حیدرآباد و اطراف

یاد الٰہی سے غفلت قلبی بے سکونی وبے اطمینانی کا سبب

حیدرآباد: 7؍جنوری (پریس نوٹ) اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد اور اپنے ذکر میں دلوں کا سکون و اطمینان رکھا ہے ،دنیا اور سامان دنیا محض برتنے کی چیزہے جس سے ضروریات تو پوری کی جا سکتی ہیں مگر سکون وچین حاصل نہیں کیا سکتا ، سکون قلبی تو اللہ کی یاد اور اس کے مبارک ذکر ہی سے حاصل ہوتا ہے،قرآن کریم میں اہل ایمان کو تاکیدی حکم دیا گیا ہے کہ وہ صبح وشام اللہ کو یاد کرتے رہیں اور ہمیشہ اپنی زبان کو اس کے نام سے تر رکھیں ،ذکر الٰہی نہ صرف عظیم ترین عبادت ہے بلکہ حاصل عبادت بھی ہے،جب بندہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے ، اس کے نام کی رٹ لگاتا رہتا ہے اور چلتے پھرتے ،اُٹھتے بیٹھتے اللہ کو یاد کرتا رہتا ہے تو اس کا اثر دل پر پڑتا ہے پھر وہ بھی اپنی ہر دھڑکن کے ساتھ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے،جب دل ذاکر ہوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہمہ وقت اللہ کو یاد کرتا ہے اور اسے یاد رکھتا ہے ،ایسا بندہ جو ہمہ وقت یاد الٰہی میں مشغول ہو جائے تو اس کے لئے خلاف شرع کام کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ،یاد الٰہی کی کثرت آدمی کو خدا کا دوست بنادیتی ہے ،حدیث شریف میں رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ بندہ جب اپنے ہم نشینوں کے ساتھ فرش پر خدا کو یاد کرتا ہے تو اس کے جواب میں اللہ عرش پر ملائکہ کے سامنے اس کا تذکرہ فرماتاہے،یاد الٰہی خدا سے تعلق اور محبت کی نشانی ہے اور یاد الٰہی سے غفلت محسن کے ساتھ احسان فراموشی اور محرومی کا سبب ہے، یقینا ذکر الٰہی دلوں کی غذا اور مردہ دلوں کی جان ہے ، اہل اللہ اپنی مجلسوں کو یاد الٰہی سے منور کرتے ہیں اور لوگوں کو کثرت سے ذکر کی تلقین کرتے ہیں ،فرماتے ہیں کہ ذکر کی ضد غفلت ہے اُس سے رحمت کا نزول ہوتا ہے اور اس سے محرومی چھاجاتی ہے، اس وقت پوری دنیا مادی ترقیات میں گم ہے ، ہر ایک اسی کے پیچھے دوڑ لگارہا ہے اور اسی کے حصول میں اپنی کامیابی سمجھ رہا ہے،لیکن حقیقت یہ کہ مادی چیزیں آدمی کو سہولت کو پہنچا سکتے ہیں مگر سکون وچین نہیں ،سکون وچین یاد الٰہی میں مضمر ہے ،دنیا میں سہولیات پر مبنی چیزیں ایجاد ہونے کے باوجود آج کا انسان بے سکون وبے چین اور بے قرار کیوں نظر آرہا ہے؟ ،اس کی اہم ترین وجہ یاد الٰہی سے غفلت اور اعراض ہے ،خانقاہ چشتیہ صابریہ مظفریہ میں ماہانہ مجلس ذکر وسلوک سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز بزرگ عالم دین ومصلح مولانا شاہ محمد اظہار الحق قریشی چشتی صابری مظفر قاسمی خلف اکبر وجانشین حضرت قطب دکنؒ ان خیالات کا اظہار فرمارہے تھے،حافظ سید انس احمد کی تلاوت قران سے مجلس کا آغاز ہوا،قاری سید بشیر احمد،انور حسین انور صابری ،معین نواب اور دیگر نعت خواں نے بار گاہ نبوی ؐ میں نعت شریف کا نذرانہ پیش کیا، مولانا شاہ محمد ابرارالحق قریشی فرزند حضرت قطب دکنؒ ومہتمم جامعہ عربیہ قاسم العلوم اودگیر مہاراشٹرا اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اہل علم کی صحبت وہ نسخہ اکسیر ہے جس سے کئی روحانی بیماریوں کا علاج ممکن ہے ،انہوں نے رسول اللہ ؐ کے ارشاد مبارکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اچھی اور بُری مجلس کی مثال خوشبو بیچنے والا اور بھٹی جھونکنے والا کی ہے ،ایک جگہ سے خوشبو ملے گی تو دوسری جگہ سے سیاہ دھبے ،موصوف نے حضرت لقمان ؑ کی وہ نصیحت سنائی جو انہوں نے اپنے فرزند سے کہی تھی کہ بیٹے ! تو علماء کی مجالس کو لازم کر اور حکماء کا کلام غور سے سن ،کیونکہ بے شک اللہ مردہ دل کو حکمت کے نور سے زندہ کرتا ہے جیسے مردہ زمین کو موسلادھار بارش کے ذریعہ زندہ کیا جاتا ہے ،انہوں نے حاضری سے کہا کہ وہ اس طرح کی مجالس کو غنیمت جانیں اور ان سے بھر پور استفادہ کی کوشش کریں ،یہ جہاں دینی معلومات کا ذریعہ ہیں وہیں فتنوں وفساد کا بچنے کا موثر ہتھیار بھی ہیں،آخر میں ذکر جہری ،مراقبہ اور نگران مجلس حضرت مظفر قاسمی کی دعا پر مجلس کا اختتام عمل میں آیا ،مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی ،مولانا عبدالواسع قریشی ،مفتی عبدالرحمن الماس ،حافظ سید فیروز ،حافظ سید رضوان ،حافظ شعیب نواب،حافظ ارشاد خلیل ،محمد حنیف ،محمد الطاف اور دیگر خدام نے انتظامات میں حصہ لیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×