فقہ و فتاوی

روزے کے اہم مسائل

روزے کی نیت

٭رمضان المبارک کے ہر روزے کے لئے الگ الگ نیت کرنا ضروری ہے ؛نیت چاہے رات میں کرلے یا آدھا دن (شرعی )سے پہلے کرلے ۔ (ھندیہ ۱؍۱۹۵)
٭نیت کے لئے زبان سے کہنا ضروری نہیں بلکہ محض دل سے ارادہ کرلینا کا فی ہے حتی کہ روزے کے لئے سحری کھا نا بھی نیت کے درجے میں ہے ۔ (ھندیہ ۱؍۱۹۵)
٭ کسی نے روزہ کی نیت کرلی مگر ابھی سحری کا وقت باقی ہے تو اس کے لئے سحری کا وقت ختم ہو نے تک کھا نے پینے کی کی اجازت ہے ۔ (کتاب المسائل ۲؍۱۴۷)
٭سحری کھانا سنت ہے لیکن اگر کوئی شخص سحری کھائے بغیر ہی روزے کی نیت کرلے تو بھی اس کا روزہ درست ہوجائے گا البتہ سحری کی برکت سے محروم رہے گا ( بدرئع الضائع ۲؍۲۶۶۔ ھندیہ ۱؍۱۹۵ تا ۲۱۶)
افطار و سحر کا وقت
٭سحری رات کے اخیر حصہ میں کھانا اور افطار اول وقت میں کرنا مستحب ہے ؛ (ھندیہ ۱؍۲۰۰)
٭حید رآباد دکن کے مروجہ نظام الاوقات میں احتیاط کے پیش ِ نظرانتہائے سحر ؛ اصل وقت سے دس منٹ قبل درج ہے اور ابتدائے فجر ؛ اصل وقت سے بارہ منٹ بعد درج ہے ؛ جس کی بنا پر بعض لوگ اذانِ فجر تک اس خیال سے کھانا کھاتے رہتے ہیں کہ ابھی سحری کا وقت باقی ہے حالاں کہ اصل اوقات کے اعتبار سے سحری کا وقت بارہ منٹ پہلے ہی ختم ہو چکا ہو تا ہے اس لئے جو لوگ اذان تک کھاتے پیتے رہتے ہیں ان کا روز ہ معتبرنہیں ہوتا ، ان روزوںکی قضا ان کے ذمہ ضروری ہے ۔ ( کتاب الفتاوی ۸؍ ۳۸۴۔ Urdu Siyasat.com 605862)
٭ سحری کا وقت ختم ہو نے سے پہلے حائضہ عورت پا ک ہوئی تو اس کی تین صورتیں ہیں (۱)دس دن مکمل حیض میں رہ کر پاک ہوئی ہے تو اسے بہر ِصورت اس دن کا روزہ رکھنا ہوگا (۲)دس دن سے کم میں پاک ہوئی ہے اور سحری ختم ہونے میں اتنا وقت باقی ہے جس میں وہ غسل کرکے پاک ہوسکتی ہے تو اس صورت میں بھی اس دن کا روزہ رکھنا ہوگا (۳)دس دن سے کم میں پاک ہوئی مگر اتنا وقت باقی نہیں کہ جس میں غسل کرکے پاک ہو سکے تو اس دن کے روزہ کی نیت کرنا اس کیلئے درست نہیں ،بعد میں قضا کرلے (کتاب المسائل ۲؍۷۳)
٭سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد کوئی عورت حیض یا نفاس سے پاک ہوئی تو آج کے دن وہ روزہ نہیں رکھے گی بلکہ بعد میں اس دن کی قضا کرے گی البتہ روزہ داروں کی طرح شام تک کھانے پینے سے ا حتراز کرے ( ھدایہ ۱؍ ۱۲۶)
اور اگر پاکی کی حالت میں روزہ شروع کرنے کے بعد دن میں حیض آگیا ہو تو روزہ ختم کرکے کھاپی لے البتہ روزہ داروں کے سامنے نہ کھائے ۔(الھدایۃ مع البنایۃ ۴؍ ۹۹۔ فتاوی حقانیہ ۴؍۱۹۰)

