اداریہسیاسی و سماجی

ہجومی تشدد کی ملک بھر میں پھیلی ہوئی آگ

برسراقتدار حکومت کو جب سے تخت ملا ہے، اقلتیوں میں مسلسل بے چینی و اضطراب پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تقاریر اور انٹرویوز میں بڑی بڑی باتیں کرنے والے وزراء صرف باتوں کے ذریعہ ہی مطمئن کرنے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں، انسانیت سوز حرکتیں ہر دن نئے انداز میں جنم لے رہی ہیں، دادری کے اخلاق سے لیکر جھارکھنڈ کے تبریز انصاری تک اور اس سے بھی آگے بڑھ کر پورے ملک میں پھیلی ماب لنچنگ کی آگ اور آئے دن نئے نئے انداز میں پیش آنے والے واقعات نہ صرف اقلیتوں کے لیے پریشان کن بنے ہوئے ہیں؛بلکہ ملک کے تمام طبقات اس بارے میں تشویش میں مبتلا ہیں۔ وزیر اعظم ہند نے سال 2014ء میں ایوانِ پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ قدم رکھنے کے بعد ارکان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں مسلمانوں کے ایک ہاتھ میں قرآن تو دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ دیکھنا چاہتا ہوں؛ لیکن ہاتھ میں قرآن کیا دیکھتے بلکہ سینے میں قرآن لیے پھرنے والے معصوم نوجوانوں کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تب بھی کچھ بولنے کی جسارت نہیں کی گئی۔ 2019ء میں دوسری مرتبہ اقتدار پر آنے کے بعد بھی تقریر کا دلچسپ موضوع مسلمان ہی بنے رہے اور انہوں نے کہا کہ میں اقلیتوں کے دلوں سے خوف و ہراس کا ماحول ختم کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کے بعد سے مسلسل ہجومی تشدد کے واقعات رونما ہوتے چلے آرہے ہیں اس پر کوئی تبصرہ کرنا بھی گوارا نہ کیا۔

