آئینۂ دکن

اپنے دستاویزات کو درست کرلیں‘ این آر سی یا مردم شماری سے مسلمان خوف زدہ نہ ہوں: مولانا جعفر پاشاہ

حیدرآباد: 20؍اگسٹ (عصر حاضر؍نیوز اردو) سوشل میڈیا پر ملک بھر میں آسام کی طرز پر این آرسی کے نفاذ کے متعلق بے بنیاد افواہوں کا بازار گرم ہے  جبکہ نیشنل سیٹزن شب ترمیمی بل اب بھی پارلیمنٹ میں منظور نہیں کیا گیا۔تاہم سوشل میڈیا نے اس مسئلہ کی حساسیت اور اہمیت کو نہ سمجھتے ہوئے آگ میں کیروسین ڈالنے کا کام کر رہا ہے۔اس تعلق سے روزانہ سوشل میڈیا بالخصوص واٹس ایپ کے مختلف گروپس پر مختلف طرح کے پیغامات سامنے آرہے ہیں جن سے لوگوں میں الجھن پائی جارہی ہے۔
فی الحال این آر سی آسام تک ہی محدود ہے تاہم ملک بھر کے لئے اس کے رہنمایانہ خطوط سامنے نہیں آئے ہیں۔اس کے لئے ہر شہری کو درکار دستاویز تیار رکھنا ہوگا۔مولانا حسام الدین ثانی عامل جعفر پاشاہ رکن مسلم پرسنل لا بورڈ و امیرامارات ملت اسلامیہ تلنگانہ و آندھراپردیش نے کہا کہ سوشل میڈیا کے پیامات کے ذریعہ مسلمانوں میں خوف پھیلانے کی بعض افراد کوشش کر رہے ہیں۔انہوں نے اس مردم شماری کی اہمیت کے پیش نظرمرکزی حکومت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ میں 19اگست 2014کو جامع گھریلو سروے ریاستی حکومت کی جانب سے ہر گھر اور ہرشہری کے متعلق تفصیلات حاصل کی گئی۔اس میں تمام تر تفصیلات درج ہیں، اس سروے کا تفصیلی ڈاٹا حکومت کے پاس دستیاب ہے جس کا استعمال حکومت کی جانب سے نئی سرکاری اسکیمات کے آغاز اور دیگر مقاصد کے لئے کیا گیا تھا، اس سروے کی تفصیلات کومردم شماری یا پھر این آر سی کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ لوگوں میں اس تعلق سے کافی الجھن پائی جاتی ہے۔
مولانا جعفر پاشاہ نے مزید کہا کہ یہ تلنگانہ گھریلو سروے ریاست کے تمام منڈلس میں صرف ایک ہی دن میں کروایا گیا تھا اور وزیراعلیٰ کے چندرشیکھرراو نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ یہ سروے مکمل طور پر کامیاب رہا۔انہوں نے کہا”ریاست میں این آر سی پر عمل کے وقت اس سروے کو ماننا چاہئے۔مرکزی حکومت کو چاہئے کہ وہ تلنگانہ حکومت کے جامع گھریلو سروے کا مکمل طورپرجائزہ لے“۔ مولانا جعفر پاشاہ نے عوام سے خواہش کی کہ وہ اس سروے کے تعلق سے چوکس رہیں۔اگر مرکزی حکومت تلنگانہ کے اس جامع گھریلو سروے کو قبول نہ کرتی ہے تو ایسی صورت میں اس نئے سروے کے لئے درکار دستاویزات کو تیار رکھنے اور اس تعلق سے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کا کام بڑے پیمانہ پر کیاجانا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستانی شہریت قانون 1955 کی دفعہ کے 14 کے مطابق ملک کے ہر ایک شہری کو اپنا نام پتہ ہندوستانی باشندوں کے قومی رجسٹریعنی این آر آئی سی میں درج کروانا ضروری ہے۔1 اپریل 2020 سے 30ستمبر 2020 تک پورے ملک میں نیشنل پاپولیشن رجسٹر یا پھر این پی آر کو نافذ کیا جائے گا۔شہروں و دیہاتوں میں دو دو مرتبہ کیمپ لگائے جائیں گے اور ہر باشندے کو اس کی اطلاع کی جائے گی۔2011 کی مردم شماری میں جن کا نام درج ہے ان کے گھر سرکاری نمائندہ خود فارم لے کر جائے گا۔ ایک فارم ہوگا جس کا نام کے وائی آر(نو یوور ریزیڈنٹ) ہے
اس فارم مختلف کالم بھرنے ہوں گے۔1 نام،2.ولدیت یا مکھیا کا نام،3 ماں کا نام،4 بیوی کا نام،5 جنس،6 تاریخ پیدائش،7مقام پیدائش،8 قومیت،9 موجودہ رہائش کا پتہ جہاں شہری 6 مہینہ رہ چکا ہو اور آگے 6 مہینہ یا ایک سال رہنے کا ارادہ رکھتا ہو،10،شہری کا مستقل پتہ، 11 مشغلہ،12 تعلیمی لیاقت،13 فوٹو گراف کے ساتھ بائیومیٹرک پہچان یعنی دسوں انگلیوں اور دونوں آنکھوں کے پرنٹ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کالمس کی تصدیق کے لیے ان ذیل دستاویزات میں سے کم از کم تین کو بطورثبوت فارم کے ساتھ جمع کرنا ہوگا جس کا ویری فکیشن حکومت آدھار کارڈ کے محکمہ یو آئی ڈی اے آئی سے کرائے گی۔ دستاویزات کی فہرست۔1 برتھ سرٹیفکیٹ،2راشن کارڈ،3ووٹر آئی ڈی کارڈ،4بینک پاس بک، 5 زمین کا بیع نامہ،6 سرکاری ملازمت کے جاب کارڈ،7 پاسپورٹ،8آدھار کارڈ،9 پریوارک رجسٹر کی نقل،10ہائی اسکول انٹر کے اسناد اگر موجود ہوں تو،11ڈرائیونگ لائسنس،12 ایل.پی.جی گیس کنکشن۔13بجلی کنکشن،14پین کارڈ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×