شخصیات
(یہ سانحہ تو کسی دن گزرنے والا تھا(راحت اندوری
راحت اللہ قریشی عرف راحت اندوری بن رفعت اللہ قریشی 11اگست 2020ء بروز منگل بوقت پانج بجے شام موت سے ہار مان گئے، انہوں نے اربندو ہوسپیٹل اندور مدھیہ پردیش میں آخری سانس لی، زندگی کا روگ جسے لگا اسے موت سے ہار ماننی ہی پڑتی ہے،وہ قلب کے مریض تھے اور ذیابیطس ( شوگر ) نے ان کے قوی کو پہلےسے نڈھال کر رکھا تھا ، کرو ناکا بہانہ ہو گیااور دو روز میں سب کچھ تمام ہوگیا ؛ حالانکہ کہ وہ جس قوت ارادی کے مالک تھے اس کو دیکھتے ہوئے مشہور شاعراور ناظم مشاعرہ کمار وشواش نے پورے وشواش (یقین)کے ساتھ کہا تھا کہ اس بارکرو نا نے غلط جگہ کا انتخاب کیا ہے،خود راحت صاحب کو بھی یقین تھا کہ وہ اسے مات دے دیں گے، انہوں نے کرونا پازیٹو ہونے کی اطلاع خود ہی ٹیوٹئر پر دی تھی، اور مخلصین کو فون کرنے سے منع کر دیا تھا تھا اور کہا تھا کہ میرے بارے میں فیس بک اور سوشل میڈیاسے خبریں ملتی رہیں گی، خبر آئی تو زندگی کی نہیں موت کی، انہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ گھر سے یہ سوچ کر نکلا ہوں کہ مر جانا ہے۔۔ اب کوئی راہ دکھا دے کہ کدھر جانا ہے ۔ پوری ادبی دنیا میں اس خبر سے ماتم پسر گیا،سیاسی اورغیر سیاسی لوگوں نے تعزیتی بیانات جاری کیے۔اردو شاعری کے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ عصری حسیت سے بھر پوراور سیاسی لوگوں کی دوغلی پالیسیوں پر ضرب کاری لگانے اورنوجوانوں کو پھولوں کی دکانیں کھولنے اور خوشبو کے بیوپار کی صلاح دینے والا شاعر ابدی نیند سو گیا،ان کے اندر جو جرأت اظہار تھی اورجسےوہ شاعری میں پورے طور پربرتتے تھے اس کی مثال فیض اور ساحر کے بعد اردو شاعری میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ ان کی شاعری کے ساتھ ان کا انداز پیشکش، (بوڈی لینگویج )بھی خاصا مرعوب اور متأثر کن تھا، اپنے مخصوص انداز اور حسین شاعری کی وجہ سے وہ اردو مشاعروں کی آبرو تھے، اور ملکوں ملکوں انہوں نے اردو شاعری کو مقبول و محبوب بنانے کا کام کیا تھا۔کرونا سے متأثر ہونے کی وجہ سے ان کا جنازہ ہوسپیٹل سے ان کے گھر نہیں لے جایا جا سکا اور اسی دن رات کے ساڑھے نو بجے اندور میں اے بی روڈ واقع چھوٹی خزرانی قبرستان میں جنازہ پڑھنے والوں کی محدود تعداد کی موجودگی میں ان کی تدفین عمل میں آئی، پسماندگان میں انہوں نے اہلیہ سیما راحت، تین بیٹے فیصل راحت ، ستلج راحت،سمیر راحت اور ایک بیٹی شبلی عرفان کو چھوڑا۔
