اجتماعی قربانی؛چندضروری مسائل
ہجری تقویم کے آخری مہینے‘‘ ذی الحجۃ الحرام’’کا آغاز ہوچکاہے اور اس کے ساتھ ہی قربانی جیسی اہم ذمہ داری کو لے کر مسلمانوں میں غیرمعمولی جوش و خروش دیکھا جارہاہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مبارک سنت ہے؛جسے حق تعالی نے قیامت تک کے لیے جاری و ساری فرمادیا ہے۔ نیز حضور اکرم ﷺنے ہجرت کے بعد سے تاحین حیات اس ذمہ داری کو بہ پابندی ادا فرمایا ہے،نہ صرف اپنی جانب سے؛بل کہ اپنی ازواج مطہرات کی جانب سے بھی۔حضرت جابرؓ سے منقول ہے کہ نبی پاکﷺاپنی بیویوں کی طرف سے بھی قربانی فرمایا کرتے تھے۔(مسلم شریف)
خوش دلی سے قربانی کریں!
قربانی ہرصاحب نصاب پر واجب و ضروری ہے۔نیز نبی پاک ﷺنے قربانی کو خوش دلی سے انجام دینے کی تلقین و تاکیدفرمائی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوم النحریعنی عید کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی سے بڑھ کر کوئی نیک عمل زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ،بالوںاور کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے پاس مقبول ہو جاتا ہے؛ اس لئے تم خوش دلی اور خلوص سے قربانی کیا کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ)اس حکم کے باوجود مسلمانوں کی ایک تعداد ایسی ہے جو قربانی کو مطلوبہ اہمیت نہیں دیتی اور کہیں بھی سستا سا حصہ دیکھ کر ذمہ داری سے بری ہوجاناچاہتی ہے ،جونہایت نامناسب عمل ہے۔ہونا تو یہ چاہیے کہ قربانی کے لیے پہلے سے تیاری کی جائے،موقع ہوتو خود جاکر حسب وسعت چھوٹا یا بڑا جانور خریدا یا منتخب کیاجائے،اس کی کماحقہ دیکھ ریکھ کی جائے اور عید کے دن اپنے ہاتھ سے اس کو ذبح کیاجائے؛تاکہ ہم خود بھی قربانی کرکے اطمینان و خوشی محسوس کرسکیں۔
اس وقت عیدقرباںکی مناسبت سے اجتماعی قربانی سے متعلق چند اہم مسائل ہدیۂ قارئین کیے جارہے ہیں؛تاکہ ہم شریعت کے مطابق قربانی کی ذمہ داری اداکرسکیں اور کسی ادنی سی چوک اور معمولی سی غلطی کے سبب تمام شرکاکی قربانی اکارت نہ جائے۔
اجتماعی قربانی میں حصہ لینے کی شرطیں:
اگر آپ کسی بھی ٹرسٹ یا ادارے میں بڑے جانور کی اجتماعی قربانی کے لیے حصہ دار بننا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ معلومات کر کے کسی ایسے ٹرسٹ میں حصہ ڈالیں جس پر آپ کو اعتماد اور دلی اطمینان ہو کہ وہ واقعی اجتماعی قربانی کرتا ہے، اور اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ جانور کسی صحیح العقیدہ سنی مسلمان/ یا اہلِ کتاب سے ہی ذبح کرواتا ہے اور اجتماعی قربانی کے شرکاء میں اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ وہ صحیح العقیدہ سنی مسلمان ہوں اور کسی کے بارے میں یہ جانتے ہوئے کہ اس کی کمائی حرام کی ہے اسے قربانی میں شریک نہ کرتا ہو۔
چناں چہ کسی بھی ایسے ٹرسٹ میں قربانی کا حصہ ڈالنے سے آپ کی قربانی درست ہوجائے گی اور آپ بری الذمہ ہوجائیں گے، آپ کا اپنی آنکھوں سے قربانی ہوتے ہوئے دیکھنا اگرچہ شرط نہیں ہے؛مگربہتر ہے کہ ذبح کے وقت آپ وہاں موجود ہوں۔
قربانی کے شرکاء کے عقیدے سے متعلق ایک اہم مسئلہ:
1:جیساکہ ابھی عرض کیاگیا قربانی کے جانور میں شریک ہونے والے تمام شرکاء کا مسلمان ہونا ضروری ہے، اگر کوئی ایک شریک بھی ان میں سے مسلمان نہ ہو تو کسی کی بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔ واضح رہے کہ مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تمام ضروریات دین کو تسلیم کیا جائے، ان میں سے کسی ایک بات کا بھی انکار کرنا کفر ہے۔ اس کی تفصیل عقائد کی کتب میں دیکھی جاسکتی ہے۔
