سیرت و تاریخمولانا سید احمد ومیض ندوی

ان کی سیرت آئینہ ہے،آئینہ دیکھا کرو

محمد اظہار الحق پڑوسی ملک کے بزرگ تجزیہ نگار اور معروف کالم نویس ہیں، ملک کے کثیر ا لاشاعت روزنامہ ’’دنیا‘‘ میں’’ تلخ نوائی‘‘کے عنوان سے ان کا کالم انتہائی مقبول ہے، ان کی تحریروں میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سوز دروں اور پیغام عمل بھی ہوتا ہے، ۱۲؍ ربیع الاول کے موقع سے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں انھوں نے اپنے سفرِ اسپین اور ہاں ’’الحمراء‘‘ کی عمارتوں کی زیارت کے دوران پیش آئے واقعہ کا تذکرہ کیا ہے، جب وہ ’’الحمراء‘‘ کی عمارتوں کی سیر کرتے ہوئے کورٹ آف لائنزکا نظارہ کررہے تھے تو ان کے اور ان کے برابر میں کھڑی ایک سفید فام انگریز خاتون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا، مکالمہ کا آغاز خود انگریز خاتون نے اس وقت کیا جب اس نے دیکھا کہ غرناطہ کے مسلم حکمراں سلطان محمد خامس کی جانب سے بنائے گئے کورٹ آپ لائنز میں جانداروں کے مجسمے ہیں، جب کہ اسلام میں مجسمے حرام ہیں، مکالمہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے محمد اظہار الحق لکھتے ہیں: ’’کورٹ آف لائنزکے ارد گرد سیاحوں کا ہجوم تھا، شیروں کے دہانوں سے پانی کے فوارے ابل رہے تھے، غزناطہ کے سلطان محمد خامس نے یہ کورٹ یارڈ تعمیر کیا تھا جو صدیوں بعد بھی اسی طرح تھا۔ ’’لیکن اسلام میں مجسموں اور بتوں کی تو اجازت ہی نہیں‘‘ اچانک میرے ساتھ کھڑی ہوئی سفید فام خاتون نے مجھے مخاطب کرکے کہا: ’’تو پھر ان بادشاہوں نے یہ کیوں بنائے؟‘‘ ایک لمحے کے لیے چکرا گیا، پھر مارکسسٹوں کی تاریخ کام آگئی: ’’یہ بادشاہ Revisionist (ترمیم پسند) ہوگئے تھے!‘‘ اس نے تمسخر آمیز قہقہہ لگایا: ’’مسلمان ہونا! ہر بات کے لیے تم لوگوں نے ایک دلیل گھڑ رکھی ہوتی ہے! لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تمہاری زندگی تمہارے رسولﷺ کے احکامات کے ارد گرد نہیں گھومتی!‘‘۔ طعنہ تھا یا ماتم، جو کچھ بھی تھا، دل میں تیرکی طرح پیوست ہوگیا، پاس ایک کیفے تھا، ہم ایک لکڑی کے بنچ پر جا بیٹھے۔ ’’مادام! آپ کو کیا علم ہمارے ر سولﷺ کے احکامات کیا ہیں اور ہماری زندگی ان کے گرد گھوم رہی ہے یا نہیں؟‘‘ وہ کئی برسوں سے حیات طیبہ کا مطالعہ کررہی تھی، اب یاد نہیں، فرانس میں یا ہالینڈ میں انگریزی کی پروفیسر تھی، پاکستان سمیت کئی مسلمان ملکوں کو دیکھ چکی تھی اور صرف دیکھ نہیں چکی تھی معاملے کی تہہ تک بھی پہنچ چکی تھی!وہ کہنے لگی:’’تمہارے رسولﷺ کو اللہ نے اپنی کتاب میں رحمۃ اللعالمین قرار دیا ہے۔۔۔سارے جہانوں کے لیے ساری دنیاؤں کے لیے رحمت، صرف مسلمانوں کے لیے نہیں! کیا تم نے کبھی اس کے مضمرات پر غور کیا ہے؟‘‘ میں نے سرافقی انداز میں ہلادیا، غور کیا ہوتا تو کچھ کہہ سکتا! ’’کبھی غور کرو کہ آج کروڑوں مسلمان ہم غیر مسلموں کے ملکوں میں آکر آباد ہورہے ہیں، کروڑوں آنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کے برعکس، مغربی ملکوں سے کتنے لوگ مسلمان ملکوں میں جاکر بسنے کے آرزومندہیں؟ ہمارے ملکوں کو جنت سمجھا جاتا ہے، کسی مسلمان ملک سے ایک نوجوان آتا ہے، پھر وہ اپنے بھائیوں بہنوں کو لاتا ہے، خاندان کے خاندان منتقل ہوجاتے ہیں، ہم مغربی ممالک والے منہ سے اقرار کریں یا نہ کریں، یہ سب اس لیے ہے کہ ہم نے تمہارے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کیا، یہ دعویٰ تمہیں عجیب لگے گا، کیوں کہ ہم مسلمان نہیں نہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں؛ لیکن جو احکام تمہارے رسولﷺ نے تمہیں دئے، انہی سے ہم اس سطح پر پہنچے کہ مسلمان ہماری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں، پیغمبر اسلامﷺ نے فرمایا کہ جس میں امانت کی خصلت نہیں، اس میں ایمان نہیں، اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس میںدین نہیں، ہم لوگ وعدہ پورا کرتے ہیں، امانت کی حفاظت کرتے ہیں، ہمارے حکمرانوں کے پاس سرکاری خزانہ امانت ہے، اور ہم ان سے ایک ایک پائی کا حساب لیتے ہیں، پیغمبرﷺ سے پوچھا گیا مسلمان جھوٹا ہوسکتا ہے؟ فرمایا’’ جھوٹ کی عادت ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی‘‘ ہم لوگ جھوٹ نہیں بولتے، ہمارے بچوں میں جھوٹ بولنے کا تصور ہی نہیں، پیغمبر ا سلامﷺ نے محتاجوں، مسکینوں اور مفلسوں کی خبر گیری کا حکم دیا، ہمارے ملکوں میں ہر مسکین، ہر بے روزگار کو ریاست مالی امداد بہم پہنچاتی ہے، جو عوام کے ٹیکسوں سے فراہم ہوتی ہے، یہاں تک کہ حکومت بے گھروں کو گھر بھی دیتی ہے، آج برطانیہ، کینیڈااور آسٹریلیا میں مسلمانوں سمیت کتنے ہی لوگ سرکار کے مہیا کردہ گھروں میں زندگی گزار رہے ہیں، تمہارے رسولﷺ نے ہدایت کی کہ جو دنیا میں نمائش اور شہرت کے کپڑے پہنے گا اسے قیامت کے دن ذلت ورسوائی کا لباس پہنایا جائے گا، ہمارے ملکوں کا اپنے ہاں سے موازنہ کرلو، ہمارے وزیر، افسر ،بڑے بڑے ٹینکو کریٹ، اسمبلیوں کے ممبر، بہت ہی خاص مواقع کو چھوڑ کر، سادہ ترین لباس میں ہوتے ہیں، وہ گرمیوں میں بنیان، عام سی پتلون یا نیکر اور چیل میں باہر جاتے ہیں اور سردیوں میں جیکٹ استعمال کرتے ہیں، تمہارے ہاں ایک ایک فرد کے درجنوں ملبوسات کم از کم ہیں، تم مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کا لائف اسٹائل دیکھو، ان کی قیمتی گاڑیوں کا ہمارے امیر ترین لوگ بھی نہیں مقابلہ کرسکتے، نہ کرنا چاہتے ہیں، تمہارے حکمرانوں کے محلات میںٹونٹیاں، کنڈے، تالے تک سونے کے ہوتے ہیں، تمہارے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’کسی نے کبھی کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے کما کے کھائے اور اللہ کے پیغمبر داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں سے کام کرکے کھاتے تھے‘‘۔ ہر مسلمان کو یہ تویاد ہے کہ ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ لیکن ہاتھ سے کام کرنے والے کو پست، اور ادنیٰ سمجھا جاتا ہے، ہمارے ہاںمالی، ویلڈنگ کرنے والا، گٹر صاف کرنے والا، جو تے مرمت کرنے والا، اسی سماجی حیثیت کا حامل ہے، جس حیثیت کا کوئی بھی دوسرا شخص، خاکروب، پارلیمنٹ کے ممبر کا پڑوسی ہے اور ریستوران میں فرش پونچھنے والا جس قطار میں کھڑا ہو کر کھانا خریدتا ہے، اسی قطار میں وزیر بھی کھڑا ہوتا ہے، تمہارے رسولﷺ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے اور جوتھے خود مرمت کرتے تھے، ہم بھی یہ کام خود کرتے ہیں، ہمارے ہاں ملازم نہیں ہوتے، بڑے سے بڑا شخص اپنے جوتے خود پالش کرتا ہے، کپڑے خود دھوتاہے، استری خود کرتا ہے، اپنا کمرہ اور اپنا بیت الخلاء خود صاف کرتا ہے، تمہارے رسولﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔کیا نیوزی لینڈ سے لے کر بحر الکاہل کے مغربی ساحلوں تک کسی ملک میں ملاوٹ والی خوراک فروخت ہوتی ہے؟ نہیں! یہ صرف تمہارے ہاں ہورہا ہے! تمہارے پیغمبرﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی عیب والی شے کسی کے ہاتھ فروخت کی اور خریدار کو وہ عیب نہیں بتلایا تو اللہ کے فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے رہیں گے، اپنے تاجروں اور ہمارے تاجروں کا موازنہ کرلو، ہمارے ہاں نقص والی شے بتائے بغیر فروخت کرنے کا تصور ہی مفقود ہے اور خریدی ہوئی شے واپس بھی ہوسکتی ہے اور تبدیل بھی! تمہارے پیغمبرﷺ کا ارشاد ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے، تم صفائی میں اپنے بازاروں کا ہمارے بازاروں سے، اپنی شاہراہوں کا ہماری شاہراہوں سے، اپنے غسل خانوں کا ہمارے غسل خانوں سے اور اپنے پارکوں اور سیر گاہوں کا ہمارے پارکوں اور سیرگاہوں سے موازنہ کرکے دیکھ لو کہ کون صاف ستھرا ہے اور کون میلا، گندا اور کثیف، تمہارے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ اپنے بوڑھوں اور ضعیفوں کا خیال رکھو کہ تمہیں انہی کی وجہ سے رزق بھی ملتا ہے ،ہم نے اپنے بوڑھوں کو مفت علاج، بس اور ٹرین میں مفت سفر اور انتہائی کم قیمت کے گھر فراہم کیے ہیں، ہمارے ’’اولڈ ہوم‘‘ فائیواسٹار ہوٹل کے معیار کے ہیں اور لا تعداد رضا کار صبح شام بوڑھوں کی مفت خدمت کررہے ہیں، جو بوڑھے اپنے گھروں میں اکیلے ہیں رضاکار ان کے گھروں میں جاکر ان کا کام کرتے ہیں‘‘۔ ’’تمہاری دکانوں اور کارخانوں کی پیشانیوں پر کلمے اور درود لکھے ہیں اور اندر جھوٹ ، وعدہ خلافی، ملاوٹ اور ٹیکس چوری کا کاروبار ہوتا ہے، تمہارے مکانوں پر ہذا من فضل ربي لکھا ہوتا ہے اور اندر نوکروں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے، تمہاری گاڑیوں میں سورہ یٰسین لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور تم ٹریفک کی ہر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہو، تم بارہ ربیع الاول منانے کے لیے کروڑوں خرچ کرتے ہو اور پورا سال اپنے رسولﷺ کی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہو، ہماراہر دن بارہ ربیع الاول ہے، ہم جو کچھ بھی ہیں اس لیے ہیں کہ محمدﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جو اس جہاں کے لیے بھی رحمت ہیں جس میں ہم رہتے ہیں، ہمیں امید ہے کہ محمدﷺ کا خدا ہمیں ایمان سے بھی سرفراز کرے گا، تم دیکھ لو، ہم میں سے جو مسلمان ہورہے ہیں ان میں وہ برائیاں نہیں پائی جاتی جن میں تم خاندانی مسلمان سرتا پا غرق ہو‘‘ میں اس شام بس میں بیٹھ کر قرطبہ چلا گیا، نہیں معلوم وہ مسلمان تھی یا نہیں، گمان غالب یہ ہے کہ وہ مسلمان تھی یا کچھ عرصہ بعد مسلمان ہوگئی ہوگی؛ لیکن میں ہر بارہ ربیع الاول کو سوچتا ہوں کہ مسلمان کہلوانے کے قابل ہوں یا نہیں‘‘! بزرگ کالم نگار محمد اظہار الحق صاحب سے سفید فام خاتون نے اسلامی تعلیمات اور سیرت رسول کے ساتھ مسلمانوں کے رویہ کے تعلق سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ، کیا وہ من وعن موجودہ مسلم معاشرہ کی عکاسی نہیں ؟ کیا فی الواقع سیرت رسول سے ہمارا تعلق محض دکھاوا نہیں ہے؟ کیا ہم نے چند رسمی چیزوں کو اختیار کرکے اسے محبتِ رسول کا عنوان نہیں دیا؟ بقول مولانا عبد الماجد دریابادی ’’اگر آج ہم اس بڑے امین کے نقش قدم پرچلے ہوتے تو ہم میں خیانت وبددیانتی کا گذر نہ ہوتا، اگر آج ہم اس رؤف رحیم کے پیرو ہوتے تو ہمارے دلوں میں ایک دوسرے سے بے اعتمادی وبدگمانی نہ ہوتی، اگر آج ہم نے اس غار حرا کے بیٹھنے والے کے آثار مبارک کو اپنا سرمہ چشم بنایا ہوتا تو ہمارے باطن میں کسی قسم کی گندگی باقی نہ رہتی، اگر آج ہم رحمۃ للعالمین کے پیام پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہوتے تو اپنی جیسی مخلوقات کے ساتھ بیگانگی اور مخالفت نہ ہوتی، اگر آج سچ بولنے والے اور سچ کے برتنے والے نبی کے طریقہ پر ہم قائم ہوتے تو جھوٹ کا ہماری آبادیوں میں نام ونشان ہی نہ ہوتا، اگر آج ہم کو اسم مبارک احمد کی لاج ہوتی تو اللہ کی حمد وثنا سے اس قدر گریز نہ ہوتا، اگر آج ہم کو اسم گرامی محمد سے عملاً کوئی واسطہ ہوتا تو اپنی موجودہ پستی اور بدنامی سے کئی مراحل دور ہوتے‘‘۔ سفید فام انگریز خاتون نے فی الواقع ہم مسلمانوں کو سیرت کا آئینہ دکھایا ہے، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس آئینہ میں اپنے داغ دھبوں کو دور کرنے کی سعی کریں۔

 

Email: awameez@gmail.com

Mob: 09440371335

Related Articles

One Comment

  1. ماشاء اللہ؛ اللہ پاک استاذ محترم کو اور مزید ترقیات سے مالا فرمائے، اللہ امت مسلمہ کی خستہ حالی پر رحم فرمائے، اور پوری امت مسلمہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کی توفیق مرحمت فرمائے
    عصر حاضر کی قلمکاروں کے تئیں جو کاوشیں ہیں اللہ پاک انہیں بارگاہ میں شرف قبولیت بخشے،
    دعاگو و دعاجو : یکے از شاگرد حضرت استاذِمحترم

احمد عبید اللہ یاسر قاسمی کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×