راحت اندوری کا اصل نام راحت اللہ قریشی تھا ،شہرت انہیں ان کے قلمی نام راحت اندوری سے ملی، وہ اپنے والد رفعت اللہ قریشی کے گھر اندور میں یکم جنوری 1950ء بروز اتوار پیدا ہوئے والدہ مقبول النساء نے معاشی تنگی کے باوجود انہیں بڑے ناز و نعم سے پالا ، ان کے والد کپڑے کے ایک کارخانے میں کام کرتے تھے،ہائر سکنڈری تک کی تعلیم اندور کے نوتن اسکول سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اسلامیہ کریمیہ کالج سے 1973ء میں بی اے ، برکت اللہ یونیورسٹی سے 1975ء میں ایم اے ، اور مدھیہ پردیش کی بھوچ اوپن یونیورسٹی سے 1985ء میں "اردو میں مشاعرہ” کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی، ان کے مقالہ کے نگراں ڈاکٹر عزیز اندوری تھے ،تدریسی زندگی کا آغازآئی کے کالج اندور سے کیا،انہوں نے دیوی اہلیہ وش ودہالیہ اندور میں سولہ سال قبل تک تدریس کے فرائض انجام دئیے۔
1968ءمیں ڈاکٹر راحت اندوری نے پہلا شعر کہا ” اس کے قبل و جاں نثار اختر کے ایک مصرع پر گرہ لگا چکے تھے ,جاں نثار اختر نے ان کے آٹو گراف پر لکھا تھا کہ "ہم سے بھاگا نہ کرو دور غزالوں کی طرح "راحت صاحب کے منھ سے دوسرا مصرع بے ساختہ نکلا”ہم نے چاہا ہے تمہیں چاہنے والوں کی طرح” اس کے بعد راحت شعر کہنے لگے ،انہوں نے دھوپ دھوپ،رت میرے بعد، پانچواں درویش،اورکن فیکون جیسی کتابیں دنیائے اردو ادب کو دیں،یہ ان کےمجموعہ کلام ہیں، جن میں ان کی شاعری کے مخصوص تیور کو دیکھا جاسکتا ہے۔27/مئ 1986ء کو ان کی شادی سیما نامی خاتون سے ہوئی،جو بعد میں سیما راحت سے مشہور ہوئیں۔1988ء میں انہوں نے مشہور شاعرہ انجم رہبر سے نکاح کرلیا ان کے بطن سے ایک لڑکا سمیر راحت پیدا ہوئے؛ لیکن یہ ازدواجی زندگی ان کو راس نہیں آئی۔1993ء میں یہ رشتہ طلاق پر ختم ہوا، سیما راحت نے راحت صاحب کی انسانی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود آخری دم تک ان کا ساتھ نبھایا،البتہ راحت صاحب اور انجم رہبر کو ترک تعلق کا صدمہ پوری زندگی رہا، جس کا اظہار دونوں موقع ملتے ہی اپنے اشعار میں کرنے لگتے تھے۔
اللہ رب العزت نے راحت اندوری کے چہرے کی خوبصورتی لے کر دل بڑاخوبصورت بنادیاتھا، وہ ایک کامیاب نغمہ نگار اور مشہور مصور بھی تھے،انہوں نے مشہور مصور فدا حسین صاحب کے ساتھ بھی کام کیا تھا،ان کی شاعری میں رومانیت، زمانہ کے نشیب و فراز، سیاستدانوں کی بے راہ روی اور نیرنگیں حالات پر بھرپورتبصرہ ملتا، ان کی شاعری میں طنز و مزاح کی زیریں لہروں کا بھرپور احساس ہوتا ہے، وہ خود پر بھی طنز کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔کہا کرتے کہ ایک نوجوان شاعر کو جو میری نقالی کی کوشش کرتا تھا ایک صاحب نے مشورہ دیا راحت اندوری بننے کے لئےصرف دانت ہی سفید نہیں کرنے پڑتے چہرابھی کالا کرنا پڑتا ہے، راحت اندوری نے ایک درجن سے زائد فلمی نغمے لکھے،جو منا بھائی، ایم بی بی ایس، آشیاں، فریب،مرڈر،غدار وغیرہ میں فلمائےگئے؛لیکن انہوں نے جلد ہی محسوس کر لیاکہ پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی جی حضوری ان کے بس میں نہیں ہے؛ چنانچہ انہوں نے فلمی دنیا سے خود کو الگ کر لیا اورساری توجہ شاعری اور مشاعروں پر دینی شروع کیں، اسٹیج مشاعرہ کے ساتھ انھوں نے ٹی وی چینلوں میں بھی آنا شروع کیا، سب ٹی وی کے پروگرام "واہ واہ کیا بات ہے بہت خوب”اور” کپل شرما "کے شو میں بھی ان کی طوطی بولتی تھی۔ ان کی شاعری کا اپنا رنگ و آہنگ تھا اور پیشکش کا انداز بھی اپنا تھااس لئے لوگ ان کو پسند کرتے تھے، انہوں نے ترقی پسندی کے خول میں خود کو بند نہیں کیا، جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے بھی ان کا کچھ لینا دینا نہیں تھا،لیکن ان کی مقصد ی شاعری ترقی پسندی کی یاد دلاتی تھی، ترقی پسندوں نے معاشی جبرو استحصال اورانسانی محرومی اور نامرادی کو موضوع سخن بنایا تھا، راحت اندوری نے سماجی انتشار ،انسانی کرب، سیاسی بازیگری کو موضوع سخن بنایا،اور چونکہ کہ یہ موضوعات انسانی زندگی سے ہم آہنگ تھے اس لیے ان کی شاعری جگ بیتی بن گئی، جو سنتا اسے اپنی آواز معلوم ہوتی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان،امریکہ، آسٹریلیا، کویت،متحدہ عرب امارات اور انگلینڈ میں بھی وہ یکساں مقبول تھے ،ان کے اشعار پر داد دینے کے لئےلوگ اتنے مستعد ہوتے کہ کبھی کبھی ان کو کہنا پڑتا کہ دوسرا مصرع تو مکمل ہونے دیجیے، وہ ایک غیور اورخوددارشاعر تھے، اس لیے وہ وہی سناتے تھے جو وہ سنانا چاہتے، فرمائشوں پر کچھ سنا دینایاحکمرانوں کے مشاعرہ میں موجود ہونے پر لہجہ بدل دینا ان کے بس کا نہیں تھا ،ان کے اندر جو جرأت اظہار تھی وہ ان کو اس پر مجبور کرتی تھی، وہ سامعین کی نفسیات کو سمجھتے تھے اور شعرکے انتخاب میں اس کا خاص خیال رکھتے تھے ،ان کی شاعری کی لفظیات بہت پر شکوہ اور خیالات بہت اعلی اور ارفع نہیں ہے،جس کو سمجھنے کے لئے بہت زیادہ ذہنی جمنا اسٹک کرنی پڑے ، وہ مواد اور الفاظ دونوں سامنے سے اٹھاتے تھے، جسے آپ عوامی کہہ سکتے ہیں، نظیر اکبر آبادی عوامی شاعر تھے لیکن وہ دور دوسرا تھا آج کی عوامی شاعری وہی ہے جو راحت اندوری نے کی، راحت نے غزلوں کے ساتھ حمدیہ اور نعتیہ شاعری بھی کی؛ جو کمیت کے اعتبار سے کم لیکن کیفیت کے اعتبار سے اعلیٰ و ارفع ہے، ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ان کی ایمانی حرارت،اعتقادی استواری، اورکامل حب نبوی کا پتہ چلتا ہے، وہ سب کچھ ختم ہونے کا جہاں تذکرہ کرتے ہیں وہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک ایمان ہے جو اب تک باقی ہے۔ راحت اندوری گزشتہ چار ماہ سے اپنے طور پر ہوم کرنٹائن تھے ،صرف علاج و معالجہ اور چانچ وغیرہ کے لیے گھر سے نکلا کرتے تھے، سماجی فاصلہ کا بھرپور خیال رکھتے تھے، انھوں نے نیوز 18 پر عید کے موقع سے آخری بار اس کی جانب سے منعقد اسٹوڈیو مشاعرے میں اپنا کلام سنایا تھا، وہ لاک ڈاؤن سے بہت پریشان تھے اور انہیں اس کا غم ستا رہا تھا کہ مسجدوں کے دروازے بھی بند ہیں، ان کا آخری شعر اسی حوالے سے ہے۔ خاموشی اوڑھ کے سوئی ہیں مسجدیں ساری ۔کسی کی موت کا اعلان بھی نہیں ہوتا