اسلامیاتسیرت و تاریخ

رسول اللہ ﷺکی شانِ ختم نبوت

ماہ ربیع الاول کا مہینہ ختم ہونے کو ہے، اس ماہ میںآپ حضرات نے جلسوں اور پروگراموں کے دوران آقا دوجہاں ﷺ کی ولادت باسعادت سے لے کر آپ ﷺ کی پوری سیرت سے متعلق علماء کرام کے بیانات اور مواعظ سنے ہیں، علماء کرام اور مشائخ نے آں حضرت ﷺ کے مختلف اوصاف و کمالات کو بیان کیا، نبی ﷺ کے ساتھ آپ ﷺ کے جانثار صحابہ کرام کی والہانہ عقیدت و محبت کے واقعات بیان کئے گئے،انسانی برادری کے تمام طبقات بچوں، جوانوں، بوڑھوں، عورتوں، ملازموں پڑوسیوں رشتہ داروں اور غیر مسلموں سے متعلق آپ ﷺ کی مبارک تعلیمات پر روشنی ڈالی گئی، اس طرح نبی ﷺ کی مبارک اور خوبصورت زندگی کے مختلف گوشے اور پہلو ہمارے سامنے آئے۔
شان ختم نبوت کا معنیٰ ومفہوم:
ہمارے نبی ﷺ کی مبارک زندگی کا ایک اہم ، امتیازی اور نمایاں پہلو آپ ﷺ کی ’’شان ختم نبوت‘‘ ہے، یہ آپ ﷺ کی سب سے اہم اور بنیادی صفت ہے،آج چوں کہ ماہ ربیع الاول کا آخری جمعہ ہے ، اس لئے ہم اپنے ’’آخری نبی‘‘ حضرت محمد ﷺ کی شان ِ ختم نبوت کو جاننے اور اس کی عظمت وفضیلت کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔
نبی ﷺ کی شان ِ ختم نبوت کا مطلب ہے آپ ﷺ کا آخری نبی ہونا، ہم اور آپ نبی ﷺ کی شان ختم نبوت کو دل و جان سے تسلیم کرتے ہیں، اس کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ ہم آں حضرت ﷺ کو صرف نبی نہیں بل کہ آخری نبی مانتے ہیں،اگر کوئی شخص ہمارے نبی ﷺ کے بعد نبی ہونے کا دعوی کرے تو ہم نبی ﷺ کی شان ختم نبوت کے اقرار کی وجہ سے اُس کو جھوٹا، مکار اور دجال سمجھتے ہیں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کے ’’آخری نبی‘‘ ہونے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اب رہتی دنیا یعنی قیامت کی صبح تک صرف اور صرف ہمارے نبی ﷺ کی نبوت ورسالت کا سکہ چلے گااور آپ ﷺ ہی پوری کائنات کے لئے نبی اور رسول رہیں گے۔
قرآن مجید میں آپ ﷺ کو ’’سراجاً منیراً‘‘ فرمایا گیا،یعنی آپ ﷺ ’’روشن چراغ‘‘ ہیں آپ ﷺ کے لائے ہوئے دین و شریعت کی روشنی کبھی کم یا ختم نہیں ہوگی، دنیا کی روشنی تو ایک محدودفاصلہ تک رہتی ہے اور اگر مستقل کسی لائٹ یا بلب کو کھلا رکھا جائے تو اُس کی روشنی مدہم پڑجائے گی یا پھر بالکل ختم ہوجائے گی۔لیکن ’’سراجاً منیراً‘‘ کی روشنی ہر آن ایک نئی شان کے ساتھ دنیا کو روشن اور منور کرتے رہے گی۔تا قیامت ہر زمانہ اور ہر علاقہ میں چاہے وہ مشرق کا ہوکہ مغرب کا ، شمال کا ہو کہ جنوب کا، انسانیت کو ہدایت کا نوراور ایمان کی روشنی اسی ’’سراجاً منیراً‘‘ سے ملے گی،نبی ﷺ کے زمانہ سے لے کر آج تک اور آئندہ قیامت تک انسان چاہے دنیا کے کسی بھی علاقہ میں رہتا ہو یا کسی بھی زمانہ میں پیدا ہوا ہو، دنیا میں اُس کی ہدایت اور آخرت میں اُس کی نجات کا دارومدار رسول اللہ ﷺ کی نبوت ورسالت کی گواہی دینے اور آپ ﷺ کی تصدیق کرنے میں ہے۔

شان ختم نبوت کو ماننے کی اہمیت:

