مولانا حسن الہاشمی کی وفات کی خبر سن کر تکلیف ہوئی ـ وہ اپنی وضع کے انوکھے انسان تھے اور پرانے فاضلِ دیوبند، قلم و قرطاس سے ان کا تعلق بھی بڑا توانا تھاـ معروف صاحبِ علم و قلم مولانا عامر عثمانی کے داماد تھے اور انیس سو پچہتر میں مولانا کے انتقال کے بعد کچھ دنوں تک انھوں نے ہی ان کا مشہور رسالہ "تجلی "نکالا تھا،تب وہ مولانا حسن احمد صدیقی ہوا کرتے تھے۔
میری ان کے نام اور کام سے پہلی غائبانہ شناسائی کا واقعہ قدرے دلچسپ ہےـ غالبا عربی چہارم کا سال ہوگاـ میں رمضان کا مہینہ ممبئی میں گزار کر واپس اپنے وطن (بدھنگرا) سیتامڑھی لوٹ رہا تھا، اتفاقاً ٹرین کی جس بوگی میں میری سیٹ تھی، اس کی بغل میں ہی ایک سنی بریلوی مولانا صاحب کی سیٹ تھی۔ کچھ دیر تک تو ہم دونوں خاموش رہے،مگر پھر انھوں نے ہی پیش قدمی کرتے ہوئے مجھ سے نام،گاؤں وغیرہ پوچھا، جب میں نے بتایا تو کہنے لگے: کہاں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا جامعہ اسلامیہ قاسمیہ بالاساتھ، تو وہ بولے: اچھا! میرا گاؤں بھی پڑوس میں ہی پڑتا ہےـ اس کے بعد انھوں نے اپنی زنبیل کھولی اور "طلسماتی دنیا "نامی رسالے کے کئی شمارے دکھاتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ یہ رسالہ پڑھا ہے کبھی؟ میں تو پہلی بار دیکھ رہا تھا، سو نفی میں جواب دیا، تو انھوں نے بتایا کہ یہ تمھارے دیوبند سے نکلتا ہے اور ہم لوگ بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں، یہ سن کر مجھے واقعی حیرت ہوئی کہ دیوبند سے نکلنے والا رسالہ ایک "سنی‘‘ مولانا صاحب کیسے ذوق و شوق سے پڑھ سکتے ہیں؟لیکن جب ایک دوشمارے الٹ پلٹ کر دیکھے تو عقدہ کھل گیاکہ یہ پورا رسالہ تعویذات و عملیات سے متعلق مضامین اور ترکیبوں پر مشتمل تھا،البتہ اس میں ایک دو علمی مضامین بھی تھے،خصوصاً ایک کالم’’اذانِ بت کدہ‘‘کے عنوان سے بڑا مزے دار لگا۔
خیر تبھی سے مجھے مولانا ہاشمی کو دیکھنے اور ان سے ملنے کا اشتیاق تھا۔ جب ۲۰۰۸میں مَیں دارالعلوم دیوبند پہنچا،تو داخلہ وغیرہ کی کارروائیوں سے فراغت اور تعلیمی سلسلے کے آغاز کے بعد کتب خانوں کے چکر لگانا شروع کیا،ایک دن فیصل بکڈپو کے یہاں ایک ایک کتاب ملی جس کا نام تھا ’’اذانِ بت کدہ‘‘اور مصنف تھے یہی مولانا حسن الہاشمی صاحب،میں نے کتاب خریدی اور بہت چاؤ سے پڑھی۔ یہ دراصل مختلف سماجی و سیاسی موضوعات پر ان کے طنزیہ مضامین کا مجموعہ ہے۔ ہاشمی صاحب نے دراصل اس سلسلے میں اپنے خسر مولانا عامر عثمانی کا تتبع کرنے کی کوشش کی ہے،عامر عثمانی ’’تجلی ‘‘میں مسجد سے مے خانے تک کے عنوان سے طنزیہ کالم لکھا کرتے تھے،جو بہت مقبول تھا۔ اس کے تحت چھپنے والے تمام مضامین اسی نام سے کتابی شکل میں بھی دستیاب ہیں۔البتہ ہاشمی صاحب اور عامر عثمانی صاحب میں فرق یہ ہے کہ عامر عثمانی نے موضوعات تو اپنے آس پاس کے ماحول سے منتخب کیے ہیں؛لیکن کہیں کسی حقیقی کردار یا شخصیت کا اپنی تحریروں میں ذکر نہیں کیا ہے،جبکہ ہاشمی صاحب کسی قلم کار کے مضمون یا کسی مذہبی یا سیاسی رہنما کے کسی بیان کے کسی حصے کوسامنے رکھتے،جو ان کے نزدیک قابل اعتراض ہوتا اور پھر اس پر اپنے قلم کے تیر چلاتے۔ ان کےاسلوبِ تحریر میں عامر عثمانی کی طرح ہی طنز کی کاٹ تھی اور اپنے ہدف پر بے دریغ وار کرتے تھے،البتہ جملوں کی ساخت میں زبان و بیان کی چاشنی بھی ہوتی تھی،تو پڑھنے میں مزا آتا تھا۔ میں نے ان کی اس کتاب کے علاوہ ان کے رسالے میں چھپنے والے ’’اذانِ بت کدہ‘‘کے کالمز بھی بڑی دلچسپی سے پڑھے۔ پھر اسی سال کسی موقعے پرانھیں براہِ راست دیکھنے اور سننے کا بھی موقع ملا۔اس کے تین چار سال بعد جب میں دارالعلوم دیوبند کی صحافتی خدمات پر تحقیق کر رہا تھا،تو ان پر بھی لکھنا تھا،سومعلومات کے حصول کے لیے ان کے گھر جانا ہوا اور بالمشافہ ملاقات ہوئی،بس یہی پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ خلوص سےملے اور ان کی مجلس میں تھوڑی دیر بیٹھ کر معلومات میں کافی اضافہ ہوا۔ اپنی فطری کم آمیزی کی وجہ سے میں توزیادہ تر دارالعلوم کے اپنے اساتذہ کے لیے بھی غیر متعارف ہی رہا،تو باہر کی کسی شخصیت کے یہاں اٹھنے بیٹھنے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ سودیوبند میں پانچ سالہ قیام کے باوجود مولاناہاشمی کو براہِ راست دیکھنا ۲۰۰۸ میں اور ملنا ۲۰۱۲میں نصیب ہوا اور بس!
