دس ہزار جمعیت آپ کے ساتھ ہے، صحابہ اعلان کرتے ہیںآج بدلے کا دن ہے، آج جوش انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے، آج شمشیروسناں کا دن ہے، آج گذشتہ مظالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کا دن ہے، آج ہم اپنے دشمنوں کے گوشت کے قیمے بنائیں گے، آج ہم ان کی کھوپڑیوں کو اپنی تلواروں پر اچھالیں گے، آج ہم شعلہ جوالہ بن کر خرمن کفار کو جلاکر بھسم کردیں گے اور گذشتہ مظالم کی بھڑکتی چنگاری کو ان کے لہو سے بجھائیں گے۔لیکن تاریخ شاہد ہے اور زمین و آسمان گواہی دیتے ہیں کہ ایساکچھ نہیں ہوا، رحمت نبوی جوش میںآ ئی اور زبان رسالت کی صدائیں لوگوں کے کانوں سے ٹکراتی ہیں ’’لاتثریب علیکم الیوم واذہبوا انتم الطلقاء‘ کہ جاؤ تم سب آزاد ہو، تم لوگوں سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائیگا، یہ تھاآپ کا اخلاق کریمانہ، یہ تھا آ پ کے اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ، جس کی مثال سے دنیا قاصر ہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم انسانیت کو اخلاقیت کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس کی گواہی باری تعالیٰ قرآن مجید میںفرماتے ہیں ’’انک لعلی خلق عظیم‘‘ ایک جگہ خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اخلاقیت کی گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں ’’انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ مجھے تو اس لیے بھیجا گیا ہے تاکہ میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی تکمیل کروں، اسی کو سراہتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کے اخلاق حسنہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں(کان خلقہ القرآن) جو مکارم اخلاق آپ کو خالق کونین کی طرف سے مرحمت ہوئے تھے اور جن کی تکمیل کے لیے آپ کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا وہ مکلف مخلوق کی فطرت کے جملہ مقتضیات کے عین مطابق تھے اور جن کا مقصد صرف یہی نہ تھا بلکہ ان کے ذریعہ روحانی مریضوں کو ان کے بستروں سے اٹھایا جائے اوراٹھنے والوں کو چلایاجائے اور چلنے والوں کو تیزی سے دوڑایا جائے اور دوڑنے والوں کو روحانی کمال اور اخلاقی معراج کی غایۃ قصویٰ تک اور سعادت دنیوی ہی نہیں؛ بلکہ سعادت دارین کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچایاجائے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخلاق حسنہ سے بھری پڑی ہے، جسے آج ہمیں اس نازک ترین حالات میں اپنانے کی ضرورت ہے، اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اخلاق کی تعلیم دوسروں کو دیں اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل پر اپنی زندگی کو سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کو اپنانے کے بعد ہمارے لیے بھی اخلاقیت کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان ہوجائے گا۔اللہ تعالی ہم سب کو صیح علم اور علم کی توفیق عطا فرمائیں۔

Related Articles

One Comment

کمال کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×