رسول اللہ ﷺ کی شان ختم نبوت کی اس وضاحت کے بعد ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آں حضرت ﷺ کی شان ختم نبوت کو تسلیم کرنا ہمارے لئے کتنا ضروری ہے؟ آں حضرت ﷺ کی شان ختم نبوت کو دل و جان سے تسلیم کرنا ہمارے لئے اتناہی ضروری ہے جتنا کہ اللہ تعالی کو اُس کی ذات وصفات میں اکیلا اور یکتا تسلیم کرنا ضروری ہے کیوں کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی کو خالق، رازق، علیم، خبیر وغیرہ تمام صفات کو مانے لیکن اُس کی توحید کا اقرار نہ کرے تو وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا اس لئے کہ خدا تعالیٰ کو خدا ماننے کے لئے اُس کی تمام صفات کو ماننے کے ساتھ اس کی وحدانیت کا اقرار کرنا ضروری ہے ۔
ایسا ہی معاملہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کا ہے، اگر کوئی شخص آں حضرت ﷺ کو ’’رحمۃ اللعالمین، سراجاً منیراً، بشیر و نذیر اور شفیع المذنین وغیرہ آپﷺ کی تمام صفات کو تسلیم کرے لیکن آپ ﷺ کو ’’خاتم النبین، یعنی آخری نبی نہ مانےتو وہ آں حضرت ﷺ پر ایمان لانے والا نہیں ہوسکتا، پس معلوم ہوا کہ جیسے خدا تعالیٰ کو خدا ماننے کے لئے اُس کی توحید تسلیم کرنا ضروری ہے ،اسی طرح آں حضرت ﷺ کی نبوت ورسالت کی گواہی دینے کے لئے آپ ﷺ کی شان ختم نبوت کا اقرار کرنا ضروری ہے، جیسے توحید کو تسلیم کئے بغیر اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے کا دعویٰ صحیح اور معتبر نہیں اسی طرح آں حضرت ﷺ کو آخری نبی مانے بغیر مسلمان ہونے کا دعوی سراسر غلط اور ناقابل قبول ہے۔

شان ختم نبوت کی وضاحت قرآن وحدیث کی روشنی میں:

