سیرت و تاریخمفتی محمد صادق حسین قاسمی

اعلی تمہارا مرتبہ، کیا حرف تم پر آئے گا؛ حضرت امیر معاویہؓ

دنیا میں کچھ بدنصیب وہ ہیں جو اپنی آخرت کوتباہ کرنے کے لئے خدا کے محبوب بندوں اور نبی ﷺ کے پیارے یاروں کے بارے میں زبان درازیاں کرتے ہیں،اپنی ناپاک زبانوں پر ان پاکبازوں کا نام نامناسب طریقے سے لاتے ہیں،اور اپنی بربادی کا سامان کرتے ہیں۔اورخاص کر کاتبِ وحی سیدنا امیر معاویہؓ کی شان میں گستاخی وبے ادبی کرتے ہیں،ان کی عظمت ،مقام ومرتبہ کو فراموش کرکے زہر اگلتے ہیں۔آج سے تقریبا ۵۰ سال قبل بھی جب گستاخیاں اور بے ادبیاں کی جانے لگی تو اس وقت غیور مسلمانوں نے اور سینے میں نبی ﷺ کے پیارے ساتھیوں کی محبت رکھنے والوں نے عاشقِ رسول ،محبِ اہل بیت،مداحِ صحابہؓ ،واعظِ دکن حضرت مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقل ؒ کی نگرانی میں ۱۴رجب ۱۳۸۳ ؁ ھ ،یکم ڈسمبر ۱۹۶۳ء ؁ بروز اتوار مسجد چوک میں ’’یومِ معاویہؓ ‘‘کے عنوان سے ایک جلسہ منعقد کیا تھا،اس وقت حضرت مولانا عاقل حسامی ؒ نے حضرت امیر معاویہؓ پر ایک منقبت لکھی تھی ،جس کا ایک ایک مصرعہ محبتِ معاویہؓ کا شاہکار اور ان کی عظمت ورفعت کا ترجمان ہے۔آپ بھی اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے:
ہیں پیکر جود وسخا ، حضرت امیر معاویہؓ
محبوب خاصانِ خدا،حضرت امیر معاویہؓ
سالے شہ لولاک کے،کاتب قرآن پاک کے
بے شبہ ہیں ذی مرتبا حضرت امیر معاویہؓ
ہم کون جو ناراض ہوں ،کینہ رکھیں ،جب آپ سے
راضی نبی،راضی خدا،حضرت امیر معاویہؓ
اعلی تمہارا مرتبہ کیا حرف تم پر آئے گا
ناداں کہیں گر کچھ بُرا،حضرت امیر معاویہؓ
جس کو نبی ہادی کہیں،اس کو کہے گمراہ جو
کیا حشر ہواؤس کا بھلا،حضرت امیر معاویہؓ
عاقل ؔ بہ افضالِ خدا،عاشق ہے اہل بیت کا
اور آپ کا مدح سرا، حضرت امیر معاویہؓ
اگر آج بھی کہیں بھی کوئی بدبخت وبدنصیب حضراتِ صحابہ کرامؓ کو ہدفِ ملامت بنانے یا حضرت امیر معاویہؓ پر سب وشتم کے تیر چلانے کی ناپاک کوشش کرتاہے تو ایمانی غیرت اور اسلامی حمیت سے سرشار ،حبِ صحابہؓ کے علم بردار مسلمان بے چین وبے قرار ہوجاتے ہیں اور ان کی راتوں کی نیند ،دن کا سکون ختم ہوجاتا ہے ،وہ اپنی تنہائیوں میں تڑپتے ہیں اور محفلوں میں گرجتے ہیں،گستاخِ صحابہؓ کے خلاف تمام ہی مسلمان اپنے علماء کی قیادت میں کھڑے ہوکر نہ صرف اپنے غم وغصہ کا اظہارکرتے ہیں بلکہ گستاخوں ،بے ادبوں کوان کی عظمتوں کو بتانے اور مقامِ بلند سے واقف کرانے اوران کی گستاخیوں کابھرپور جواب دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔
نبی ﷺ سے سچی محبت کرنے والے مسلمان کبھی صحابہ کرامؓ کے بارے میں نرم پہلو اختیار نہیں کرسکتے،کیوں کہ صحابہؓ ہمیں اپنی جان سے زیادہ پیارے ہیں ،وہ ہمارے نبیﷺ کے دلارے ہیں اور ان ہی کی قربانیوں کے نتیجہ میں یہ دین اسلام ہم کو نصیب ہوا،جن کی فضیلت وعظمت پر قرآن گواہ،نبی کے مبارک ارشادات موجود ہوں اور جنہوں نے اپنے نبی ﷺ سے والہانہ محبت اور انوکھی اطاعت کا ثبوت پیش کیا ہوکیا ہم ان صحابہ کے بارے میں غلط باتوں کو سن کر خاموش رہ سکتے ہیں ؟؟؟
