این پی آر این آر سی سے متعلق کے سی آر اندرون دو یوم اپنا موقف واضح کرے
حیدرآباد: 8؍جنوری (عصر حاضر) جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کنوینر جناب مشتاق ملک نے آج ایک پریس کانفرنس کے ذریعہ تلنگانہ کے وزیر اعلی سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اندرون دو یوم این آر سی‘ این پی آر اور سی اے اے سے متعلق اپنا موقف واضح کرے بصورت دیگر ریاست گیر مخالف مہم چلائی جائے گی۔ بند کمرے کی بات ہمیں قبول نہیں ہے‘ وزیر اعلی کو چاہیے کہ وہ پریس کانفرنس کرکے اپنا موقف صاف کرے‘ مشتاق ملک نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی پوری ریاست میں نرمل سے لیکر کھمم تک اپنے ممبرز تیار کرچکی ہے‘ جے اے سی کی مضبوط شاخوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ انہوں نے دورانِ گفتگو ملین مارچ کو کامیاب بنانے والے ان تمام یونینس کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اپنی یونین میں بند کا اعلان کرکے ملین مارچ کو ایک مثالی بنادیا اور صرف ملک ہی نہیں پوری دنیا میں اس کو موضوعِ بحث بنا دیا‘ صحافی براداری کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ملین مارچ کی کامیابی میں میڈیا کے ان تمام حضرات کا بہترین کردار رہا جنہوں نے بروقت اپنے اپنے اخبارات و چینلوں کے ذریعہ عوام کو آگاہ کیا۔ حیدرآباد کا ملین مارچ جس میں پوری ریاست سے ایک بڑی تعداد نے شرکت کی اور اپنا احتجاج درج کرایا انتہائی پُر امن رہا۔ لاء اینڈ آرڈر اور ٹریفک پولیس کی خاموشی اور منظر سے بالکل ہٹ جانے کے باوجود بھی عوام الناس نے مکمل نظم و ضبط برقرار رکھتے ہوئے اس کو کامیابی سے ہمکنار کیا جو پوری دنیا میں ایک مثال بن چکی ہے اور ملین مارچ اپنے وقتِ مقررہ سے تقریبأ پانچ دس منٹ پہلے ہی اختتام کو پہنچ گیا۔ مشتاق ملک نے پولیس کے جانب دار رویہ کی پُر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پولیس ہماری آواز کو دبانے کے لیے مجھ پر میری اطلاع کے مطابق تا حال 25؍مقدمات درج کرچکی ہے میں نے پہلے بھی واضح کردیا تھا اور آج بھی واضح کررہا ہوں کہ ہماری طرف سے جو اجازت نامہ داخل کیا گیا تھا اس میں صاف لکھا ہوا تھا کہ ہم ملین مارچ کرنے جارہے ہیں ملین کا مطلب دس لاکھ ہے تو پھر ایک ہزار کی اجازت دے کر ہم کو پریشان کرنا یہ پولیس کا دوہرا رویہ ناقابل فہم ہے‘ انہوں نے یھی واضح کردیا کہ ہم کسی کے دبائے دبنے والے نہیں ہے اور ہم کبھی خوف نہیں کھائیں گے‘ ان مقدمات سے ہماری آواز کو نہیں دبایا جاسکتا‘ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ان لوگوں کو بھی اطمینان دلایا جو ملین مارچ میں مختلف علاقوں سے شرکت کیلے آرہے تھے جن پر مقدمات درج ہوئے ہیں وہ بالکل بھی پریشان نہ ہوں۔ ان مقدمات کی اصل محرک پولیس ہی ہے پولیس اس طرح کی حرکتیں کرکے مظاہرین کو پریشان کرنا چاہتی ہے۔