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد ﷺ کی شان ختم نبوت کو قرآن مجید میں ایک جگہ نہیں بل کہ دسیوں جگہ واضح اور صاف انداز میں بیان فرمایا ہے، ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے آں حضرت ﷺ کی نبوت ورسالت کو بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ آپ ﷺ ’’خاتم النبین‘‘ ہیں ، مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍۢ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِیِّیْن ، وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمًۭا ‘‘ (الاحزاب: 40) تمام مفسرین نے ’’خاتم النبین‘‘ کا مطلب ’’آخری نبی‘‘ بیان کیا ہے، جیسا کہ خود نبی ﷺ نے حدیث میں فرمایا: میں آخری نبی ہوں اور تم آخری امت ہو’’انا آخر الانبیاء وانتم آخرالامم‘‘ مفسرین نے یہ بھی وضاحت کی کہ ’’خاتم النبین‘‘ کا مطلب ’’نبیوں کی مہر‘‘ ہے ،ہم اور آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی آفیشل لیٹر لکھا جاتا ہے تولیٹر مکمل ہونے پر اسٹامپ لگادیا جاتا ہے ، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں نبیوں اور پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ کو مکمل کرنے کے بعد نبی ﷺ کی بعثت کے ذریعہ اُس پر مُہر (اسٹامپ) لگادی، یعنی آپ ﷺ کے ذریعہ نبوت ورسالت کے سلسلہ کو مکمل کردیا گیا۔
قرآن میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے خود نبی ﷺ کی زبان مبارک کے ذریعہ یہ اعلان فرمایا: اے نبی ﷺ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! میں تم تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول بناکر بھیجا گیا ہوں ’’قُلْ یَااَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا ‘‘(الاعراف:158) ہم اور آپ اچھی طرح جانتے اور مانتے ہیں کہ قرآن مجید قیامت تک باقی رہنے والی کتاب ہے، قرآن مجید میں بیان کردہ عقائد و تعلیمات قیامت تک پیدا ہونے والےہر انسان کے لئے ہے، قیامت تک پیدا ہونے والا ہر انسان قرآن کا مخاطب ہے ،اس لئے قرآن کی اس آیت میں ’’الناس‘‘ کا جو لفظ ہے، اُس میں نبی ﷺ کے زمانے سے لے کرآج تک اور آج سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے اور زندہ رہنے والے تمام انسان شامل ہیں،اللہ کے رسول ﷺ نے صاف اور کھلے لفظوں میں فرمایا: ’’انا رسول من ادرکت حیا ومن یولد بعدی‘‘(الطبقات الکبری لابن سعد،ج:1، ص :191)میںاُس کے لئے نبی اور رسول ہوں جو زندگی میں مجھے پائے اور اُس کے لئے بھی رسول ہوں جو میرے بعد پیدا ہوگا۔
خود پیارے نبی ﷺ نے احادیث میں ایک سے زائد مرتبہ نہ صرف یہ کہ اپنی شان ختم نبوت کو بیان فرمایا بل کہ آسان اور عام فہم مثالوں کے ذریعہ اپنی شانِ ختم نبوت کو کھول کھول کر سمجھایا ہے، ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میری اور مجھ سے پہلے گذرے ہوئے انبیاء کرام کی مثال ایک گھر تعمیر کرنے والے آدمی کی طرح ہے، اُس نے بہت خوبصورت گھر بنایا، لیکن گھر کی تعمیر کے دوران ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی ،پھر جب لوگ اس آدمی کے تعمیر کردہ گھر کو گھوم پھرکر دیکھنے لگے تو گھر کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے،لیکن جیسے ہی اُن کی نظر ایک اینٹ کی خالی جگہ پر پڑی تو وہ کہنے لگے یہ ایک اینٹ کی جگہ بھی باقی نہیں رہتی تو گھر کی تعمیر مکمل ہوجاتی۔
اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے سمجھانے کے انداز میں فرمایا: ’’فانا اللبنۃ وختم بی النبیون‘‘ میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میرے ذریعہ (گھر کی تعمیر کی طرح) انبیاء کے سلسلہ کو مکمل کردیا گیا‘‘۔
ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺنے اپنی دو انگلیوں (شہادت اور درمیانی انگلی) کو ملاکر ارشاد فرمایا’’ میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے‘‘ ’’بعثت انا والساعۃ کھاتین ‘‘یعنی جس طرح یہ دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہیں، اسی طرح میرا اور قیامت کا آنا ایک دوسرے سے ملا ہوا ہے،آپ ﷺ نے خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں فرمایا :اللہ تعالیٰ کو میرے بعد اگر انبیاء کرام کا سلسلہ جاری رکھنا منظور ہوتا تو عمر بن خطاب نبی ہوتے۔ ’’لوکان بعدی نبی لکان عمرابن الخطاب‘‘ آں حضرت ﷺ نے امت کو آگاہ اور باخبر بھی فرمادیا کہ میری امت میں بہت سے جھوٹے،مکاراور دجال پیدا ہوںگے جو اپنے بارے میں نبی ہونے کا جھوٹا دعوی کریں گے تم اُن کی جھوٹی اور پُر فریب باتوں میں آکر میری شان ختم نبوت کا انکار نہ کردینا، خوب یادرکھو میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔

شانِ ختم نبوت کو تسلیم کرنا اسلام کا بنیادی عقیدہ:

اب جب کہ قرآن و حدیث میں آں حضرت ﷺ کی شانِ ختم نبوت واضح انداز میں بیان کردی گئی تو اسلام کے ایک بنیادی عقیدہ اور نظریہ کے طور پر آپ ﷺ کی اس شان ختم نبوت کو تسلیم کرنا ہمارے لئےضروری ہے، اسی کو ’’عقیدہ ختم نبوت‘‘ کہتےہیں، یعنی رسول اللہ ﷺ کو نبی ماننے کے ساتھ ’’آخری نبی‘‘ تسلیم کرنا ،اپنے آپ کومسلمان کہنے اور سمجھنے والا اگر کوئی فرقہ یا شخص یہ عقیدہ نہیں رکھتا تو وہ مسلمان نہیں ہے، اسلام سے اُس کی وابستگی کادعوی سراسر جھوٹ اور دھوکہ ہے، فقہ کی مشہور کتابوں میں اس کی وضاحت کی گئی،امام ابوحنیفہؒ کے زمانے میں ایک شخص نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا، لوگوں نے امام ابوحنیفہؒ سے فتویٰ پوچھا، آپؒ نے جواب دیا وہ شخص تو کافر ہے لیکن کوئی اُس سے نبی ہونے کی دلیل پوچھے گا تو یہ شخص بھی مسلمان باقی نہیں رہےگا، کیوںکہ وہ حضور ﷺ کے بعد نبی کی آمد کو ممکن مان رہا ہے،معلوم ہوا کہ آں حضرت ﷺ کی شان ختم نبوت میں تھوڑا بھی شک و شبہ کرنے سے ایک مسلمان کا ایمان خطرہ میں پڑجاتا ہے،دین وشریعت کے ماہرین نےیہ مسئلہ بیان کیا اگر کسی مسلمان کو یہ عقیدہ معلوم نہیں حضرت محمد ﷺ آخری نبی نہیں ہے تو پھر وہ مسلمان نہیں کیوں کہ آں حضرت ﷺ کا آخری نبی ہونا ضروریات دین، دین کی ضروری، بنیادی اور مشہور باتوں میں سے ہے۔