روزے کی فرضیت

٭ماہ ِ رمضان کے روزے رکھنا ہر عاقل بالغ مسلمان غیر معذورشخص پر فرض ہے (ھندیہ ۱؍۱۹۵)
٭حیض و نفاس والی عورت کے لئے روزہ رکھنا جائز نہیں لیکن بعد میں قضا لازم ہے ( ھندیہ ۱؍۱۹۵)
٭مریض ، مسافر ، حاملہ، دودھ پلانے والی ؛ کمزور ومجبور شخص کے لئے ،عذر کی بنا پر روزہ نہ رکھنا مباح ہے ؛ جب ان کا عذر ختم ہو جائے تو وہ روزے کی قضاکریں( ھندیہ ۱؍۲۰۷)
٭اسکول اور کالج کے امتحانات کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ؛اسی طرح سخت محنت مزدوری کے کا م کی وجہ سے بھی روز ہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ؛ البتہ اگر ایسے لوگ روزہ رکھنے کے بعد کام کرتے کرتے تھک جائیں اور اس کی وجہ سے روزہ باقی رکھنے میں سخت مشکل پیش آجائے جو برداشت سے باہر ہوتو روزہ توڑسکتے ہیں ؛ بعد میں اس کی قضا کرلیں ۔ ( رمضان اور جدید مسائل : ۱۹۴۔ فتاوی دارالعلوم زکریا ۳؍ ۲۹۲)
٭کسی شخص کا ارادہ ؛ دن میں سفر کرنے کا ہے تو اس کوروزہ چھوڑنا جائز نہیں ہا ں جب سفر شروع ہو جائے اور روزہ رکھنے میں مشقت ہو تو روزہ توڑنے کی اجازت ہے بعد میں اس کی قضا کرلے ۔( ھندیہ ۱؍۲۰۶-خیرالفتاوی ۴؍۴۶)
٭کوئی شخص ایسا ہو جسے نہ فی الحا ل روز ہ رکھنے کی طاقت ہو اور نہ آئندہ قضا پر قدرت ہو تو وہ ماہِ رمضان شروع ہونے کے بعد ان روزوں کا فدیہ ؛ فی روزہ ایک صدقۂ فطر کے بقدرغلہ یا اس کی قیمت کے حساب سے ادا کردے ؛ مکمل ماہ کے روزوںکا فدیہ ایک فقیر کو دیا جا سکتا ہے ، اسی طرح ایک روزہ کا فدیہ کئی فقیروں میں بھی بانٹا جا سکتا ہے ۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند ۶؍۱۶۶-فتاوی رحیمہ ۷؍۲۷۲)
٭ایک شخص نے سعودی عرب میں رمضان شروع کیا پھر درمیان ِ رمضان ؛ ہندوستا ن آگیا تو اب وہ یہاں کے حساب سے روزے مکمل کرے، چاہے اکتیس روزے ہو جائیں ،ان زائد روزوں کو شوال کے چھ روزوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا ( کتاب الفتاوی ۸؍۳۷۳)
٭ایک شخص نے ہندوستان میں رمضان شروع کیا پھر درمیانِ رمضان سعودی عرب چلاگیا تو اب وہ وہاں کے حساب سے عید کرے البتہ اس صورت میں اگر اس کے اٹھائیس روزے ہی ہوئے ہوں جب کہ وہاں انتیس روزے ہوئے تھے تو ایک روزے کی قضا کرے اور تیس روزے ہو ئے تھے تو دو روزوں کی قضا کرے ۔ (فتاوی عثمانی ۲؍ ۱۷۷ -رمضان اور جدید مسائل :۱۰۴)
٭ ایک شخص سعودی عرب میں پورا رمضان گزار کر عید بھی کر چکا پھر ہندوستان آیا اور ابھی یہاں روزے چل رہے ہیں تو اس پر روزہ رکھنا ضروری نہیں ہاں عید میں شا مل ہو جائے (رمضان اور جدید مسائل :۱۰۴)

وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا

(۱) بھول کر کھانا پینا یابھول کر جماع کرنا(ھندیہ ۱؍۲۰۲)
(۲) انجکشن ؛ انسولین ؛ گلوکوز اور خون چڑھانا یا خون کاٹیسٹ کروانا یا ڈائیلاسس کروانا(رمضان اور جدید مسائل : ۱۰۶ تا ۱۷۸)
(۳) حلق میں بلا اختیار مکھی، مچھر، گرد وغبار ،دھواں یا آنسو،پسینہ کے ایک دو قطرے چلے جانا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۳)
(۴) آنکھوں میں سرمہ لگانا یا دوا ڈالنایا کان میں پانی ڈالنا ( کتاب الفتاوی ۳؍ ۳۹۸)
(۵) سر یا بدن پر تیل لگانا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۳)
(۶) بال یا ناخن کاٹنا ( کتاب الفتاوی ۳؍ ۳۸۴)
(۷) خود بخود قئے ہونا چاہے منہ بھر کر کیوں نہ ہو(کتاب النوازل ۶؍۲۲۸)
(۸) جان بوجھ کر منہ بھر سے کم قئے کرنا(کتاب الفتاوی ۸؍ ۳۷۶)
(۹)منہ بھر سے کم قئے کا خود بخود لوٹ جانا یا لوٹالینا (کتاب المسائل ۲؍۱۵۸-فتاوی دارالعلوم زکریا ۳؍۲۹۰)
(۱۰) ڈکار آنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اگر چہ ذائقہ بھی اس کے ساتھ آجائے ، جب ایسی ڈکار آئے کہ ذائقہ اندر سے باہر آجائے تو تھوک دے ، اس ذائقہ کو اندر نہ لے جائے (فتاوی محمودیہ ۲۲؍۳۶۶-آئینہ ٔ رمضان : ۹۷)
(۱۱)کوئی غذا ؛ چنے کی مقدار سے کم دانت میں پھنسی رہ گئی پھر منہ سے نکالے بغیر اسے نگل گیا تو روزہ فاسد نہ ہوگا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۲)
(۱۲) تھوک یا بلغم کا اندر ہی اندر نگل لینا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۳)
(۱۳) غسل کرنا یا سر پر رومال کپڑا بھگوکر ڈالنا (فتاوی دارالعلوم دیوبند ۶؍۲۵۸)
(۱۴) مسواک کرنا البتہ منجن او ر ٹوتھ پیسٹ استعمال کرنا مکروہ ہے اور اگر اس کے اجزاء و ذرات حلق کے نیچے اتر گئے تو روزہ بھی ٹوٹ جائے گا ۔ (فتاوی عثمانی۲؍ ۱۹۰۔ تحفہ ٔ رمضان : ۷۴)
(۱۵)بدن پر سینٹ یا عطر لگانا (فتاوی محمودیہ ۱۰؍۱۵۷)
(۱۶) پیشانی ، گردن ،گلے یا ناک کے ظاہری حصہ پر وکس یا زنڈوبام لگانا (کتاب الفتا وی ۳؍۳۹۴)
(۱۷) مرد کے پیشاب کے راستہ میں دوا یا تیل ڈالنا یا عورت کا اپنی بیرونی شرمگاہ میں دوا لگانا بشرطیکہ دوا اندورنی شرمگاہ تک نہ پہنچی ہو ( احسن الفتاوی ۴؍ ۴۴۸ – رمضان اور جدید مسائل : ۱۵۰)
(۱۸) آکسیجن (OXYGEN)َؑلگانا البتہ اگر اس میںدوا وغیرہ ملی ہو تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا لازم ہو گی (فتاوی عثمانی ۲؍۱۸۰)
(۱۹) دانت نکلوانا البتہ اس کی وجہ سے اگر خون تھوک کے ساتھ مل کر زیادہ مقدا ر میں یا تھوک کے برابر مقدار میںحلق کے نیچے اتر گیا یا حلق میں خون کا مزہ محسوس ہو ا تو روزہ فاسد ہوجائے گا(احسن الفتاوی ۴؍۴۳۶)
(۲۰) سونے کی حالت میں احتلام ہوجانا یا بدنظری یا جماع کے تصور سے انزال ہوجانا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۴)
(۲۱) امراضِ قلب میں جو گولی صرف زبان کے نیچے دبانے کی ہوتی ہے حلق کے نیچے اتاری نہیں جاتی ؛ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اگر دوا کے اجزاء تھوک کے ساتھ مل کر حلق کے راستے سے اندر چلے جائیں تو روزہ ٹوٹ جائے گا ( رمضان اور جدید مسائل : ۱۲۶)
(۲۲) منہ یا مقعد کے راستہ سے کوئی آلہ یا نلکی کاایک سرا اند داخل کیا گیا یا مرض کی تحقیق کیلئے رحم تک کوئی آلہ پہنچا یا گیا اور اس پر کوئی دوا یا پانی لگا ہوا نہ ہو تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا اور اگر اس پر دوا یا پانی لگا ہو تو روزہ فاسد ہو جائے گا ( اہم فقہی فیصلے :۸۷- رمضان اور جدید مسائل : ۱۴۵۔ ۱۹۵)
(۲۳) روزہ کی حالت میں دماغ یا پیٹ کا آپر یشن ہوا اور اندر سے صرف کچھ نکالا گیا ؛ دوا و غیرہ کچھ بھی ڈالی نہ گئی تو اس سے روزہ فاسد نہ ہوگا ۔۔۔۔۔
(۲۴) روزہ کی حالت میں جسم کے کسی اور حصے کا آپریشن ہوا اوراس حصہ سے دماغ یا پیٹ تک کوئی اصلی راستہ نہیں ہے تواس سے روزہ فاسد نہ ہو گا خواہ دوا اندر ڈالی گئی ہو (رمضان اور جدید مسائل :۱۲۶)
(۲۵) مسوڑھوں سے خون نکل کر حلق میں داخل ہو تو اس کی دو صورتیں ہیں (۱)خون کی مقدار کم ہے اور تھوک غالب ہے تو روزہ فاسد نہیں ہو گا(۲) خون کی مقدار زیادہ ہے یعنی تھوک پر غالب ہے تو روزہ فاسد ہو جائے گا لیکن علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں کہ اگر خون نکلنے کی کیفیت ، ایسی ہو کہ بچنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں روزہ نہ فاسد ہو گا جیسا کہ قئے خود بخود لوٹ جائے ( فتاوی درالعلوم زکریا ۳؍۲۹۶ -کتاب الفتاوی ۳؍۳۹۷)
(۲۶)نکسیر پھوٹ گئی اور اس کا اثر تھو ک میں بھی پایا گیا (مگر خون حلق سے نیچے نہیں اترا ) تو اس سے رو زہ فاسد نہ ہوگا (فتاوی دارالعلوم دیوبند ۶؍ ۲۵۸-احسن الفتاوی ۴؍ ۴۴۸)

