آئینۂ دکن

موجودہ حالات میں مسجدوں سے متعلق تین اہم امور غور طلب: مفتی عبدالمغنی مظاہری

حیدرآباد: 8؍جون (عصر حاضر) موجودہ حالات میں مسجدوں سے متعلق مفتی عبدالمغنی مظاہری صدر سٹی جمعیۃ علماء گریٹر حیدرآباد و ناظم مدرسہ سبیل الفلاح نے تین اہم غور طلب امور پر توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کا شکر و احسان ہے کہ مسجدوں میں باجماعت نمازوں کی ادائیگی اور جماعت کے قیام کے لئے نافذ رکاوٹ ختم ہوئی اور چند ہدایتوں کے ساتھ مسجد کھولنے کی اجازت حاصل ہوگئی ہے۔ سب ہی مسلمانوں کا یہ احساس ہے کہ اُن کے لئے مسجدوں سے محروم یا دور کردیا جانا بڑا صدمہ تھا، جس کی وجہ سے وہ بے چین و بے قرار بھی تھے، لیکن کوڈ ۱۹ کی وبائی بیماری کے باعث نافذ پابندیوں کی وجہ سے مجبور تھے، اب الحمدللہ ۷۸؍ دن کی بندش کے بعد مسجدوں کو کھولنے اور نمازبا جماعت کی اجازت دیدی گئی ہے، جب کہ یہ وبائی بیماری ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ پہلے کے مقابلے میںمتأثرین کی تعداد میںروز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، اس کے باجود عبادت گاہوں کو کھولنے کی اجازت سب ہی کے لئے زبردست آزمائش ہے۔ اس لئے علماء و قائدین مسلمانوں سے گذارش کر رہے ہیں کہ تمام تر احتیاطی تدبیروں پر عمل کا اہتمام کریں، مسجد کی انتظامیہ اور نمازیوں کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ بھی کیا جارہا ہے، ہمیں بھروسہ اور یقین ہے کہ ہم سب مل کر ان احتیاطی تدابیر کو اپنائیں گے تاکہ ملت کا ایک ایک فرد خود بھی اس وبائی بیماری سے محفوظ رہے اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھے۔
جتنی تدبیریں بتلائی گئیں ہیں اور از راہ احتیاط جو جو ہدایتں دی گئی ہیں وہ سب قابل عمل ہیں، البتہ یہ ناچیز تین باتوں پر مزید غور کرنے کی ارباب مجاز سے گذارش کرتا ہے، کوئی تجویز یا ہدایت مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف غور کرنے گذارش ہے، (۱) بوقت نماز سینیٹائیزر( sanitizer) کا استعمال! کیوں کہ اس میں یقینی طور پر الکحل(alcohol) شامل ہے بلکہ غالب ہے، اگر چہ کہ علماء کرام نے جائز بتایا ہے مگر مشکوک و مشتبہ ضرور ہے ۔ کیا اس کا کوئی متبادل ہوسکتا ہے؟ بعض گوشوں سے معلوم ہوا کہ بعض ہندو بھی مندروں میں اس کا استعمال مناسب نہیں سمجھ رہے ہیں، لہذا ہمیں اس کے متبادل پر غور کرنے کی ضرورت ہے، لائف بوائی صابن یا ڈیٹول صابن یا اس قسم کا کوئی لیکویڈ اس کا متبادل ہو سکتے ہیں، اگر متبادل ہوسکتے ہیں تو مسجد کے دروازے پر واش بیسن نصب کرکے یا پھروضو خانہ میں جگہ جگہ یہ صابن یا مذکورہ لیکویڈ رکھا جائے اور ہر نمازی کو پابند کیا جائے کہ مسجد میں آتے ہی نماز میں شامل ہونے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو صابن سے یا لیکویڈ سے اچھی طرح دھو لیا کریں۔
(۲) دوسری غور طلب بات یہ ہے کہ جماعت کی نماز میں پہلے ہی سےدوصفوں کے درمیاں ایک میٹر کے قریب فاصلہ ہوتا ہے، کیوں کہ بوقت جماعت کوئی نمازی کسی نمازی کے آمنے سامنے نہیں ہوتا ہے بلکہ سب کا رخ ’’چہرہ‘‘ قبلہ کی طرف ہوتا ہے اور ہر دو صف کے درمیان ایک میٹربلکہ اس سے بھی زیادہ فاصلہ ہوتا ہے تو کیا یہ فاصلہ سوشل ڈسٹنسنگ (social distancing) کے لئے کافی ہوسکتا ہے؟ اگر چند منٹوں کے لئے یہ فاصلہ کافی ہو سکتا ہے تو کیا دو مصلوں کے درمیان مزید فاصلے کی ضرورت باقی رہے گی؟
(۳) تیسری غور طلب بات یہ ہے کہ وہ مساجد جو مارکٹ اور بازاروں کے درمیان واقع ہیں وہاں کے دکاندار نمازیوں کو مسجد میں وضو کرنے ، طہارت کرنے اور سنتیں ادا کرنے کی سہولت باقی رہنا چاہئے یا نہیں؟ اگر باقی رہنا چاہئے تو ان مساجد کی انتظامیہ کے لئے ضروری ہے کہ ہر نماز سے پہلے طہارت خانے اور وضو خانہ کی صفائی کا بہت زیادہ اہتمام رکھیں، وضو خانہ کی درمیانی بیٹھک کو معطل کردیں تاکہ وضو خانہ کے دوران بھی سوشل ڈسٹنسنگ (social distancing)کا اہتمام باقی رہے ، اور اسی اہتمام کے ساتھ سنتوں کی ادائیگی کا بھی انہیں موقع دیا جانا چاہئے، مسجد سے باہر نکلنے میں بھی اس اہتمام کو باقی رکھیں، ایک ساتھ نہ نکلیں بلکہ فاصلہ کے ساتھ علاحدہ علاحدہ نکلنے کا اہتمام کریں،
اس موقع پر یہ ناچیز تمام مسلمان مرد و خواتین سے گذارش کرتا ہے کہ مسجدوں کی باز آبادی کی خوشی میں دو رکعت نماز تین نیتوں کے ساتھ ادا کریں، (۱) شکرانہ کی نیت کریں، (۲) اس وبائی بیماری کے خاتمہ کی نیت کریں، (۳) توبہ و استغفار کی نیت کریں، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کی یہ دو رکعت قبول فرما کر ہم سب کو اس وباء نجات عطا فرمائیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×