شانِ ختم نبوت پر جان قربان کرنےسے متعلق واقعات:

آقاء دوجہاں نبی آخرالزماںﷺ کی شان ختم نبوت کو تسلیم کرنا اسلام کا ایسا اہم اور بنیادی عقیدہ ہے کہ اس کے لئے صحابہ کرام اوربزرگانِ دین نے اپنی جانیں قربان کردی، ان بزرگوں نے موت کو گلے لگانا قبول کرلیا لیکن نبی ﷺ کی شانِ ختم نبوت پر آنچ آنے نہیں دی۔ بل کہ اس عقیدہ کو اپنے سینے سے چمٹائے رکھا۔
1) یمامہ میں مسیلمہ کذاب نام کا ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نبوت کا جھوٹا دعوی کیا، سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خلیفہ بننے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق سب سے پہلے اس کے خلاف جنگ کی،جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے لشکر میںشامل فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار تھی ،مسلمانوں نے اگرچہ اس کے مقابلہ میں فتح پائی، لیکن اس جنگ میں (جو اسلامی تاریخ میں جنگِ یمامہ کے نام سے مشہور ہے) بارہ سو (1200) صحابہ کرام ؓ شہید ہوئے ، ان شہیدوں میں اکثریت بدری اور حفاظ صحابہ کرامؓ کی تھی،حالاں کہ نبی ﷺ کے زمانہ میں جتنے غزوات ہوئے اور کفار کے ظلم و ستم سے جو صحابہ کرامؓ شہید ہوئے ان کی کل تعداد 259ہے ،اس سے ہم اور آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آں حضرت ﷺ کی شان ختم نبوت ہمارے لئے کتنا اہم اور نازک ترین مسئلہ ہے، صحابہ کرامؓ نے اسلام کی اشاعت سے زیادہ پیغمبر اسلام کی شانِ ختم نبوت کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
2) اسی مسیلمہ کذاب سے متعلق تاریخ میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو اپنا خط دے کر مسیلمہ کذاب کے یہاں بھیجا، حضرت حبیبؓ کے پہونچنے پر مسیلمہ کذاب نے آپؓ سے کہا: کیا تم محمد ﷺ کے نبی ہونے کی گواہی دیتے ہو؟ حضرت حبیبؓ نے جواب دیا، جی ہاں! میں حضرت محمدﷺ کے نبی و رسول ہونے کی گواہی دیتا ہوںمیںپھر اُس نے اپنے بارے میں پوچھا کیا تم میرے بارے میں گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟حضرت حبیبؓ نے جواب میں فرمایامیں بہرا ہوں، سن نہیں پاتا ہوں۔
آں حضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کی گواہی اور مسیلمہ کذاب کی نبوت کی گواہی کو لے کر مسیلمہ کذاب اور حضرت حبیبؓ کے درمیان کئی مرتبہ سوال و جواب ہوا، مسیلمہ کذاب جب بھی نبی ﷺ کی نبوت ورسالت کے بارے میں پوچھتا تو حضرت حبیبؓ فوراً آں حضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کا اقرار کرلیتے، لیکن جیسے مسیلمہ اپنی نبوت کے بارے میں پوچھتا تو فوراً اپنے بہرے ہونے کا اظہار کرکے اُس کی جھوٹی نبوت کا انکار کردیتے،جب جب بھی حضرت حبیبؓ مسیلمہ کی نبوت کا انکار کرتےمسیلمہ کذاب آپؓ کا ایک ایک عضو کاٹ دیتا، شان ختم نبوت کے اقرار اور جھوٹی نبوت کے انکار کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور حضرت حبیبؓکے مبارک جسم کا ایک ایک عضو کٹتا رہا ،یہاں تک اسی شان ختم نبوت کا اقرار اور جھوٹی نبوت کا انکار کرتے کرتے آپؓ کے جسم مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور آپ ؓ کی شہادت ہوگئی ۔رضی اللہ عنہ (حوالہ:اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ج1، ص: 421) اس طرح اسلامی تاریخ میں صحابی رسول حضرت حبیب بن زیدؓ کو سب سے پہلے ’’شہید ختم نبوت‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
