اداریہ

بھارت میں انتخابات اب پیسے اور طاقت کے اظہار کا ذریعہ بن چکے ہیں

اگر یہ بات کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ منوگوڑ کا ضمنی انتخاب ملک کی تاریخ کا مہنگاترین انتخاب ثابت ہوا ہے۔ جہاں پچھلے دو تین مہینوں سے لگاتار انتخابی مہم چل رہی تھی اور خاص طور پر مرکز میں برسراقتدار پارٹی بی جے پی اور تلنگانہ کی برسراقتدار پارٹی ٹی آر ایس نے اس الیکشن کو اپنی عزت نفس سے تصور کرنے لگے تھے۔ اس الیکشن کو ریاست کے اگلے انتخابات کے لیے سیمی فائنل بھی تصور کیا جارہا تھا۔ پچھلے دو ضمنی انتخابات حضورآباد اور دوباک اسمبلی حلقوں میں بھاجپا امیدوار کی کامیابی کے بعد تلنگانہ کی رولنگ پارٹی ٹی آر ایس کی نیندیں حرام ہوچکی تھی۔ حضورآباد میں دلت بندھو اسکیم کے تحت دس دس لاکھ روپیے کے چیکس بھی امیدواروں کی جانب سے فی ووٹر تقسیم کی گئی بھاری رقومات پر اثر انداز نہیں ہوسکے۔ حالیہ منوگوڑ انتخاب جیت ہار کی جنگ بن چکا تھا جس کی وجہ سے دولت اور شراب کی اندادھند تقسیم کی گئی منوگوڑ میں مقامی عوام کے مطابق کئی اچھے خاصے نوجوانوں کو شراب کی عادت سی ہوگئی ہے کیوں کہ انتخابی مہم میں شراب کی تقسیم عام بات بن گئی تھی۔ شراب کی مفت میں عادت ڈال لینے والے نوجوانوں کو الیکشن کے بعد اب کوئی بھی پوچھنے والا تک نہیں رہا۔

ایسے میں تیلگو کے کثیر الاشاعت روزنامہ ایناڈو نے منوگوڑا کے اسمبلی حلقے میں ہوئے حالیہ ضمنی انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارت میں انتخابات اب پیسے اور طاقت کے اظہار کا ذریعہ بن گئے ہیں جن میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلتا ہے۔ اداریے کے مطابق انتخابی اصلاحات لازمی ہوچکی ہیں اور الیکشن کے موجودہ نظام و الیکشن کمیشن کے ڈحانچے کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ اردو ترجمہ ای ٹی بھارت نے کیا ہے آپ بھی ملاحظہ کیجیے:

