اسلامیاتسیاسی و سماجیمفتی عبدالمنعم فاروقی

’’آپ کا ووٹ آپ کا مستقبل ‘‘ 

مفتی عبدالمنعم فاروقی 

  اس وقت ملک کے چپے چپے میںمرکزی الیکشن کی دھوم مچی ہوئی ہے ، سخت موسم کے باوجود بڑے بڑے قد آور لیڈر اپنے کارکنوں کے ساتھ سڑکوں پر گھومتے ہوئے پیدل دورے کررہے ہیں اور عام لوگوں کے دروازوںپر پہنچ کر ان سے اپنے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کر رہے ہیں ، ان لیڈروں کی گرم جوشی کے سامنے سورج کی گرمی ہلکی معلوم ہورہی ہے ،بعض لیڈر اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر ،سر کو جھکا کر اور انتہائی نرم لہجہ اپناتے ہوئے ووٹر سے اپنے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں تو بعض لیڈر عوامی جلسوں سے خطاب کے دوران اخلاقی حدوں کو پار کرتے ہوئے انتہائی غیر مہذب ،غیر سنجیدہ اور تکلیف دہ زبان استعمال کر تے ہوئے شرافت و اخلاق کی دھجیاں اُڑا رہے ہیں ،انہیں سن کر ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اپنی زبان سے الفاظ نہیں بلکہ آگ اگل رہے ہیں ،ان کی بھڑکاؤ تقریروں سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ الیکشن میں نہیں بلکہ کسی میدان جنگ میں کھڑے ہوئے ہیں ، بعض لیڈر مذہب کا سہارا لے کر کرسی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور بعض لیڈر مستقل طور پر مخصوص مذہب اور اس کے ماننے والوں کو نشانہ بناتے ہوئے ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرکے انہیں سبز باغ دکھا کر اپنے جال میں پھنسانے میں لگے ہوئے ہیں،عجیب بات یہ ہے کہ یہ عوامی خدمات کو بنیاد بناکر الیکشن جیتنا نہیں چاہتے ہیں بلکہ ملکی عوام کے درمیان مذہبی منافرت پھیلا کر اپنی سیاسی روٹی سیکھنا چاہتے ہیں اور الیکشن میں کامیاب ہونے پر ایسا اور ویسا کردینے کی باتیں کر رہے ہیں ،ان کا یہ انداز ہر طرح سے قابل لعنت اور لائق مذمت ہے، یہ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے مہذب اور سنجیدہ لیڈروں کو بدنام کر رہے ہیں ،ملک کی جمہوریت کو داغ دار بنارہے ہیں ،یہاں کی گنگا جمنی تہذیب کو روندنا چاہتے ہیں ،مختلف مذاہب کے درمیان پھوٹ ڈالنا چاہتے ہیں اور یہاں کی پُر امن فضا کو مکدر کرنا چاہتے ہیں ،اس وقت عوام کے پاس انہیں سبق سکھانے کا بہترین موقع ہے اور وہ ہے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال ،ان فرقہ فرستوں اور آئین وامن کے دشمنوں کو ووٹ کے ذریعہ ہی اوندھے منہ گرایا جاسکتا ہے اور یہ کام عوام سے بہتر اور کوئی نہیں کر سکتا ہے اور امید ہے کہ عوام یہ کام اور یہ عظیم کارنامہ کرکے دکھائی گی ۔
بڑے بڑے سیاسی بازیگر اپنے انتخابی جلسوں میں عوام کا جم غفیر بتاکر دیگر لوگوں کو مرعوب کرتے ہوئے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کے ذریعہ یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ہمارے کارناموں سے لوگ خوش اور مطمئن ہیں حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے آج جس پارٹی اور لیڈر کی تائید میں جم غفیر جمع ہے دوسرے دن ان میں کے اکثر کسی دوسری پارٹی اور لیڈر کی تائید کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ،پتا کرنے پر پتا چلا کہ یہ آئے نہیں ہیں بلکہ انہیں لایا گیا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ لیڈر کی نظر ووٹ پر ہے تو اس بیچاروں کی نظر پیٹ پر ہے ، سچ یہ ہے کہ جذبہ خدمت سے عاری لیڈر کو عوام کی نہیں بلکہ صرف اپنی پرواہ ہوتی ہے چنانچہ اکثر ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ دوران الیکشن عوام کے درمیان اور عوام سے ہاتھ جوڑ کر ووٹ کی اپیل کرنے والا الیکشن کے بعد ہاتھ میں جوتے لے کر عوام کے درمیان سے ایسا غائب ہوجاتا ہے جیسا استرا چلانے کے بعد سر سے بال غائب ہوجاتے ہیں ،کہنے والے نے بڑی عجیب بات کہی ہے کہ بیچاری عوام الیکشن کے زمانے میں بھی سڑک پر تھی اور الیکشن کے بعد بھی سڑک پر ہی ہے فرق اتنا ہے کہ الیکشن کے زمانہ میں لیڈر کے ساتھ بھیڑ میں کھڑی تھی اور الیکشن کے بعد لیڈر کے انتظار میں تنہا کھڑی ہے ،چنانچہ دانشوروں کا کہنا ہے کہ ووٹ ڈالتے وقت ہوش سے کام لیں نہ کہ جوش سے اس لئے کہ جذباتی فیصلے آگے چل کر اکثر شرمندگی اور افسوس کا باعث بنتے ہیں ۔
  یہ بات سبھی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ملک عظیم اور وطن عزیز کو انگریزوں سے آزاد کرانے اور آزادی کے بعد اس کے سر پر جمہوریت کا تاج سجانے میں ملک کے مسلمانوں کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے ،اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ آزادی کی طویل ترین جدجہد میں مسلمان پیش پیش نہ ہوتے تو شائد ملک آزاد نہ ہوتا اور نہ ہی جمہوریت کا تاج اس کے سر پر سجا یا جاتا، بلاشبہ مسلمانوں کی نظر میں وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے اور وہ وقت آنے پر اپنی جان دے کر وطن کی حفاظت کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ ان کے آبا واجداد نے ملک کی حفاظت کے لئے ایسے ایسے کارنامے انجام دئے ہیں جن کی مثالیں تاریخ کے صفحات میں بہت کم پڑھنے کو ملیں گی ، مسلمانوں کے مذہب اور ان کے پیشواوں نے انہیں یہ سب سکھایا ہے ،مسلمان آزادی کے بعد سے مستقل وطن کی ترقی میں دیگر ابنائے وطن کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ بعض چیزوں میں تو انہیں فوقیت بھی حاصل ہے ،جب کبھی وطن یا باشندگان وطن کسی حالات سے دوچار ہوئے تو سب سے پہلے مدد کے لئے آگے بڑھنے والے کوئی اور نہیں بلکہ سچے محبان وطن مسلمان ہی تھے ،چاہے دشمنوں کے حملے ہوں یا زلزلے اور سیلاب ہوں یا فسادات کے دکھ بھرے لمحات ہوں ان سب سے حالات میں مال ودولت اور جسم وجان لگادینے میں مسلمان ہی پیش پیش رہے ہیں ،اس کی گواہی خود برادران وطن نے دی ہے ،یقینا مسلمانوں نے ہر میدان میں ملک وملت کی غیر معمولی خدمت کی ہے ،کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔
اس وقت ہر ایک کی زبان پر دوہزار چوبیس کا الیکشن ہے حالانکہ آزادی کے بعد سے ملک میں ہر پانچ سال بعد صوبائی اور مرکزی الیکشن ہوتے رہتے ہیں مگر کیا بات ہے کہ اس الیکشن کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے اور ہر ایک کی زبان پر اسی کا تذکرہ ہے ،پیر وجوان اور بچے تک اس الیکشن میں گم ہیں ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مخصوص سیاسی اور سخت گیر مذہبی طبقہ جو خود کو اکثریتی طبقہ کا نمائندہ بتارہا ہے مذہبیت کا سہارا لے کر جمہوریت پر آمریت کو مسلط کرنا چاہتا ہے اور اس کے ذریعہ عوام کو اپنے کنٹرول میں لے کر اپنی من مانی کے ذریعہ ملک پر طویل ترین مدت تک کے لئے کنٹرول حاصل کرنا چاہ رہا ہے،سچ یہ ہے کہ یہ طبقہ کسی کا بھی خیر خواہ نہیں ہے بلکہ یہ شکاری کی طرح چند دانے دکھا کر شکار کو قید کرکے اپنے قبضہ میں کرنا چاہ رہا ہے ،اس طبقہ کی شر خواہی پر شک نہیں بلکہ یقین ہے اور اس کی شراتوں کے بے شمار ثبوت موجود ہیں ،دانشوروں کا کہنا ہے کہ اگر خدانخواستہ عوام ان کی باتوں سے دھوکہ کھاجاتی ہے تو ممکن ہے کہ وہ آگے چل کر ووٹ کی طاقت سے محروم ہو جائے گی کیونکہ جب دستور محفوظ نہیں رہے گا تو پھر حقوق بھی محفوظ نہیں رہیں گے اور جب حقوق سلب کرلئے جائیں گے تو پھر اقتدار کی تبدیلی کی جو طاقت دستور نے عوام کو دی ہے اس سے عوام محروم ہوجائے گی اور ایک بار پھر غلامی اس کا مقدر بن جائے گی ،کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یہ الیکشن باشندگان کے لئے اتنا ہی اہم ہے جتنا کہ آدمی کے لئے آکسیجن اہم ہوتا ہے ۔
جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں اقتدار اعلیٰ عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے ،عوام جب چاہے جسے چاہے اور جس وقت چاہے اقتدار پر لا سکتی ہے اور اقتدار سے بے دخل بھی کر سکتی ہے اور وہ عظیم طاقت اس کا اپنا ووٹ ہے، جس شہری کو رائے دہی کا حق حاصل ہوتا ہے گویا اس کے کندھے پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعہ ایسے شخص کا انتخاب کرے جو صاحب فہم ،انصاف پرور ، امانت دار ،دیانت دار،مخلص ، ہمدرد ،خیر خواہ ، عوام کے درمیان محبت بانٹنے والا اور اس دستور کی مکمل حفاظت کرنے والا ہو جس کے طفیل اس کی رسائی یہاں تک ممکن ہوئی ہے ،چنانچہ مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات پر گہری نظر رکھنے والوں نے جمہوری ممالک میں ووٹ کو ایک اہم ملکی ،ملی اور قومی فریضہ قرار دیا ہے ، بلکہ علماء اور فقہاء نے شریعت کی روشنی میں ووٹ کو ایک دینی فریضہ بتلایا ہے اور ووٹ نہ دینے کو جس کی وجہ سے آگے چل کر عوام کو نقصان ہو سکتا ہے ایک طرح کا مجرم قرار دیا ہے، اہل علم نے ووٹ کو شہادت،امانت ،وکالت اور سفارش کا درجہ دیا ہے اور شرعی دلائل کے ذریعہ اسے ثابت کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی ہے ۔
اس وقت ملک کی صورت حال انتہائی نازک ہے شر پسند ،مذہبی لبادہ میں نفرت کے سودہ گر ، امن کے دشمن اور جمہوریت کے قاتل جمہوریت ہی کے راستے یعنی ووٹ کے ذریعہ جمہوری محل گرانا چاہتے ہیں اور جملہ باشندگان کو دستور اور جمہوریت کے ذریعہ جو حقوق حاصل ہیں اسے ان سے چھینا چاہتے ہیں ، انہیں مجبور وبے بس بناکر ان پر اپنی مرضی تھوپنا چاہتے ہیں اور آنے والی نسلوں کے مستقل پر اپنا قبضہ جمانا چاہتے ہیں اور انہیں ایسی راہ پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں جہاں وہ اپنی پر مرضی سے آپ کو چلا سکے چنانچہ اس نازک ترین حالات میں دستور بچانا گویا دیش بچانا ہے ،دستور بچے گا تو ہی دیش محفوظ رہے گا اور دیش کے باشندگان آزاد اور محفوظ رہ پائیں گے ،جمہوریت اور دستور بچانے کا اہم ترین ذریعہ ’’ووٹ کا صحیح استعمال ہے ‘‘ووٹ کا صحیح استعمال ہی فرقہ پرستوں کی عقل ٹھکانے لا سکتا ہے ،انہیں ان کے ناپاک عزائم سے باز رکھ سکتا ہے اور ان کے شر سے پورے ملک وملت کو بچا سکتا ہے ،ووٹر کی معمولی غلطی وغفلت ملک وملت کے مستقبل کو غیر محفوظ بنا سکتا ہے بلکہ بعض دور بینی نظر رکھنے والوں نے یہاں تک کہا ہے کہ حق رائے دہی سے غفلت آپ کو غلام بنا سکتی ہے اس لئے جن لوگوں کو ملک کے قانون کی رو سے ووٹ دینے کا حق حاصل ہے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جاگیں ،غفلت سے بیدار ہوجائیں اور دوسروں کو بھی جگانے میں مدد کریں اور پھر خوب غور فکر نے کے بعد اپنے ووٹ کا متحدہ طور پر استعمال کریں ، اپنے ووٹ کے لئے ایسے امیدوار کا انتخاب کرے جو آئین پر یقین رکھتا ہے ،جو اس کی حفاظت کا حوصلہ رکھتا ہے،جو ملک کی ترقی کو عزیز رکھتا ہے ،اپنے اندر خدمت کا بھر پور جذبہ رکھتا ہے اور پوری امانت ودیانتداری کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور شخصی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عوامی اور ملکی مفادات کے لئے کام کرنا چاہتا ہے۔
ووٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے امیدوار کے حق میں ووٹ دیںجس کی شخصیت صاف ستھری ہو اور جس کا کردار سچا و عمدہ ہو ،اسی طرح ایسے امیدوار کا انتخاب کریںجو بلا لحاظ مذہب وملت عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے اور انسانی بنیادوں پر احترام کرنا جانتا ہے ،ملک کے موجودہ حالات میں ووٹروں کے کندھوں پر بڑی بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ فرقہ پرست اور سخت ذہنیت کے حامل لوگوں کو شکست دیں اور جمہوریت پسند اور سیکولر مزاج رکھنے والوں کے حق میں اپنا ووٹ استعمال کرتے ہوئے انہیں کامیاب کرنے کی کوشش کریں ، اپنی اجتماعی قوت کو مضبوط کریں اور منتشر ہونے سے بچیں ،اس وقت مختلف تنظیمیں ،جماعتیں ،دانشور طبقہ اور خصوصا علمائے کرام اپنے مسندوں سے نکل کر عوام الناس اور خاص کر مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہو کر الیکشن میں ان رہنمائی کر رہے ہیں اور انہیں حالات سے واقف کرا رہے ہیں ،ووٹ کا استعمال کیسے کیا جائے اسے بتارہے ہیں ،ووٹ طاقت کیسے بن سکتا ہے اور اسے اجتماعی قوت بناکر کس طرح فرقہ پرستوں اور آئین کے دشمنوں کو شکست دی جا سکتی ہے اسے بتارہے ہیں اور یہ بھی بتارہے ہیں کہ اگر آئین خطرہ میں پڑجاتا ہے تو مذہبی آزادی خطرہ میں پڑجائے گی اور جب مذہبی آزادی پر ضرب لگے گی تو پھر ہم ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والے بے جان ہوکر رہ جائیں گے ،یقینا سنجیدہ لوگ خطرہ بھانپ کر بیدار اور چوکنا ہو جاتے ہیں اور اس کے برعکس غافل خطرہ میں گھِر کر واویلامچاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ایک قافلے کا چوکیدار رات کو سوگیا اور چور اہل قافلہ کا تمام مال واسباب لوٹ کر چلے گئے جب دن چڑھا تو اہل قافلہ نے دیکھا کہ ان کا تمام سامان غائب ہے اور چوکی دار ایک طرف آہ وفغاں کر رہا ہے اور کبھی آنکھیں نکال کر چابک ہوا میں چلاتا ہے ،قافلے والوں نے جب سوال کیا تو چوکی دار نے کہا کہ چور منہ پر نقاب ڈال کر آئے تھے اور بڑی تیزی سے مال لوٹ کر چلے گئے ،قافلے والوں نے کہا تو اس وقت کیا کر رہا تھا ؟ تونے مزاحمت کیوں نہیں کی؟ ،چوکی دار نے کہا میں ایک تھا اور وہ زیادہ تعداد میں تھے ،قافلے والوں نے کہا تو نے ہم کو آواز کیوں نہیں دی ؟چوکی دار نے کہا کہ وہ مجھے دھار دھار ہتھیار دکھا رہے تھے اگر میں آواز لگاتا تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ،قافلے والوں نے کہا اب کیوں ہوا میں ہتھیار لہرا رہا ہے ؟تو چوکی دار نے کہا کہ ان ظالموں کو اپنے سامنے تصور کرکے ہتھیار چلا رہا ہوں تاکہ دل کی بھڑاس کچھ تو نکلے ،اسی کو کہتے ہیں اَب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چُگ گئیں کھیت ،اس لئے وقت گزرنے کے بعد افسوس کرنے کے بجائے وقت پر ووٹ ڈالئے اور ہوش مندی کا مظاہرہ کیجئے اور دوسروں کو بھی توجہ دلائے اور مشورہ کے ساتھ متحد ومنظم ہوکر ووٹ ڈالئے یاد رکھیں آپ کا ووٹ ملک کی تاریخ رقم کر سکتا ہے ،فرقہ پرستی کو شکست دے سکتا ہے اور آپ کا ووٹ آپ کا مستقبل ہے ،یقینا صحیح تدبیر پر اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت اتر تی ہے ،حفیظ بنارسی نے کیا خوب کہا ہے   ؎
تدبیر کے دست ذریں سے تقدیر درخشاں ہوتی ہے
قدرت بھی مدد فرماتی ہے جب کوششِ انساں ہوتی ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×