3) رسول اللہ ﷺ کی شانِ ختم نبوت پر پختہ یقین، ٹھوس اور مضبوط ایمان رکھنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے ساتھ وہ معاملہ فرمایا جو معاملہ گذشتہ نبیوں اور پیغمبروں کے ساتھ ہوا واقعہ بالکل ایک ہی طرح ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ واقعہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا تو اُس کو معجزہ سے تعبیر کیا گیا اور یہ واقعہ شانِ ختم نبوت کے اقرار کی بنا پر ایک امتی کے ساتھ پیش آیا تو اُس کو کرامت کہتے ہیں، اس واقعہ کو سنیئے!! اور نبی ﷺ کی شان ختم نبوت پر اپنے ایمان کو تازہ اور مضبوط کیجئے !!یہ واقعہ حضرت ابو مسلم خولانی ؒ کا ہےحضرت ابو مسلم خولانی ؒ جھوٹے مدعی نبوت اسود عنسی کے علاقہ صنعایمن ہی کے رہنے والے تھے، آپ ؒ نے اگرچہ نبیﷺ کے مبارک زمانہ میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا ،لیکن جب یمن سے مدینہ منورہ پہونچے تو رسول اللہﷺ کا وصال ہوچکاتھا اور سیدنا حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ بن چکے تھے،اس طرح نبی ﷺ کا دیدار اور آپ ﷺ سے ملاقات نہ ہونے پر حضرت ابو مسلم خولانی کو صحابیت کا شرف حاصل نہ ہوسکا، لیکن آپ ؒ کے ساتھ ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی بھی آپ ؒ پر رشک کرنے لگے اور آپ پر فخر کرنے لگے۔
ہوا یہ کہ یمن کے ایک جھوٹے مدعی نبوت اسود عنسی نے حضرت ابو مسلم خولانی ؒ کو مجبور کیا کہ وہ اُس کے جھوٹے دعویٰ نبوت کو قبول کریں اور اُس کے نبی ہونے کی گواہی دیں، حضرت ابو مسلمؒ خولانی نے اسود عنسی کو نبی ماننے سے انکار کردیا، اس پر اسود عنسی نے آپ ؒ کو دہکتی اور بھڑکتی آگ میں ڈال دیا۔ آگ نے حضرت ابو مسلم خولانی ؒ کا ذرہ برابر بھی نقصان نہیں کیا،آگ آپ کے لئے اُسی طرح گلِ گلزار بن گئی جس طرح نمرود کی آگ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے لئےپھولوں کا باغ بن گئی تھی،حضرت ابومسلم خولانی آگ سے زندہ سلامت باہر آگئے تو اسود عنسی کے خاص مصاحبین نے اُس کو مشورہ دیا کہ فوری طور پر ابومسلم خولانی ؒ کو یمن سے باہر کردو کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ان کی کرامت کو تمہارے جھوٹے نبی ہونے کی دلیل مان کر تمہارے دعویٰ نبوت کا انکار نہ کردیں۔
اس کے بعد حضرت ابومسلم خولانی ؒمدینہ منورہ پہونچے اور مسجد نبوی میں نماز پڑھی، اس دوران حضرت عمرؓ نے انھیں دیکھ لیا۔پوچھا، کہاں سے آئے ہو؟ آپؒ نے بتایا! یمن سے ، پھر حضرت عمرؓ نے دریافت فرمایا: اُس بندے کا کیا حال ہے جس کو جھوٹے مدعی نبوت نے آگ میں ڈال دیا تھا۔ حضرت ابو مسلم خولانی ؒنے اپنی عرفیت کو چھپاتے ہوئے صرف اپنا نام بتایا اور کہا: وہ آدمی کا نام عبداللہ بن ثوب ہے، اس پر حضرت عمرؓ نے اپنی ایمانی فراست سے محسوس کرلیا کہ یہ اپنی کرامت کو چھپانا چاہتے ہیں، پھر حضرت عمرؓ نے کہا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ تم ہی وہ آدمی ہو جو صحیح سلامت جھوٹے نبی اسود عنسی کی آگ سے نکل آئے ہو؟؟ حضرت ابو مسلم خولانی ؒ نے جواب دیا ہاں! ’’میں ہی ہوں‘‘یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ نے فوراً حضرت ابومسلم خولانی کو گلے لگایا اور مارے خوشی کے روپڑے، پھر انھیں خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ کے یہاں لے گئے، حضرت ابو مسلم خولانی ؒ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان بیٹھے، اس موقع پر حضرت عمرؓ نے کہا:
تمام تعریف اللہ تعالی ہی کے لئے ہے جس نے مجھے زندگی میں امت محمدیہ کے ایسے شخص کی زیارت کروائی جس کے ساتھ وہ معاملہ ہوا جو جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے ساتھ ہوا۔
(سیراعلام النبلاء حرف’’م‘‘ ج:4، ص:8تا14 ملخصاً)

