اداریہ

تدفینِ چرم؛ ایک مفت کا مشورہ

دور حاضر میں سوشل میڈیا قائد بنتا جارہا ہے ‘  ایک بڑا طبقہ اس کو اپنا رہبر و پیشوا مان رہا ہے ‘ وہ جس سمت لے چلے اس جانب چلنے کو تیار ہے‘ سوشل میڈیا کے مقبول مبصرین و ناقدین رول ماڈل کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں جو جس کے من کی بات لکھتا یا بولتا نظر آتا ہے لوگ اسے اپنا آئیڈیل اور رہبر ماننے کے لیے تیار ہیں‘ اسی وجہ سے رفتہ رفتہ امت کا ایک بڑا طبقہ بے راہ روی کا شکار ہوتا جارہا ہے‘اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ غیر اہم مدعوں پر بے سر و پا بیان بازیاں کرکے لوگوں کو گمراہ کررہے ہیں۔ جس میں سمجھدار اور سنجیدہ قسم کے لوگ بھی  بھکاوے کا شکار ہورہے ہیں۔ عید الفطر کے بعد سے کچھ لوگ اپنے اپنے طور پر سوشل میڈیا پر یہ اپیل کرتے نظر آرہے ہیں کہ امسال عید الاضحی کے موقع پر چرم کو دفن کردیا جائے اور اس کو فروخت نہ کریں‘ کوئی تحریری طور پر اپیل کررہا ہے تو کوئی ویڈیو کی شکل میں التماس کرتا نظر آرہا ہے‘ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ان اپیلوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سمجھ دار قسم کے لوگ  اس کو شیئر کر رہے ہیں‘ چرمِ قربانی کو دفن کرنے سے مسلمانوں کا فائدہ یا نقصان ایک الگ موضوع ہے‘ لیکن قربانی کے اس واجب عمل کا ہم پر کتنا احترام لازم ہے ہم کو اس کا بھی محاسبہ کرنا چاہیے‘  ہم لوگ چار پیسوں کے نہ ملنے کی وجہ سے صدقہ کے ثواب سے بھی محروم رہ جائیں گے؟ ہم کو ان باتوں کو سنجیدہ انداز میں سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

پہلی بات تو یہ کہ چرم قربانی کی قیمت مسلسل گراوٹ کا شکار اس لیے ہے کہ چمڑے کے بالمقابل چرمیLEATHERETTE تیار کرلیا گیا جس کی قیمت چمڑے کی آدھی قیمت سے بھی کم ہے‘ اس کو جعلی چمڑا بھی کہا جاتا ہے مضبوطی کے اعتبار سے چمڑے کے تقریبا مساوی ہے ہندوستان ہی نہیں دینا بھر میں اس کا چلن عام ہوتا جارہا ہے ‘ جس کی وجہ سے چرمِ کی قیمت میں گراوٹ آچکی ہے‘ اس کے خریدار کم ہوچکے ہیں ۔ بیرون ممالک میں بھی چرم نہایت کم داموں پر فروخت ہورہا ہے۔ اس لیے عالمی منڈی میں چرم کی قیمت حد سے زیادہ گھٹ گئی ہے اور لیدر بے حیثیت ہورہا ہے۔

دوسری بات: چرم محض قربانی کے موقع پر ہی فروخت نہیں ہوتا بلکہ اس کا کاروبار سال کے بارہ مہینے بڑے پیمانہ پر جاری رہتا ہے۔ ہندوستان بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں سلاٹر ہاؤس ہے جہاں پر روزانہ ہزاروں کی تعداد میں بڑے جانور ذبح کرکے گوشت ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ امریکہ کے محکمہ زراعت (یو ایس ڈی اے) کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ہندوستان دنیا کو بیف سپلائی کرنے والا نمبر ایک ملک رہا ہے۔ اس معاملے میں ہندوستان نے برازیل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ برازیل 2018ء میں جہاں 2؍ملین میٹرک ٹن بیف ایکسپورٹ کیا تھا‘ وہیں ہندوستان 2.4؍ملین میٹرک ٹن بیف سپلائی کرکے نمبر ایک کا خطاب حاصل کرچکا ہے۔ بیف کے ایکسپورٹ میں پاکستان کا حصہ فقط 0.62 فیصد ہے اور پاکستان دنیا کو سپلائی کرنے والے کل بیف میں سے فقط 65؍ہزار میٹرک ٹن ہی سپلائی کرتا ہے۔ دنیا کو بیف ایکسپورٹ کرنے والی سب سے بڑی کمپنی الکبیر ایکسپورٹس پرائیویٹ لمیٹیڈ جس کے مالک ستیش سبروال ہیں جنہوں نے 400؍ ایکڑ اراضی پر اپنا مذبح بنایا ہے اسی طرح اربین ایکسپورٹرس لمیٹیڈ ہیں جہاں سے 40؍ممالک کو بیف پہنچایا جاتا ہے۔ اتر پردیش کے اناؤ میں ہندوستان کا تیسرا سب سے بڑا مذبح اے وائی ایکسپورٹس لمیٹیڈ کے او پی اروڑہ اور مظفر پور اور میرٹھ میں بوچڑ خانے چلانے والے سنیل سود کی کمپنی النور ایکسپورٹس ودیگر بیسیوں ایسی کمپنیاں جو گوا‘ مہاراشٹرا‘ اترپردیش ودیگر ریاستوں میں واقع  ہیں اور دینا بھر میں بیف ایکسپورٹ کررہی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں جانور کٹتے ہیں اور اتنی ہی کھالیں نکلتی ہیں۔ یہاں یہ تذکرہ اس لیے کیا جارہا ہے کہ چرم کی ہندوستان میں کوئی کمی نہیں ہے یہ سال بھر چلنے والا کاروبار ہے‘ چرم کا تعلق محض قربانی سے ہی نہیں ہے؛ بلکہ ان کاروباریوں سے بھی ہے جو سال بھر اپنی تجارت میں مصروف ہے۔ تو ہماری تین دنوں کی قربانیاں بھلا کیا اجتجاج درج کرسکتی ہے۔