سیدنا حضرت امیر معاویہؓ جن کو کئی اعتبار سے شرف وعظمت حاصل ہے ،نبی ﷺ سے قریبی رشتہ جن کو میسر ہے،اور جنہوں نے اسلام کی نشر واشاعت میں بڑاکارنامہ انجام دیا ہے ،بھلا کوئی کیسے ان کی عظمت کو پامال ہونے دے گا؟حضرت امیر معاویہؓ کی سیرت اور زندگی کے بہت سے پہلو ہیں ہم صرف مختصر اًان کے مقام ومرتبہ کو پیش کریں گے اور نبی کریم ﷺ نے ان کے بارے میں کیا فرمایا اور صحابہ کرامؓ کی نظر میں ان کا کیا مقام تھا اس کو بیان کریں گے۔
حضرت امیر معاویہؓ کا اسم گرامی’’معاویہ بن ابی سفیان‘‘ ہے اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے،اور رشتۂ نبوت کی وجہ سے ’’خال المؤمنین ‘‘ احتراماً کہاجاتا ہے۔کیوں کہ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین ام حبیبہؓ حضرت امیر معاویہؓ کی بہن ہیں،اسی رشتہ کی بدولت حضرت امیر معاویہؓ کو نبی کریم ﷺ کے’’برادرِ نسبتی ‘‘ہونے کا شرف حاصل ہے۔( سیرت حضرت امیر معاویہؓ :۶۲ از:مولانا نافع صاحب ؒ )
حضرت امیر معاویہؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کا شمار کاتبینِ وحی میں ہوتا ہے ۔چناں چہ لکھا ہے کہ :جو وحی آپ ﷺ پر نازل ہوتی اسے قلمبند فرماتے اور جوخطوط وفرامین سرکارِ دوجہاں ﷺ کے دربار سے جاری ہوتے انہیں بھی تحریر فرماتے۔وحی خداوندی لکھنے کی وجہ سے آ پ کو کاتبِ وحی کہاجاتا ہے۔علامہ ابن حزمِ لکھتے ہیں کہ:نبی کریم ﷺ کے کاتبین میں سب سے زیادہ حضرت زیدبن ثابت آپﷺ کی خدمت میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہؓ کا تھا۔یہ دونوں حضرات دن رات آپﷺ کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔( حضرت امیر معاویہؓ اور تاریخی حقائق :۲۶۱)
نبی کریم ﷺ نے حضرت معاویہؓ کے لئے دعائیں بھی دیں اور ان کی عظمتوں کو بھی بیان فرمایا۔آپﷺ نے حضرت معاویہؓ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا:اللھم اجعلہ ھادیا مھدیا واھدبہ۔(ترمذی:۳۸۰۶)اے اللہ !معاویہ کو ہدایت دینے والا ،ہدایت یافتہ بنادیجیے اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت عطاکیجیے۔اسی طرح ایک دعا حضرت معاویہؓ کے حق میں یہ بھی منقول ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:اللہم علم معاویۃ الکتاب والحساب وقہ العذاب۔( مسند احمد:۱۶۸۱۹) اے اللہ ! معاویہؓ کو حساب وکتاب سکھا،اور انہیں عذاب سے بچا۔
حضرت امیر معاویہؓ کا مقام ومرتبہ صحابہ کرامؓ کی نظر میں بہت اونچا تھا ،اورصحابہ کرامؓ آپ کی صلاحیت وقابلیت اور صحبتِ نبوت کی وجہ سے آپ کا احترام واکرام فرمایاکرتے تھے۔ایک بار حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے حضرت امیر معاویہؓ کی برائی کی گئی تو آپؓ نے فرمایا:’’قریش کے اس جوان کی برائی مت کرو،جوغصہ کے وقت ہنستا ہے(یعنی انتہائی بردبار ہے)اور جوکچھ اس کے پاس ہے بغیر اس کی رضامندی کے حاصل نہیں کرسکتے اور اس کے سر پر کی چیز کو حاصل کرنا چاہوتو اس کے قدموں پر جھکنا پڑے گا۔(یعنی انتہائی غیور اور شجاع ہے۔)(حضرت امیر معاویہ اور تاریخی حقائق:۲۱۴)حضرت علیؓ نے ایک موقع پر فرمایاکہ : امارتِ معاویہؓ کو بھی برا نہ سمجھو،کیوں کہ وہ جس وقت نہ ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتے ہوئے دیکھوگے۔