حال ہی میں انڈیا ٹی وی کے خاص شو آپ کی عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی، وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی اور ظفر سریش والا موجود تھے جس میں ایک صاحب کے سوال کیے جانے پر کہ آپ کی حکومت میں ہجومی تشدد کے اتنے واقعات پیش آرہے ہیں آپ لوگ اس بارے میں ٹھوس قدم کیوں نہیں اٹھاتے؟ اس پر وزیر محترم نے آزاد ہندوستان کی ستر سالہ تاریخ میں ہوئے بم بلاسٹ، فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب یہ تو نہیں ہورہا ہے، اس میں تو بہت ساروں کی جانیں چلی گئیں جب آپ نے یہ آواز نہیں اٹھائی اور آج بار بار ماب لنچنگ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ بس یہ حوالہ ایک بڑا جواب تھا، مختار عباس نقوی کے اس جواب سے صاف طور پر معلوم ہوگیا کہ حکومتِ ہند ان سب چیزوں سے صرفِ نظر کررہی ہے اور اس کے لیے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی ہے۔ حکومت کی اس سردمہری کی وجہ سے اقلیتوں میں مایوسی اور خوف بڑھتا جارہا ہے جبکہ شرپسندوں کو کھلی چھوٹ مل رہی اور ان کے حوصلے پروان چڑھ رہے ہیں۔ اس قدر بے رحمی سے پیٹا جارہا ہے جس سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر سے انسانیت نام کی چیز ہی ختم ہوچکی ہے، گویا انسانی مجسمے میں درندگی بس چکی ہے۔ بے شرمی کی بات تو یہ ہے کہ ان واقعات کی ویڈیو بناکر اس کو وائرل کیا جارہا ہے، جب درندے از خود ویڈیو بنارہے ہیں اور اس کو وائرل کیا جارہا ہے تو بہت آسانی کے ساتھ ان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے،ان پر مقدمہ چلا کر کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے؛ لیکن کیا کہیں یا تو قانون کی آنکھیں بند ہوچکی ہے یا پھر انہی کی نگرانی و سرپرستی میں یہ واقعات انجام پارہے ہیں۔
مسلم جماعتوں کے علاوہ ہندو تنظیموں کی جانب سے ان واقعات کی سخت مذمت کی جارہی ہے،ملک کے ایوانوں میں بھی اس کے لیے آواز اٹھائی جارہی ہے، لیکن ایوانوں میں فی الحال وندے ماترم اور جئے شری رام کے نعروں کے درمیان یہ آوازیں  پست ہوتی چلی جارہی ہیں‘ پولیس اسٹیشنوں میں شکایت لے جانے پر بعض جگہ ایف آئی آر درج نہیں کیا جارہا ہے تو بعض جگہوں پر اس کا الٹا اثر دیکھا گیا اور مظلومین پر مقدمات درج کرلیے جارہے ہیں یا پھر انہیں ڈرا دھمکا کر رخصت کردیا جارہا ہے۔
جو ملی تنظیمیں بالخصوص جمعیۃ علماء ہند، امارتِ شرعیہ اور جماعت اسلامی ہند وغیرہ اس مسئلہ کو لیکر ملک بھر میں احتجاج کررہے ہیں وہ قابل تعریف ہیں لیکن نا کافی ہے ایسے حالات میں ملت کے ہر فرد کو آگے آنا چاہیے اور کھل کر مظاہرہ کرنا کے چاہیے   NDTV معروف اینکر و صحافی رویش کمار نے کہا تین دن کا اجتماع اور عرس میں لاکھوں کی بھیڑ جمع کرنے والو! مسلمانوں کے قتل پر بھی ایک دن کے لیے دلی کی سڑکوں پر بھیڑ تو بلاؤ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ جب تک جمہوری طریقوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اقلیت متحده طور پر احتجاج نہیں کرے گی تو ظالموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا جاسکتا۔ یہ احتجاج میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقلیتوں کو بھی شامل کرلیا جائے تاکہ مضبوط انداز میں ہمارا احتجاج ہوسکے۔ ورنہ یہ چند جماعتوں کی جانب سے کچھ لوگ جمع ہوجائیں اور احتجاج کرلیں یہ محضبے سود رسم ادا ہوگی اور ہماری غفلت شرپسندوں کے حوصلوں کو بلند کردے گی۔ ملی و سماجی تنظیموں کو مل کر اس سلسلہ میں مضبوط قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جس طرح اپوزیشن کا بھارت بند منایا جاتا ہے اور پہلے ہی سے تاریخ طئے کردی جاتی ہے اور بھرپور احتجاج درج کیا جاتا ہے اسی طرح تمام اقلیتیں اگر مل جائیں اور ملکی پیمانے پر اپنا احتجاج درج کریں تو ملک کے چپہ چپہ میں اس کے بہترین اثرات مرتب ہوں گے۔  عوام الناس کو چاہیے کہ ملی و سماجی تنظیموں کی جانب سے آواز لگانے پر احتجاجی مظاہروں میں بھر پور حصہ لیں اور حکمرانوں اور اعلی افسران کو جگائے، صدر جمہوریہ کے نام پر میمورنڈم روانہ کیا جائے اور یہ مطالبہ کرے کہ:
ملک میں بڑھتے ان تشویشناک واقعات کی روک تھام کے لیے فوری طور پر قدم اٹھائے اور متاثرین کے ساتھ انصاف کا معاملہ کرے، ایسے مجرموں کو پھانسی یا تاعمر غیر ضمانتی وارنٹ کے ساتھ قید با مشقت کی سزا دی جائے، جن علاقوں میں ہجومی تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں وہاں کے پولیس اعلی عہدیداران کو برابر کا مجرم سمجھ کر اس کو برطرف کیا جائے یا سخت سزا نافذ کی جائے، تشدد کا شکارہونے والے مظلوم خاندان میں سے کسی ایک کو سرکاری نوکری دی جائے اور انہیں معقول معاوضہ دیا جائے۔ ایسے مقدمات کی پیروی کے لیے فاسٹ ٹریک کورٹ کا قیام عمل میں لایا جائے۔

جمہوری ملک میں جہاں پر ہر طبقے کو اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ جینے کا حق ہے، جہاں پر ہر کوئی اپنے مذہب کی تبلیغ کر سکتا ہے،اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے؛ لیکن یہاں کی گنگا جمنی تہذیب محض گنگا کی نظر ہورہی ہے اور پوری دنیا میں اس کی شبیہ متاثر ہورہی ہے۔ ٹائم میگزین کی اکثر رپورٹوں میں ہندوستانی گنگا جمنی تہذیب پر داغ لگا ہے، بارہا یہ بات کہی جارہی ہے ملک ایک خاص نظریہ کے تحت جارہا ہے اورسیکولر عوام میں بھی مذہبی شعور بیدار کرکے ہندوتوا ایجنڈے کو فروغ دے کر ملک کی سالمیت اور جمہوریت کا قتل کیا جارہا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×