شان ختم نبوت کاانعام و احسان :

رسول اللہ ﷺ کی شانِ ختم نبوت کو تسلیم کرنا ہمارے لئے محض ایک عقیدہ اور نظریہ نہیں ہے ، بل کہ اگر ہم اس پر اچھی طرح غور کریں گے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آں حضرت ﷺ کو آخری نبی بناکر ہم پر بے پناہ انعام و احسان کیا ہے، نبی ﷺ کے بعد نبیوں کی آمد کا سلسلہ مکمل یا ختم ہوجانا ہمارے لئے بہت بڑی نعمت ہے ۔آئیے!! ہم اور آپ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1) اللہ کے رسول ﷺ کو ’’آخری نبی‘‘ ماننے سے اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہوا کہ ہمیںدین اسلام کا مل و مکمل شکل میں ملاقرآن مجید میں فرمایاگیا:اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ(سورۃالمائدۃ:3)آج میں نے تمہارےلئے تمہارا دین مکمل کردیا، اس کے علاوہ خود نبی ﷺ نے اپنے آخری نبی ہونے کو گھر کی تعمیر مکمل ہونے سے تشبیہ دی(صحیح بخاری،حدیث نمبر:3535) گھر کی تعمیر میں اصلاح وترمیم اور اضافہ اسی وقت ہوسکتا ہے ،جب گھر کی تعمیر میں کوئی کمی یا نقص رہ گیا ہو،یا مزید کسی چیز کی ضرورت بڑھ گئی ہو، دین اسلام میں نہ کسی چیز کی کمی ہے کہ اس کو دورکرنے کے لئے ،یا مزید کسی چیز کی ضرورت ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لئے کوئی نبی و پیغمبر آئے۔
2) ہم سے پہلی امتوں یعنی یہودیوں اور عیسائیوںمیں نبوت کے دعویداروں کا مسئلہ بڑا پیچیدہ پریشان کن اور الجھن کا سبب رہا، کیوں کہ ان کے نبیوںکے بعد نبوت ورسالت کا سلسلہ ختم نہیں ہواتھا، اس لئے نبوت کا دعوی کرنے والوں کے بارے میں سچے اور جھوٹے ہونے دونوں باتوں کا
امکان تھا، مانے تو مشکل اور نہ مانے تو مشکل…..رسول اللہ ﷺ کو’’آخری نبی‘‘ ماننےپر اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہواکہ ایسی الجھن وپریشانی سے ہماری حفاظت ہوگئی، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی ﷺ کے بعد انبیاء کرام کی آمد کے سلسلہ کو مکمل فرمادیا، اس لئےہمارے نبی ﷺ نے اپنے بارے میں’’ آخری نبی‘‘ ہونے کا اعلان فرمایا، یہی نہیں بل کہ اپنے بعد نبوت کا دعوی کرنے والوں کے بارے میںجھوٹے اور دجال ہونے کا فیصلہ فرمادیا، اب ہمارے لئے نبوت کے دعویداروں کو ماننے اور نہ ماننے کا کوئی سوال اور کنفیوژن ہی باقی نہیں رہا۔
3) عقیدۂ توحید کا احسان یہ ہے کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کرتے ہیں، اس کی وجہ سے تمام معبودانِ باطل کی عبادت وبندگی کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھانے سے ہم بچ گئے، بالکل اسی طرح آں حضرت ﷺ کو آخری نبی ماننے پر اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہوا کہ ہم قیامت تک پیداہونے والے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے دھوکہ وفریب اور ان کے جھانسہ میں آنے سے محفوظ ہوگئے، اگر آپ ﷺ کے آخری نبی ہونے کا اعلان نہ ہوتا تو ہم ان دعوی نبوت کو سچا اور صحیح مان کر ان کے جھانسہ میں آسکتے تھےاور ایمان کی دولت سے محروم ہوسکتے تھے۔(العیاذ باللہ)
4) آں حضرت ﷺ کو آخری نبی ماننے سے اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہم حضرت رسول کریم ﷺ کی امت ہیں، ہمارے نبی ﷺ تمام نبیوں میں سب سے اعلیٰ واشرف نبی ہیں اور ہماری امت تمام امتوں میں سب سے افضل امت ہے، اگر آں حضرت ﷺ کے بعد بھی نبیوں کی آمد جاری رہتی تو تمام انبیاء میں سب سےافضل نبی (ﷺ) کی افضل امت میں ہمارا شمار اور ہماری شمولیت نہیں ہوتی۔