( مقامِ صحابہ:۱۰۸)ابودرداءؓ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس کی نماز تمہارے اس امیر( معاویہؓ) کی نماز سے زیادہ آ پ ﷺ کی نماز سے مشابہت رکھتی ہو۔امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ : میں سعید بن مسیب ؒ سے نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرامؓ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:زہری میری بات توجہ سے سنیں :’’جو شخص خلفائے راشدین سے محبت کرتے ہوئے ،عشرہ مبشرہ کے لئے جنت کی گواہی دیتے ہوئے اور معاویہؓ کے لئے رحمت کی دعائیں کرتے کرتے مرگیاتو اللہ تعالی کے ذمہ یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وہ اس سے کرید کرید کر حساب نہ لے۔‘‘حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ سے معاویہؓ کے بارے میں دریافت کیاگیا تو انہوں نے فرمایا:رسول اللہ ﷺ کی معیت میں معاویہؓ کی ناک میں پڑنے والا غبار عمر بن عبدالعزیز ؒ سے بہتر اورافضل ہے۔ابراہیم بن میسر ؒ کہتے ہیں : میں نے کبھی بھی عمر بن عبدالعزیزؒ کو کسی انسان کو مارتے نہیں دیکھا ،بجز اس شخص کے جس نے معاویہؓ کو سب وشتم کیا اسے انہوں نے کئی کوڑوں کی سزا دی۔امام احمد بن حنبل ؒ سے سوال کیا گیا:آپ اس شخص کے بارے میں کیا کہنا چاہیں جو یہ کہتا ہے کہ میں معاویہؓ کو کاتبِ وحی اور خال المؤمنین نہیں مانتا اس لئے کہ انہوں نے امارت تلوارکے زور پر غصب کی ۔ اس کے جواب مین انہوں نے فرمایا:یہ بہت بری اور گھٹیابات ہے ،ایسے لوگوں سے الگ رہا جائے ،ان کے ساتھ نشست وبرخاست نہ کی جائے اور انہیں لوگوں کے سامنے ننگا کیا جائے۔( ملخص از:سیدنا امیر معاویہؓ شخصیت اور کارنامے:۲۱۹)
حضرت امیر معاویہؓ کے دل میں حضرت علیؓ کی بے پناہ محبت او ر عظمت پائی جاتی تھی ،منقول ہے کہ انہوں نے قسم کھاکر فرمایا کہ :علیؓ مجھ سے افضل اور مجھ سے بہتر ہیں ،اور میرا ان سے اختلاف صرف حضرت عثمانؓ کے قصاص کے مسئلے میں ہے،اگر وہ خونِ عثمانؓ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا۔( مقامِ صحابہ :۱۱۰)ایک طرح ایک دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ ہے کہ :رومیوں نے جب دیکھا کہ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان جنگ گرم ہے تو انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت امیر معاویہؓ کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی اور ان کو خط لکھا کہ ہم علی کے مقابلے میں تمہاری مدد کے لئے تیار ہیں ،تمہارا پیغام ملنے کی دیر ہے ہم اپنا لشکر تمہاری مدد کے لئے فورا روانہ کردیں گے۔حضرت امیر معاویہؓ نے رومی بادشاہ کے جواب میں لکھا:اُورُومی کتے!ہمارے اختلاف سے دھوکہ نہ کھاؤ،اگر تم نے مسلمانوں کی طرف رخ کیا تو علیؓ کے لشکر کا پہلا سپاہی جو تمہارے مقابلے کے لئے نکلے گا وہ معاویہ ہوگا۔( ندائے منبر ومحراب:۱/۱۷۴)
