اسلام کی عمارت جن پانچ ستونوں پر قائم ہے ان میں ایک حج بھی ہے جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے ۔ جس طرح ہر عبادت کی اپنی ایک انفرادی شان اورجدا گانہ حیثیت ہے اسی طرح حج کا بھی ایک نمایاں مقام اسلامی عبادات میں ہے ۔حج کے تمام ارکان و اعمال میں جن اداؤں کی نقالی کروائی جاتی ہے وہ در اصل اللہ تعالی کے محبوب بندوں کی ادائیں ہیں جنہوں نے خدا کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا تھا اور اس کی اطاعت و فرماں برداری میں پوری زندگی کو قربان کیا تھا ۔ حج اطاعت و فنائیت سے لبریز فریضہ ہے ۔ اللہ رب العزت والجلال نے اپنے فرمان میں آقائے دو جہاں سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مزاجِ براہیمی پر اپنی امت کی تربیت کیجئے اور مزاج براہیمی قربانیوں والا مزاج ہے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ آپ کی وفا شعار بیوی حضرت ہاجرہ اور فرماں بردار بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام نے ہر قدم پر اطاعتِ الہی کا ایسا نمونہ پیش کیا اور اللہ تعالی کی مرضی کے آگے اس طرح تیار رہے کہ اللہ تعالی نے ان وفا شعاروں کی اطاعت و فنائیت والی اداؤں کو ہمیشہ کے لیے باقی رکھنے کا فیصلہ فرمایا اور حج جیسی عظیم عبادت میں اسی محترم مقام پر دنیا بھر کے مسلمانوں سے عہد محبت و مودت کو تازہ کروانے اور اطاعت و فرماں برداری کا وعدہ لینے کے لیے ان ہی کے نقش قدم کی پیروی کو ضروری قرار ددیا ہے ۔ایک بندہ جب اپنے وطن کو چھوڑ کر اپنے اہل و عیال کی پرواہ کئے بغیر اپنے عادات واطوار اور زیب و زینت کی تمام شکلوں کو بالائے طاق رکھ کر فقیروں ، محتاجوں اور مسکینوں کی شکل اختیار کرکے بحالتِ احرام بارگاہ ایزدی میں لبیک اللہم لبیک کی صداؤں کے ساتھ سعادتِ عظمی سے مشرف ہونے کیلئے پہنچتا ہے تو پھر اس کو چاہیے کہ اپنے رب سے آہ وزاری کرتا رہے ، رقتِ قلب کے ساتھ اپنے اہل و عیال کیلئے ، اعزاء وا قارب کیلئے اور اپنے ملک و ملت کیلئے دعائیں کرتا رہے ، خداوندِقدوس کے حضور سربسجود ہوکر گڑگڑ ائے عاجزی کرے اور کوشش یہ کرے کہ اس زرین موقعہ سے بھر پور مستفید ہو کر ماں کی گود سے پیدا ہونے والے معصوم کی طرح سارے گناہوں کی معافی تلافی کرکے اپنے گھر لوٹے ۔
گھر سے نکلنے سے لیکر واپس آنے تک قدم بہ قدم احکاماتِ الہی کو ملحوظ رکھنا ، خرافات سے بچتے ہوئے اس فریضہ کی تکمیل کی فکر کرنا از حد ضروری ہے ۔
گزشتہ چند سالوں سے موبائل اور انٹر نیٹ نے حج جیسے مقدس فریضہ کو بھی تماشہ بنادیا ، حاجیوں کی بڑی تعداد دورانِ حج اپنے موبائل فون میں اوقات کو ضائع کررہی ہیں۔کوئی گھنٹوں باتیں کر رہا ہے تو کوئی تصویریں اور ویڈیو بنا رہا ہے ، نہ کعبۃ اللہ کاتقدس نہ ہی گنبد خضراء کااحترام ، ان کو پس پشت ڈال کر تصویر بنانے کو اپنی خوبی سمجھتے ہیں اور پھر ان تصویروں کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا جاتا ہے جس کے ذریعہ یہ تصاویر پوری دنیا میں گشت کرتی پھرتی ہیں ، اب بتائیے خلوص کہاں باقی رہے گا اور اس طرح کی حرکات سے عبادت کی روح مجروح ہوتی ہے اور حج ایک فریضہ کے بجائے سوشل ایونٹ بن کر رہ جاتا ہے ،حد تو یہ ہے کہ طواف کعبہ ٗ سعی کے دوران ‘ منی مزدلفہ میں عرفات کے میدان میں‘ حتی کہ رمی جمرات کے موقع پر شیطان کو کنکریاں مارتے مارتے بھی سیلفی اور ویڈیو کالنگ کا تماشہ نہیں رکتا۔ اس کے علاوہ قیامگاہوں پر خبریں دیکھنے کی غرض سے ٹی وی کھولنے پر بے حیائی کے مناظر سامنے آتے ہیں جس سے کیا کرایا سب ضائع ہوجاتا ہے اور اس طرح کی ہر چھوٹی بڑی غلطی سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے ۔
ایک مہتم بالشان فریضہ کی ادائیگی کیلئے اپنی زندگی کی کمائی کا ایک بڑا حصہ لگاکر بھی اتنے عظیم مقاصد سے صرف نظر کرتے ہوئے اس کی افادیت سے محروم اور اس کی روح کو مجروح کرنا گویا ڈھیر ساری کمائی ہوئی پونجی گنواکر اپنے اوپر اس کا وبال مسلط کرلینا ہے ۔ لہذا ؛ سعادتِ حج سے مشرف ہونے والے خوش نصیبوں کی خدمت میں یہی معروضہ ہے کہ اس طرح کی حرکات سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے فریضہ کو بہتر طور پر مکمل کرنے کی فکر کریں ۔ اللہ تعالی آپ تمام کے حج کو قبول فرماکر اس سے ملنے والی ساری نعمتوں سے آپ کو سر فرازفرمائے اور کتنے ایسے غریب جو اس سعادت سے مشرف ہونے کی تمنائیں اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ان کی تمناؤں کو پوار فرمائے ۔آمین