آئینۂ دکن

لاک ڈاؤن میں تعلیمی اداروں کے لئے اکابر کے تجربات کی روشنی میں کچھ اہم مشورے: مفتی ابوبکر جابر قاسمی

حیدرآباد: 18؍جون (عصر حاضر) مدارس اور مکاتب کے بند ہونے کے زمانہ میں تعلیم کا نظام کس طرح سے شروع کیا جائے؟ کم سے کم درجہ پر کام کی ابتداء کیسے کی جائے؟ یہ ایک مسئلہ ہے جو عالمی سطح پر تمام لوگوں کے لئے ہی پریشان کن ہے، ارباب مدارس بھی متحیر ہیں اور اسکول چلانے والے احباب بھی اس سلسلہ میں فکر مند ہیں، سرپرست حضرات اپنے بچوں کے وقت کے ضائع ہونے پر پریشان ہیں، اساتذہ کی تنخواہوں کو مسئلہ بھی درپیش ہے، فیس کی ادائیگی بھی محل غور ہے، اس سلسلہ میں اپنے بڑوں کے پاس حاضری ہوئی، تو کچھ تجربات اور مشورے سامنے آئے، وہ میں اس موقع پر آپ حضرات کے سامنے رکھنا مناسب سمجھتا ہوں۔
یہ بات بالکل مسلم اور طے شدہ ہے کہ آئندہ کام کے جو حل اور طریقہ ٔ کار بتائے جارہے ہیں وہ مستقل اور اصل نہیں ہیں، اصل مستقل، نافع اور مفید نظام تو وہی ہے جو ہمارے پاس معتدل زمانہ میں چلتا ہے، صحبت کے ذریعہ سے، تربیتی نظام کے ذریعہ سے، خاص قسم کے روحانی ماحول میں، بالمشافہ افادہ اور استفادہ کا طریقہ؛ لیکن ابھی تک تقریباً تین مہینے گذر چکے ہیں، جمود اور تعطل پر، وقت اور صلاحیتوں کی تباہی پر، پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں کی استعدادیں مزید کمزور ہوتی جارہی ہیں، طبیعتوں میں اچاٹ پن اور اکتاہٹ کی کیفیت ہے۔
سب سے پہلا طریقہ ٔ کار جس کا بہت سی جگہوں پر تجربہ کیا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ اگر طلبہ یا طالبات مدرسہ اور مسجد کے قریب ہی رہنے والے ہیں تو دو دو یا تین تین طلبہ کو بلاکر ان کا سبق سن لیا جائے اور انہیں سبق دے دیا جائے، اس کے لئے نہ فون کے استعمال کی ضرورت ہے، نہ کسی اسمارٹ فون کی ضرورت ہے، نہ سرپرست کی ضرورت ہے، پہلے ذہن سازی کردی جائے، وقت بتادیا جائے، مثلاً ۹؍ بجے سے ۱۵:۹؍ تک فلاں طالب علم، پھر ۱۵:۹؍ سے ۳۰:۹؍ تک فلاں طالب علم آئے۔
دوسرا طریقہ ٔکار جو بہت سے عصری اداروں میں بھی استعمال کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ واٹس ایپ کے ذریعہ سے، یا اگر سرپرست قریب رہتے ہوں تو لاک ڈاؤن کے ضوابط کی رعایت کرتے ہوئے طلبہ اور طالبات کے سرپرستوں کو بلایا جائے، اور انہیں دینی وتربیتی اور عصری موضوعات سے متعلق چھوٹی چھوٹی آسان کتابیں دی جائیں، پھر ایک ہفتہ کے بعد ان کا ٹسٹ لے لیا جائے، اور ٹسٹ میں بھی بڑی تعداد کو اکٹھا نہ کیا جائے، بلکہ صرف پانچ یا دس طلبہ اور طالبات کو اپنے گھر پر مجتمع کرکے ان کا جائزہ لے لیا جائے، یا فون پر ہی ان کا امتحان لے لیا جائے۔
تیسرا تجربہ تحفیظ القرآن کا ہے، حضرت مولانا عبد القوی صاحب دامت برکاتہم(ناظم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد) کی صحبت میں کچھ دیر وقت گذارنے کا موقع ملا، وہاں یہ ترتیب بن چکی ہے کہ استاذ حسب معمول کلاس میں آکر بیٹھ جاتے ہیں، اور مدرسہ کی چہار دیواری میں اپنے متعینہ چھ گھنٹے دیتے ہیں، اور چھ گھنٹوں میں ان کے لئےبارہ بارہ طالب علم متعین کردئے گئے ہیں، اور ان کے سرپرستوں کو ان کے اوقات بتادئے گئے ہیں، سرپرست فجر کے بعد اور مغرب کے بعد یاد کروانے کی فکر کریں، درجۂ حفظ کے استاذ صرف سبق سننے اور سنانے کا کام کریں گے، سرپرستوں اور خواتین سے ہرگز بات نہیں ہوگی، وہ اگر کوئی شکایت ہے تو براہ راست ان سے نہیں کہیں گے، بلکہ اگر کوئی شکایت کی بات ہے تو صدر مدرس خود سرپرست سے بات کریں گے، یہ بھی ایک مفید نظام ہے، اور اس کے لئے اسمارٹ فون کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے، سادے فون پر بھی یہ سب کام کئے جاسکتے ہیں، اس طرح بھی طلبہ کے دو تین گھنٹوں کی حفاظت ہوسکتی ہے۔
چوتھا تجربہ ہمارے حضرت شاہ جمال الرحمٰن صاحب کی سرپرستی میں چلنے والا ادارہ ’’احیاء العلوم، ٹپہ چبوترہ‘‘ میں یہ نظام بن چکا ہے کہ فون کانفرنس کالنگ پر پوری جماعتیں اور جماعتوں کے طلبہ، اور ان کی گھنٹیاں پورا نظام بنادیا گیا ہے، اور اس پر عالمیت کے پورے اسباق ہونے والے ہیں، اس طرح کا نظام ”Zoom” پر یا فون کانفرنس کالنگ پردار العلوم گڈھا گجرات میں بھی بن چکا ہے، مدرسہ ترک سر کا بھی اعلان آچکا ہے، اور حیدرآباد میں بھی ہمارے ایک بزرگ کے پاس اس قسم کا مشورہ ہوچکاہے۔
یہ قابل عمل اور بہت آسان چند تجاویز اور تجربے ہیں جو بعض جگہوں پر نافذ ہوچکے ہیں، اہل علم اور ارباب مدارس اس سلسلہ میں غور فرمائیں، اپنے علاقہ کی نوعیت، اپنے عملہ کی استعداد اور باہمی مشورہ کے ذریعہ سے جو طریقہ ٔکار بھی اپنایا جاسکتا ہے اس طریقہ ٔ کار کے استعمال کرنے میں دریغ نہ کریں۔
{إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ}
(ھود :88)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×