حضرت امیر معاویہؓ کے دل میں کس درجہ حضرت علیؓ کی محبت تھی اس واقعہ سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ایک مرتبہ حضرت معاویہؓ نے ضرار اسدی سے جو حضرت علیؓ کے اصحاب میں سے تھے درخواست کی کہ اے ضرار!علی کے کچھ اوصاف مجھ سے بیان کرو ،ضرار نے پہلے تو کچھ عذرکیا اس کے بعد کہا کہ سنیے:اللہ کی قسم علیؓ بڑے طاقت ور تھے ،فیصلے کی بات کہتے تھے اور انصاف کے ساتھ حکم دیتے تھے ،علم ان کے اطراف و جوانب سے بہتاتھا ،اور حکمت ان کے گرد ٹپکتی تھی ،دنیا سے اور اس کی تازگی سے متوحش ہوتے تھے ،اور رات کی تنہائیوں اور وحشتوں سے انس حاصل کرتے تھے ،روتے بہت تھے اور فکر میں بہت رہتے تھے ،لباس ان کو وہی پسند تھا جو کم قیمت ہو،کھانا وہی مرغوب تھا جو ادنی درجے کا ہو،۔۔۔۔خدا کی قسم میں نے ان کو بعض اوقات دیکھا کہ رات ختم ہونے کو ہوتی تھی تو اپنی داڑھی پکڑ کر اس طرح بے قرار ہوتے تھے جیسے مارگزیدہ بے چین ہوتا ہے ،اور بہت ہی دردناک آواز میں روتے تھے اور فرماتے تھے :اے! دنیا کیوں مجھے شوق دلاتی ہے یہ بہت دور ہے میں نے تجھ کو تین طلاق بائنہ د ی ہیں جن سے میں رجوع نہیں ہوسکتا ،تیری عمر کم ہے اور تیری قدر ومنزلت بہت ہے ،آہ زادراہ کم ہے اور سفر لمبا ہے راستہ وحشت ناک ہے ۔یہ سن کر حضرت معاویہؓ رونے لگے ،کہاکہ اللہ کی رحمت ہو ابوالحسن پر ۔اللہ کی قسم وہ ایسے
ہی تھے۔( سیرت خلفائے راشدین :۲۱۲از مولانا عبد الشکور لکھنوی ؒ ۔صفۃ الصفوۃ لابن الجوزیؒ :۱/۹۸)
حضرت امیر معاویہؓ کے دل میں اللہ تعالی کا خوف اور ڈر بے پناہ تھا ۔ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہؓ کی مجلس میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی یہ مرفوع حدیث بیان کی گئی کہ قیامت کے دن محمد ﷺکی امت سے سب سے پہلے جن لوگوں کے ساتھ جہنم کی آگ کو بھڑکایاجائے گا وہ ہیں ۔دکھلاواکرنے والا قاری،دکھلاواکرنے والا سخی،اوردکھلاواکرنے والا مجاہد۔اس حدیث کو پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا۔جب حضرت امیر معاویہؓ نے یہ حدیث سنی تو فرمانے لگے:جب اللہ تعالی نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا تو پھر باقی لوگوں کے ساتھ کیاسلوک ہوگا؟پھر وہ اس قدر روئے کہ ان کے آس پاس کے لوگوں کو خیال ہوا کہ وہ ہلاک ہوجائیں گے۔( حضرت امیر معاویہؓ شخصیت اور کارنامے:۲۱۵)
بہر حال حضرت امیر معاویہؓ کی شخصیت تاریخِ اسلامی کی ایک عظیم ترین شخصیت ہیں،کئی نسبتوں سے ان کو عظمتیں حاصل ہیں اور بہت اونچا ان کا مقام ومرتبہ ہے۔انسان کے لئے سعادت وخوش بختی کی بات یہ ہے کہ وہ حضراتِ صحابہؓ کرام اور بالخصوص ان کے آپسی معاملات کے سلسلہ میں احتیاط اختیار کریں اور زبان وقلم کو ناجائز استعمال ہونے نہ دیں۔حضرت امام شافعی ؒ اور دیگر سلف صالحین کا قول ہے کہ:’’ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبانوں کو بھی ان سے پاک رکھیں اور بچائے رکھیں کہ جن سے اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں کو بچارکھا۔‘‘اس لئے صحابہ کرامؓ کی گستاخی یا معمولی بے ادبی سے بھی بچنا چاہیے اور ان کے مقام ومرتبہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اکرام واحترام کا معاملہ کرنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×