5) آں حضرت ﷺ کو’’ آخری نبی‘‘ ماننے پر اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہے کہ شرعی احکام اور پابندیوں سے متعلق ہمارے اندر تردد، تذبذب اور غیر یقینی کیفیت نہیں رہی، اگر نبیوں کے آنے کا سلسلہ جاری رہتا تو ہمیں ہمیشہ یہ اندیشہ لگارہتا کہ نہ معلوم کب، کونسانیا حکم آجائے؟ اُس حکم کی پابندی ہم سے ہوپائے گی یا نہیں؟ طرح طرح کے اندیشوں اور وسوسوںمیں ہم مبتلارہتے، لیکن اب ہمیں پورا اطمینان اور یکسوئی ہے کہ ہمارے لئے اب جو بھی شرعی احکام اور پابندیاں ہیں،بس وہ یہی شریعت محمد ی ہے، اس میں نہ کوئی نیا اضافہ ہونا ہے اور نہ کسی طرح کا کوئی ردوبدل، گویا امتحان ہال میں ہمارا پرچۂ سوالات متعین ہے، یہی پرچہ ہمیں حل کرنا ہے اور اسی کے جوابات دیناہے، اس کے بجائے اگریہ کہہ دیا جاتا کہ تمہیں اور بھی سوالات حل کرنے ہیں توہم سمجھ سکتے ہیں کہ ہمیںکتنی پریشانی ہوتی اور کیسی بے اطمینانی رہتی کہ یہ سوالات آسان ہوں گے کہ مشکل؟ یا ہم ان کا جواب دے پائیں گے یانہیں وغیرہ؟۔
6) آں حضرت ﷺ کو’’ آخری نبی‘‘ تسلیم کرنے سے اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہواکہ ہم مقدس آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کو ماننے والے ہیں، جو ہماری ہدایت ورہنمائی کے لئےنازل ہوئی ،اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا (سورۃالحجر:9) آج بھی قرآن مجید اپنی اصل حالت میں موجود ہے، گذشتہ آسمانی کتابوں تورات،زبور، انجیل کی طرح وہ غیر محفوظ نہیں ہے، گذشتہ آسمانی کتابوں میں جو ردوبدل ہوتا تھاتو بعد میں آنے والے نبی اُس کو صحیح کردیتے تھے، لیکن آں حضرت ﷺ کے بعد چوں کہ کوئی نبی نہیں آنا ہے، اس لئے قرآن مجید کو ردوبدل سے محفوظ کردیاگیا، گویا قرآن مجید کا محفوظ ہونا نبی ﷺ کی شان ختم نبوت کا مرہونِ منت ہے، نبی ﷺ کے بعد پیغمبروں کا آنا لگارہتا تو نہ قرآن مجید ہماری آسمانی کتاب ہوتی اور نہ قرآن مجید محفوظ ہوتا۔
7) آں حضرت ﷺ کو’’ آخری نبی‘‘ ماننے سے اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہواکہ آج ہم خود کو ’’عالمی امت‘‘ (GLOBAL UMMAH)کا ایک اٹوٹ حصہ سمجھتے ہیں، اور عالمگیر اسلامی اخوت کا جذبہ ہمارے اندر پروان چڑھتاہے، آپ ﷺ چوں کہ ’’آخری نبی‘‘ ہیں، اس لئے آپ ﷺ کی نبوت ورسالت کو عالمی وآفاقی قراردے کر آپﷺ کے ماننے والوں کو ’’عالمی امت‘‘ بنادیا گیا، چاہے وہ دنیاکے کسی بھی حصہ میں رہتے اور بستے ہوں،وہ سب امتِ محمدیہ میں شامل ہیں، غور کیجئے! اگر آں حضرتﷺآخری نبی نہ ہوتے تو آپ ﷺ کی نبوت ورسالت کا دائرہ خاص علاقہ اور قوم تک محدود ہوتااورہم ’’عالمی امت‘‘ ہونے کے بجائے گذشتہ امتوں کی طرح ایک محدوداور مخصوص امت ہوتے۔
اللہ تعالیٰ کے بے شمار احسانات میں سے یہ وہ چند اہم احسانات ہیں، جو اللہ تعالیٰ نے ہم پررسول اللہ ﷺ کو آخری نبی ماننے پر کیئے ہیں، اس پرہم اللہ تعالیٰ کا شکر واحسان بجالاتے ہیں: الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ ہَدٰىنَا لِـھٰذَا۝۰ۣ وَمَا كُنَّا لِنَہْتَدِيَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰىنَا اللہُ ….