تیسری بات یہ کہ لوگ دفن کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں حال یہ ہے کہ انسانوں کو دفن کرنے کے لیے قبرستانوں میں جگہ نہیں ہے تو بھلا چرم کو دفن کرنے کے لیے کہاں سے جگہ بنا پائیں گے؛ بلکہ بعض شہروں کا حال یہ ہے کہ انسانوں کو رہنے کے لیے جگہ نہیں ہے تو وہ لوگ چرم کو کہاں دفن کرکے راحت کی سانس لیں گے؟۔

چوتھی بات یہ کہ اہلِ مدارس و دینی تنظیموں کے ذمہ داران پہلے سے یہ منصوبہ بندی کرلے کہ چرم وصولی میں اتنے ہی افراد کو استعمال کریں جتنوں کی ضرورت ہوتی ہے بلا وجہ افراد محض خرچہ کا سبب بنیں گے‘ کاؤنٹرس کی تعداد بڑھائیں پھر پھر کر وصول کرنے والوں کی تعداد کم کریں تاکہ پٹرول ودیگر خرچوں سے محفوظ رہ سکیں‘ چرم وصولی میں گھر گھر پہنچنے کے بجائے پہلے ہی سے کاؤنٹر پر لاکر دینے کی ترغیب دیں اور اسی انداز کی تشہیر بھی کریں تاکہ چرم سے ملنے والی قیمت زیادہ سے زیادہ نفع بخش ثابت ہوسکے۔

پانچویں بات یہ کہ قربانی واجب اور احترام والی عبادت ہے اس کی ہر چیز لائق احترام ہے اور چرم کے صدقہ پر بھی اجر و ثواب ہے۔ لہذا اس کے ساتھ بے حرمتی کرنے کے مشوروں کو وہیں پر ختم کردیں اس کو شئیر کرکے دوسروں کو الجھن میں نہ ڈالیں۔
صاحبِ ثروت حضرات از خود کاؤنٹروں تک پہنچ کر ثواب کی نیت سے چرم دیں گھروں تک کارندے آنے کا انتظار نہ کریں۔ اس پر دوہرا اجر ملے گا۔

آخر میں ممبئی کےوہ  حضرات جنہوں نے دارالعلوم دیوبند سے چرم کو دفن کرنے سے متعلق  سوال کیا وہ ملاحظہ فرمائیں۔
Indiaسوال # 171966
ممبئی میں بکروں کی قربانی کی کھالوں کی قیمت پہلے 350روپئے تک آتی تھی ، مگر اب قیمت 30روپئے آرہی ہے، کچھ لوگوں کا مشورہ ہے کہ کھالوں کو دفن یا دجلا دیا جائے اور اسی کی قیمت 200روپئے کے حساب سے صدقہ کردیاجائے تاکہ کھال کی بزنس کرنے والوں کو بھی سبق ملے اور صدقہ کے مستحقوں کو مناسب قیمت ملے، کیا یہ طریقہ مناسب ہے؟ براہ کرم، جواب دیں۔
Published on: Jul 17, 2019 جواب # 171966
بسم الله الرحمن الرحيم

Fatwa : 1056-938/M=11/1440

یہ صرف ممبئی کی بات نہیں ہے بلکہ پورے ملک میں عمومی صورت حال تقریباً اسی طرح ہے، اور اس کا ذمہ دار تنہا کھال کی بزنس کرنے والوں کو سمجھنا بھی صحیح نہیں یہ معاملہ اوپر سے جڑا ہوا ہے، اس لئے کھالوں کو دفنانے یا جلا دینے کا طریقہ مناسب نہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

Related Articles

One Comment

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
    محترم ایڈیٹر صاحب
    امید کہ بخیر ہوں گے! تدفینِ چرم کےسلسلے میں آپ کا پیغام برموقع راہنمائی ہے اور لوگوں کی تشویش ختم کرنے کی بہتر کوشش ہے، اگر آپ مناسب سمجھیں تو اسےرومن انگلش میں تیار کرکے اور عام کریں تاکہ اردو نہ جاننے والے نوجوانوں تک بھی یہ پیغام پہونچ سکے ۔
    جزاکم اللہ خیرا

سید خواجہ نصیر الدین قاسمی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×