منوگوڑا اسمبلی حلقے کا ضمنی انتخاب، جس پر تلگو سرزمین کی بھرپور توجہ مبذول رہی، آخرکار اختتام کو پہنچا ہے۔ انتخابات کے دوران جو کچھ بھی ہوا وہ بالکل واضح تھا۔ انتخابات نے ہمیں ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ انتخابی عمل پیسے اور طاقت کے کھیل میں بدل گیا ہے۔ ان دنوں سے جب ایک ووٹ کے لیے ایک روپیہ پیش کیا جاتا تھا سے لیکر آج تک جب کہ فی ووٹ 5000 روپے ادا کیے جارہے ہیں، سیاسی لیڈروں نے حالات کو خراب کرنے کے لیے ہر گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ الیکشن کمیشن سیاسی رہنماؤں کی جانب سے انتخابی قوانین کی خلاف ورزیوں پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ کچھ مدت قبل ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ انتخابی اخراجات کی زیادہ سے زیادہ حد ایک دن کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔
مطالعات کے مطابق، جن سیاسی جماعتوں نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ملک بھر میں 35,000 کروڑ روپے خرچ کیے تھے، وہ 2019 کے عام انتخابات میں تقریباً 60,000 کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں۔ بلیک منی یا کالے دھن کا بلا روک ٹوک بہاؤ اسمبلی انتخابات کے دوران بھی ایک معمول بن گیا ہے۔ بہت پہلے، جسٹس محمد عبدالکریم چھاگلا نے کہا تھا کہ ہندوستان میں یونیورسل ایڈلٹ فرنچائز کا نظام ہے، اس لیے نہ صرف منتخب نمائندوں بلکہ ووٹروں کی اعتباریت کا بھی تحفظ کیا جانا چاہیے۔ لیکن ان تمام برسوں میں سیاسی جماعتیں کیا کر رہی ہیں؟ انہوں نے ووٹروں کو رغبت کے نشے میں اتنا غرق کر دیا ہے کہ ووٹر کھلے عام ووٹ کے لیے پیسے مانگ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک شیطانی چکر میں الجھی ہوئی ہیں جس کے تحت وہ انتخابات میں کروڑوں روپے لگاتی ہیں اور پھر خرچ کی گئی رقم کی وصولی کے لیے بے قابو کرپشن کا سہارا لیتی ہیں۔
انتخابات میں پیسے کی طاقت اور مجرمانہ ٹریک ریکارڈ
پیسے کی طاقت اور مجرمانہ ٹریک ریکارڈ سیاسی جماعتوں کے لیے الیکشن لڑنے کے لیے اپنے امیدواروں کا انتخاب کرنے کا معیار بن گیا ہے۔ ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی سیاست کرنے کے علاوہ سیاسی جماعتیں ووٹوں کی تقسیم کا بھی سہارا لے رہی ہیں۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے بنیادی آئینی اصول کو سیاسی پارٹیوں نے مذاق بنا دیا ہے جو طاقت کے غلط استعمال کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن کی ساکھ کو برقرار رکھنا ہے تو الیکشن کمشنروں کا انتخاب وزیر اعظم، قائد حزب اختلاف اور چیف جسٹس آف انڈیا پر مشتمل ایک پینل کے ذریعے کیا جانا چاہیے، جیسا کہ لاء کمیشن نے تجویز کیا ہے۔ ایک طاقتور اور خود مختار انتخابی نظام کو پروان چڑھانا ہو گا جو صرف قانون کے سامنے جوابدہ ہو۔

جمہوری ملک میں انتخابی عمل کو جمہوری بنانا ضروری
انتخابی عمل کو مزید جمہوری بنانے کے لیے مختلف کمیٹیوں کی جانب سے اصلاحات کے حوالے سے جو سفارشات کی گئی ہیں وہ اب تک زیرِ بحث ہیں۔ ان سفارشات کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ ساتھ موجود فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ نظام جس میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار کو ہی منتخب کیا جاتا ہے اگرچہ شرح فیصد کے حساب سے اس کے خلاف زیادہ ووٹ پڑے ہوں، میں بھی اصلاحات کی جائیں۔ متناسب نمائندگی، جو کہ پارٹیوں کی جانب سے حاصل کردہ ووٹوں کے فیصد کو لے کر سیٹوں کی تعداد کا فیصلہ کرتی ہے جس کے وہ حقدار ہیں، کو نافذ کیا جانا چاہیے۔ اراکین اسمبلی کو پارٹیاں تبدیل کرنے کے فوراً بعد اپنی رکنیت سے محروم کر دینا چاہیے۔ انہیں پارٹی تبدیل کرنے کے بعد کم از کم پانچ سال کے لیے دوبارہ انتخاب کے لیے نااہل قرار دیا جائے۔ تب ہی انحرافات کی لعنت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ذاتی مفاد کے لیے ملکی مفادات کو نظرانداز کرنے والوں کو ٹکٹ نہیں دینا چاہیے
سیاسی جماعتوں کے لیے ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دینا بہت ضروری ہے جو اپنے مفادات کے لیے ملکی مفادات کو داؤ پر لگانے پر آمادہ نہ ہوں۔ سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے منشور میں اس بات کا اعلان کریں کہ وہ معاشرے کی ترقی کے لیے کیا اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ جو پارٹیاں لمبے چوڑے وعدے کرتی ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے بعد ان وعدوں کو فراموش کرتی ہیں، انہیں اقتدار میں رہنے نہیں دینا چاہیے۔ ہم ایک جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ اسی وقت کر سکتے ہیں جب اس طرح کی جامع اصلاحات کی جائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×