شانِ ختم نبوت کا منکر فرقہ:

رسول اللہ ﷺ کی شانِ ختم نبوت کی یہ تفصیلی وضاحت اس لئے کی گئی کہ آںحضرت ﷺ کو آخری نبی ماننے سے متعلق ہمارے عقیدہ میں کوئی جھول یا شک و شبہ نہ رہے ،کیوں کہ ہمارے درمیان شانِ ختم نبوت کا منکر قادیانی فرقہ بھی موجود ہے، اس فرقہ کے لوگ اپنے آپ ’’احمدی مسلمان‘‘ یا ’’احمدیہ مسلم جماعت‘‘کہتے ہیں ، اس فرقہ کا بانی اور پیشوا مرزا غلام احمد قادیانی ہے جس نے 1901ء میں جھوٹی نبوت کا دعوی کیا، اس کے ماننے والے اسلام کے نام پر اور مسلمانوں کے بھیس میں اپنے باطل اور کفریہ عقائد و نظریات کا پرچار کرتے ہیںاس فرقہ سے متعلق مختصر طور پر تین باتیں آپ حضرات ذہن میں رکھیں۔
1۔ مرزا غلا قادیانی نے نہ صرف نبوت کا جھوٹا دعوی کیا، بل کہ آں حضرت ﷺ کی شان میں بدترین گستاخی کی۔اس ملعون شخص نے کہا: میں ہی محمد رسول اللہ بن کر دوبارہ دنیا میں آیا ہوں، اس نے ’’عین محمد‘‘ ہو بہو نبی ﷺ کی ذات گرامی ہونے کا دعوی کیا، اس کے فرقہ کا ایک گستاخ شاعر کہتا ہے:

محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہو جس کو اکملؔ
غلام احمد کو دیکھئے قادیان میں

(اخبار’’ ہفت روزہ بدرقادیان‘‘مورخہ :25/اکتوبر1906ء)
استغفر اللہ، لاحول ولاقوۃ الا بااللہ
2۔ یہ بات بھی ہم اچھی طرح جان لیں اور سمجھ لیں کہ قادیانی فرقہ سے ہمارا اختلاف کسی مسلک و مشرب کے اختلاف کی طرح نہیں ہے، یہ دیوبندی، بریلوی،جماعت اسلامی،اہل حدیث کی طرح کوئی مسلکی جماعت نہیں ہے،یہ دین و مذہب کا اختلاف ہے ،جیسے ہمارے اور عیسائیوں، یہودیوں اور ہندئوں کے درمیان حق و باطل اور کفر و اسلام کا اختلاف ہے بالکل ایسا ہی اختلاف ہمارے اور قادیانیوں کے درمیان ہے، کیوں کہ ان لوگوں نے اسلام کو چھوڑ کر مذہب کے نام پر اپنی ہر چیز الگ بنالی، مثلا : آں حضرت ﷺ کے مدمقابل مرزا قادیانی کو نبی ماننا، آخری آسمانی کتاب قرآن مجید کے مقابلہ میں مرزا قادیانی کے شیطانی الہامات کے مجموعہ ’’تذکرہ‘‘ نامی کتاب کو ’’وحی مقدس ‘‘کا درجہ دینا، امہات المومیننؓ کے مقابلہ مرزا قادیانی کی بیوی کو ’’ام المومینن‘‘ کہنا، صحابہ کرامؓ کے مقابلہ میں مرزا قادیانی کے ساتھیوں کو ’’صحابی ‘‘کہنا، مکہ مکرمہ اور مدینہ منور ہ مقاماتِ مقدسہ کے مقابلہ میں قادیان کو مقدس مقام سمجھنا وغیرہ۔
3۔ پوری دنیا کے علماء اسلام اور مفتیان کرام نے متفقہ طور پر فتوی دیا کہ خود کو ’’احمدی مسلمان‘‘ یا ’’احمدیہ مسلم کمیونٹی‘‘ کہنے والے قادیانی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، اسلام سے ان کا کوئی واسطہ نہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ان کا کوئی رشتہ نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو مرتے دم تک عقیدۂ ختم نبوت پر قائم رکھے، اس عقیدہ کے بارے میں کسی بھی طرح کے کنفیوژن، غلط فہمی اور گمراہی سے تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کی حفاظت فرمائے اور جو لوگ اس عقیدہ سے متعلق گمراہی کا شکار ہوگئے ،اللہ تعالیٰ انھیں نیک ہدایت اور توفیق دے ۔
*****

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×