روزہ فاسد کرنے اور قضا لازم کرنے والی چیزیں

(۱)اپنے اختیار سے اگر بتی یا کسی اور چیز کا دھواں لینا (امدادالاحکام ۲؍۱۳۵)
(۲)دمہ اور نزلہ کا انہیلر لینا (فتوی دارالعلوم کراچی ۱۱؍۱۱۳۰)
(۳)جان بوجھ کر منہ بھر قئے کرنایا خود بخود منہ بھر ہونے والی قئے کا کچھ حصہ (چنے کی مقدار برابر ) نگل لینا (احسن الفتاوی ۴؍ ۴۴۳-نجم الفتاوی ۳؍ ۲۰۲)
(۴)ناک یا کان میں دوا یا تیل ڈالنا(ھندیہ ۱؍ ۲۰۴)
(۵)کلی یا غر غرہ کرتے وقت غلطی سے پانی کاحلق میں چلاجانا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۲)
(۶)مٹی ، گھاس پھوس یا کاغذ کھالینا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۲)
(۷)مشت زنی کے ذریعہ منی خارج کرنا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۵)
(۸)بیوی سے بوس وکنار کرنے سے انزال ہوجانا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۴)
(۹) احتلام ہونے پر روزہ ٹوٹ جانے کے خیا ل سے افطار کرلینا(ھندیہ ۱؍ ۲۰۶)
(۱۰)سخت بیماری کی وجہ سے روزہ توڑلینا (کتاب المسائل ۲؍۱۶۶)
(۱۱) اینما(Enema)لینا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۴)
(۱۲)نسوار (ناس) لینا(فتاوی فریدیہ ۴؍ ۱۳۴)
(۱۳) بارش کے ایک دو قطروں کا حلق میں اترجانا (ھندیہ ۱؍۲۰۳)
(۱۴)بواسیر کے اندرونی مسّوںپر دوا لگانا بشرطیکہ دوا مقعد سے اندر کی طرف تین انچ سے آگے تک پہنچ جائے (رمضان اور جدید مسائل : ۱۴۴-کتاب النوازل ۶؍ ۳۸۳)

روزہ کو فاسد کرنے اور قضا و کفارہ لازم کرنے والی چیزیں

(۱)بغیر کسی شرعی عذر کے کھانا پینا یا جما ع کرنا (ھندیہ ۱؍ ۲۰۵)
(۲) جا ن بوجھ کر کچا گوشت یا کچی چربی کھانا (عمدۃ الفقہ ۳؍ ۲۰۴)
(۳) عادت و لذت کی بنا پر حقہ نوشی یا سگریٹ نوشی کرنا ( فتاوی دارالعلوم زکریا ۳؍۲۸۵)
(۴)بیوی یا اپنے کسی محبوب کی زبان چوسنا اور اس کا لعاب نگل لینا ( فتاوی دارالعلوم زکریا ۳؍۳۰۷)
(۵) کفارہ یہ ہے کہ غلام یاباندی آزاد کرے اگر یہ ممکن نہ ہوجیسا کہ آ ج کل کا دور ہے تو لگاتار دو مہینے روزے رکھے ؛ درمیان میںا یک بھی ناغہ نہ ہو ورنہ ازسرِ نورکھنے پڑیں گے ،اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو توساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھرکر کھانا کھلائے یا ہر مسکین کو صدقۂ فطر کے بقدر غلہ یا اتنی رقم دے (نورا لایضاح مع مامرا قی الفلاح : ۳۶۶ ۔وشامی ۳؍۳۹۰)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×