آئینۂ دکن

ماہ رمضان میں دینی مدارس‘جامعات‘ دینی وملی تنظیموں اور ائمہ مساجد ومؤذنین کا بھی خصوصی تعاون کرنے کی اپیل : مولانا حامد محمد خان

حیدرآباد: 20/اپریل (پریس ریلیز) امیرحلقہ جماعت اسلامی ہند تلنگانہ مولانا حامد محمد خان نے اپنے صحافتی بیان میں کہا کہ ہندوستانی مسلمان گزشتہ کچھ عرصہ سے ملک میں مختلف آزمائشوں کاشکارہیں‘حالیہ دہلی فسادات میں مسلمانوں کی جانوں کے ساتھ ساتھ املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ یہاں 550 مکانات‘300سے زائد ددکانات کے علاوہ19مساجد مکمل یا جزوی طورپرآگ کی نظرکردئیے گئے۔ان پریشان حال افراد کی بازآبادکاری کے لیے مختلف دینی،ملی اورسماجی تنظیموں نے ریلیف کے کاموں کا آغاز کیا۔مولانا حامد محمدخان نے کہا کہ ابھی بازآبادکاریRescueکا کام جاری ہی تھاکہ اچانک کورونا وائرس کی وباء اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے یومیہ اُجرت پرکام کرنے والے مزدور‘تعمیراتی مزدور‘ آٹو،ٹیکسی اور کیب ڈرائیورس، دوکانوں پریومیہ آمدنی کی بنیادپر کام کرنے والے افراد‘عارضی طور پر کام کرنے والے ورکرز شدید معاشی طور پرمتاثر ہوئے۔ الحمدللہ! ملت کا دردرکھنے والے صاحب ثروت اورمخلص اصحاب نے ملی تنظیموں کے ذریعہ ایک مرتبہ پھر آگے بڑھ کر ان پریشان حال افراد کا تعاون کررہے ہیں اوراس کا سلسلہ جاری ہے۔الحمدللہ! جماعت اسلامی ہند نے پورے ملک میں عمومی طور پراورتلنگانہ میں خصوصیت کے ساتھ راشن اور بنیادی ضروریات کا سامان مہیاء کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔مولانا نے مزید کہا کہ اسی دوران 24/اپریل سے رمضان المبارک کا بھی آغاز ہونے جارہا ہے اور خدشہ ہے کہ لاک ڈاؤن کا سلسلہ رمضان المبارک کے ساتھ ساتھ عیدالفطر تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔ علماء کرام‘ مشائخین‘ ملی قائدین اور دانشوران ملت کی اپیل پرمسلمان اس وقت فرض نمازیں اپنے گھروں پر ہی اداکررہے ہیں اور ان شاء اللہ نماز تراویح کا اہتمام بھی گھروں پر ہی کیا جائے گا۔کیونکہ لاک ڈاؤن کے دوران ماہ رمضان آرہا ہے اندیشہ اس بات کا ہے کہ زکوٰۃ اور عشروغیرہ کی رقم اسی ریلیف کے کام میں خرچ ہوگی۔مولانا حامدمحمدخان نے کہا کہ ان سخت حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت اسلامیہ کے اہل خیر حضرات لاک ڈاؤن کے موقع پر عمومی ریلیف امداد کے علاوہ دینی درسگاہوں، جامعات‘ دارالعلوم، حفظ کے مدارس ومکاتب‘ دینی وملی تنظیموں اور جماعتوں کا بھی خاص خیال رکھیں۔اس کے علاوہ اس ماہ رمضان میں خصوصاً حفاظ کرام‘ ائمہ وموذنین، مساجد کے خدمت گذار‘ دینی تعلیم دینے والے اساتذہ کا بھی بھرپور خیال رکھا جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×