وہ اور ان کا خانوادہ بعض ذاتی اور تاریخی وجوہات کی بناپر ہمارے دور کی دارالعلوم کی انتظامیہ سے ناخوش تھا،مگر اس خاندان کے زیادہ تر لوگ خاموش ہی رہتے،البتہ ہاشمی صاحب کھل کراپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ان دنوں’’طلسماتی دنیا‘‘میں اس وقت کےمہتمم دارالعلوم مولانا مرغوب الرحمن بجنوری کے نام سلسلہ وار ان کا کھلا خط شائع ہو رہا تھا،جس میں وہ مہتمم صاحب کو دارالعلوم کے بہت سے داخلی امور پر توجہ دلایا کرتے تھے۔ مضمون ان کے خط کا کیا ہوتا تھا،اس سے قطعِ نظر زبان وبیان کا چٹخارہ لینے کے لیے میں وہ خط بڑے انہماک اور مزے سے پڑھا کرتا تھا۔
ایک بات اور ان کے رسالے کے بارے میں ہم نے سنی تھی کہ اس کے پرانے شمارے نئے شمارے سے زیادہ مہنگے بکتے ہیں اور دیوبند میں کتب خانہ حسینیہ کے باہر کتابیں اور رسالے بیچنے والے سے اس کی تصدیق بھی ہوئی۔ مجھے مولانا نے بتایا تھا کہ دیوبند سے شائع ہونے والے دیگر اردو رسائل کے بر خلاف ان کے اس رسالے کا اچھا خاصا سرکولیشن ہے اور یہ ہندوستان ہی نہیں،پاکستان،برطانیہ،امریکہ اور خلیجی ممالک تک میں پڑھا جاتا ہے اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ دیوبندسے نکلنے والا یہ رسالہ بریلوی طبقے میں زیادہ پڑھا جاتا تھا۔ وجہ وہی اس کی’’روحانی‘‘ نوعیت اور رسالے کا مخصوص نیچر تھا۔ میں نےکہیں پڑھا ہے کہ ابتدائی دور میں مولانا ہاشمی نے بڑی جدوجہد کی ،مولانا عامر عثمانی کی وفات کے بعد ان پربڑی ذمے داریاں آگئی تھیں،ان کا رسالہ نکالنےکی کوشش کی،مگر زیادہ دن نہیں چلا پائے،پھر کچھ اور کاروبار کیا،مگر ناکام رہے،بالآخر تعویذات اور ’’طلسماتی دنیا‘‘کی راہ پر آئے اور میرے خیال میں اس کے ذریعے انھیں خاصی مالی آسودگی بھی حاصل ہوئی اور اپنی ایک شناخت بھی قائم کی۔ مقامی سطح پر سماجی سرگرمیوں میں بھی شامل رہتےتھے،مختلف ملی و قومی معاملات پر اخبارات میں ان کے بیانات بھی نظر سے گزرتے رہتے تھے۔ ابھی چند دن قبل ہی انھوں نے فرانس کے واقعے پربیان دیا تھا۔ دودن قبل تک وہ فیس بک پر ایکٹیو تھے۔ عمر ان کی ستر سال سے زائد تھی ،منگل کو ان کی طبیعت بگڑی،مظفر نگر کے ایک نجی ہسپتال میں داخل کیے گئے اور آج بعد مغرب وفات ہوگئی۔ زندگی کا کیا ٹھکانہ،کون،کب کیسے چل بسے،یوں بھی آج کل وباؤں کے دن ہیں،اس سال تو کیسی کیسی جاندار اور شاندار صورتیں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوگئیں،انہی میں مولانا حسن الہاشمی بھی شامل ہوگئے۔ اللہ پاک خاص رحم و کرم کا معاملہ فرمائے،حسنات کو قبول فرمائے اور کوتاہیوں سے درگذرفرمائے۔ شہر دیوبند ایک دلچسپ شخصیت سے خالی ہوگیا،ان کے ساتھ دیوبند کی ایک تاریخ بھی چل بسی،جو صرف وہ جانتے تھے اور جس کے مختلف پہلووں پر وقتا فوقتاًاظہارِ خیال کیا کرتے تھے۔