حیدرآباد و اطراف

تلنگانہ میں فرینڈلی پولیس کے ظلم کے بعد عمدہ کارکردگی پر سوالیہ نشان

حیدرآباد: 5؍جون (پریس ریلیز) مولانا غیاث احمد رشادی مینیجنگ ٹرسٹی منبر ومحراب فاؤنڈیشن نے اپنے صحافتی بیان میں کہا ہے کہ ریاست تلنگانہ میں محکمہ پولیس کی جانب سے انسانی ہمدردی کے سینکڑوں واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ محکمہ پولیس کے آفیشیل سوشل میڈیا پلیٹ فارمس کے ذریعہ انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے پولیس کانسٹبلس کے متعدد ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی جاتی ہیں ان تصاویر کو ملک بھر میں سراہا جاتا ہے۔ اس طرح کے کارنامے انجام دینے والے اہلکاروں کو محکمہ کی جانب سے انعامات و تمغوں سے نوازا جاتا ہے۔ ایک طرف پولیس کی ہمدردی ،انسانیت نوازی تو دوسری طرف لاک ڈاؤن کے دوران ہراسانی اور مارپیٹ کے متعدد واقعات کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کا دوسرا متشدد رخ سامنے آرہا ہے۔ تلنگانہ میں فرینڈلی پولیس کے نام سے مشہور پولیس کی ظلم و زیادتی کی وجہ سے پولیس کی فرینڈلی امیج داغدار ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ شہر کے علاقہ آصف نگر میں محض دودھ لانے کیلئے جانے والا ایک نوجوان پٹیل ڈیری فارم کے قریب پولیس کی لاٹھی کا نشانہ بن گیا۔اسی طرح پچھلے ہفتہ بھوانی نگر پولیس اسٹیشن حدود میں ایک نوجوان کو اس قدر پیٹا گیا کہ اس کی آنکھ متأثر ہوگئی۔ علاوہ ازیں حالیہ واقعات میں نلگنڈہ میں محکمہ بجلی کے ایک کارکن پر پولیس نے ظلم کیا ۔ سوریا پیٹ میں آشا ورکر خاتون کے ساتھ ہراسانی کی گئی حالانکہ وہ خاتون اپنے بھائی کو لیکر دواخانہ گئی تھی اور اس خاتون کے پاس پولیس کو مطلوبہ تمام دستاویزات موجود تھے اس کے باوجود بھی اس خاتون کے ساتھ پولیس نے ناروسلوک کیا اور جرمانہ عائد کردیا۔ اس طرح کے متعدد واقعات محکمہ پولیس کی عمدہ کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کررہے ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے وزیر داخلہ محمود علی،ریاست کے ڈی جی پی ایم مہندر ریڈی اور تینوں کمشنریٹ کے کمشنر س سے یہ اپیل ہے کہ وہ خصوصی توجہ دیتے ہوئے اس طرح کے واقعات پر روک لگائیں ورنہ عوام کا پولیس پر سے اعتماد ختم ہوجائے گا۔خاطی پولیس اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ریاست تلنگانہ کی عوام سے بھی بطورِ خاص اپیل ہے کہ وہ غیر ضروری گھروں سے باہر ہر گز نہ نکلیں اور لاک ڈاؤن اصولوں کا مکمل خیال رکھیں نرمی کے اوقات میں اپنے کام مکمل کرلیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×