جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کس کس پر روئیں کس کس کا ماتم کریں ؟
ایک کی تعزیت سے ابھی سنبھلنے نہیں پاتے کہ دوسرا سانحہ پیش آتا ہے گزشتہ کل 7؍ اگست 2020 کی صبح بروز جمعہ حضرت قاضی سمیع الدین صاحب بھی داغ مفارقت دے گیے. مولانا سید ولی اللہ صاحب علیہ الرحمہ کے سانحہ کے بعد ریاست تلنگانہ میں قاضی صاحب کا دوسرا سانحہ ہے جس نے ریاست کے علمی حلقوں کو سوگوار کردیاہے قاضی صاحب کے انتقال کی خبر علماء وعوام پر بجلی بن کر گری .قاضی صاحب کی شخصیت عوام وخواص دونوں حلقوں میں مقبول تھی۔ اللہ نے غیر معمولی مقبولیت اور ہر دلعزیزی عطا فرمائی تھی۔ قاضی صاحب ریاست تلنگانہ کے بزرگ ومؤقر عالم دین تھے علمی حلقوں میں انھیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا وہ ایک باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ مزاج میں متانت وسنجیدگی کا عنصر غالب تھا تواضع وانکساری کے پیکر تھے ہرایک سے خندہ پیشانی سے ملتے سادگی میں اسلاف کا نمونہ تھے۔ نوفارغ علماء کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے تھے اور ان کی خدمات کو سراہتے تھے میدک اور اطراف کے جلسوں میں اکثر قاضی صاحب ہی صدارت فرماتے تھے۔ آغاز سے اختتام تک تشریف فرماتے اور نوجوان علماء کی تقاریر غور سے سنتے اور اپنے صدارتی خطاب میں ان کی تحسین فرماتے۔
حضرت قاضی صاحب کو دیکھ کر سلف کی یاد تازہ ہوتی تھی وہ فی الواقع نمونہ اسلاف تھے .حضرت قاضی صاحب کا شمار دکن کے ان علماء ہوتا ہے جنھوں نے ایک ایسے وقت عملی میدان میں قدم رکھا جبکہ دکن کا علاقہ علماء حق سے خالی تھا پورے علاقے میں خال خال علماء حق نظر آتے تھے۔ اس وقت نہ مدارس کی کثرت تھی اور نہ اداروں کی بہتات. حالات انتہائی نامساعد تھے ایسے حالات میں اس وقت کے علماء نے بڑی قربانیوں کے ساتھ دینی خدمات کو جاری رکھا عوام الناس کی مخالفتوں کو جھیلا۔ قاضی صاحب کی ابتدائی تعلیم جامعہ عربیہ سیوا نگر میں ہوئی۔ جامعہ عربیہ سیوا نگر دکن کے علاقے میں علماء حق کا سب سے قدیم ادارہ ہے۔ علاقے کے بیشتر قدیم علماء نے اسی ادارہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کرکے اعلی تعلیم کے لیے دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا۔ قاضی صاحب نے دارالعلوم سےفراغت کے بعد اپنے علاقے میں کام کرنےکو ترجیح دیا اپنے وطن مالوف نرسا پور میں مفتاح العلوم کے نام سے مدرسہ قائم کیا اور اخیر تک اس کا اہتمام سنبھالتے رہے ادارہ کی ترقی واستحکام کے لیے ہمیشہ فکر مندرہتے تھے۔ قاضی صاحب میدک اور اطراف کے علاقوں کی بھر پور دینی سرپرستی فرماتے تھے علاقے کے علماء اور عوام اپنے نزاعات اور مسائل میں قاضی صاحب ہی سے رجوع ہوتے تھے قاضی صاحب علاقے کے لیے خدا کی عظیم نعمت تھے۔
قاضی صاحب دکن کی دینی تحریکات اور جمعیتوں میں سرپرستانہ کردار اداکرتے تھے جمعیت علماء تلنگانہ کے نائب صدر تھے جمعیت کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتے تھے جمعیت میں انکی راے کو قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتا تھا۔ قاضی صاحب کی دینی خدمات کا ایک روشن باب مجلس علمیہ سے وابستگی ہے.مجلس علمیہ علمائے دکن کی سب سے قدیم مؤقر نمائندہ تنظیم ہے۔ اس کی خدمات کا دائرہ قریب نصف صدی پر پھیلا ہوا ہے۔ قاضی صاحب کاشمار مجلس علمیہ کی ابتدائی شخصیات میں ہوتا ہے مجلس علمیہ کے عاملہ وشوری کے اجلاسوں میں اہتمام سے شرکت فرماتے تھے.ایک عرصے تک قاضی صاحب مجلس کے نائب ناظم رہے اور اخیر تک اسکے رکن تاسیسی تھے وہ مجلس کے استحکام کے لیے فکر مند رہتے تھے مجلس کے اجلاسوں میں مفیدمشوروں سے نوازتے تھے مجلس کے ترجمان ضیائے علم کے مضامین کو بہت سراہتے تھے .قاضی صاحب کے مزاج میں اعتدال تھا وہ افراط وتفریط سے دور رہتے تھے اکابر علمائے دیوبند سے نیازمندانہ تعلق رکھتے تھے.بے لوثی خود داری عاجزی وانکساری متانت وسنجیدگی جیسی صفات ان کی خمیر میں شامل تھیں .ان کی وفات سے دکن کاعلاقہ ایک مخلص خادم دین سے محروم ہوگیا.دکن کی دینی تنظیموں میں شدت سے ان کی کمی محسوس ہوگی اللہ تعالی ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطافرمائے۔