2: ایسے شدید گمراہ افراد کو بھی قربانی میں ہرگز شریک نہ کیا جائے جن کا اسلام سے تعلق مشکوک ہو یا جن کے کفر اور اسلام کا معاملہ واضح نہ ہو۔
3:آج کل کفر و الحاد اور گمراہی کا دور دورہ ہے اس لیے کوشش یہی ہونی چاہیے کہ تمام شرکاء صحیح العقیدہ مسلمان ہوں، تاکہ قربانی کی یہ عظیم عبادت بخوبی ادا کی جاسکے۔(الدرالمختار مع ردالمحتار 6/326)
قربانی کے حصے داروں میں گوشت کی تقسیم:
اجتماعی قربانی میں بڑے جانور میں شریک افراد میں گوشت تقسیم کرتے وقت تول کر تقسیم کیا جائے، اندازے سے تقسیم نہ کیا جائے، کیوں کہ گوشت اموال ربویہ میں سے ہے، کسی کو کم کسی کو زیادہ دینے کی صورت میں سود ہونے کا گناہ ہوگا، البتہ اگر گوشت کے ساتھ کچھ حصوں میں کلہ، پائے، مغز، کلیجی، یا پھیپڑوں کو شامل کرلیا جائے، تو اس صورت میں تمام حصوں کے گوشت کا وزن برابر ہونا ضروری نہ ہوگا، وزن میں فرق کے ساتھ بھی تقسیم درست ہوگی۔نیز اگر تمام حصہ دار ایک جگہ کھاتے ہوں، ان کا کھانا جدا جدا نہ ہو تو اس صورت میں بھی گوشت کو تول کر تقسیم کرنا ضروری نہ ہوگا۔
اسی طرح سے اگر تمام حصہ دار اس بات پر راضی ہوں کہ گوشت تقسیم نہ کیا جائے، بلکہ ایک ہی جگہ پکا کر کھایا جائے، تو اس صورت میں بھی وزن کرکے تقسیم کرنا ضروری نہ ہوگا، البتہ اگر کوئی حصہ دار اپنا حصہ وصول کرنا چاہتا ہو تو اس صورت میں وزن کرکے تقسیم ضروری ہوگی۔(فتاوی جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون)
قربانی میں کس مقام کا اعتبار ہے،واقف کے یا جانور کے؟
ہرسال مختلف رفاہی تنظیمیں اپنے ہاں بڑے پیمانے پر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرتی ہیں، جس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد استفادہ کرتی ہے،اکثر لوگ اپنی قربانی کے حصے وقف کردیتے ہیں اور قربانی کی رقم جمع کرواکر ادارے کو اپنی قربانی کا وکیل بنادیتے ہیں؛ تاکہ عید قرباں کے موقع پر ان کی قربانی کا گوشت مستحق،نادار اور ضرورت مند افراد تک پہنچ سکے۔ وقف کی ان قربانیوں سے متعلق ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کبھی وقف کرنے والے غیرملکی ہوتے ہیں جن کے ہاں ابھی نوذوالحجہ ہوتی ہے جب کہ قربانی کی جگہ دس ذوالحجہ ہوجاتی ہے اور کبھی اس کا برعکس ہوتا ہے۔ ایسے میں کس دن اور کس مقام کی قربانی کا اعتبار کرنا چاہیے؟ تو اس سلسلے میں فقہاء کرام نے صراحت کی ہے کہ قربانی میں واقف یعنی قربانی کرنے والے اورقربانی کے جانوردونوں کااعتبارکیاجائے گا۔یعنی دونوں کے اعتبارسے جوعیدکے مشترکہ دن ہوں گے ان میں قربانی کرنالازم ہوگا۔مثلاً واقف کے ہاں نوذی الحجہ ہے جبکہ قربانی کے مقام پردس ذی الحجہ ہوچکی ہے تواس صورت میں گیارہ اوربارہ ذی الحجہ کے ایام چونکہ ان دونوں کے مشترکہ عیدکے ایام ہیں لہذا اس صورت میں نوتاریخ کوقربانی درست نہیں ہوگی بلکہ دس یا گیارہ تاریخ کومشترکہ ایام میں قربانی کرنی ہوگی۔(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع)
اجتماعی قربانی کے جانور کی کھال:
اجتماعی قربانی کے جانور کی کھال بلاشبہ تمام شرکاء کی ملکیت ہے اور ہرشریک کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حصے کی کھال کا مطالبہ کرے؛لہذا ادارے کے لیے ان میں سے کسی کے حصہ کی کھال اس کی رضامندی کے بغیر اپنے پاس رکھ لینا ہر گز جائز نہیں، البتہ اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والا ادارہ اگر حصہ داروں کو شریک کرتے وقت ہی ان سے یہ دریافت کرلے کہ وہ اپنے حصہ کی کھال ادارے کو دینے پر راضی ہیں یا نہیں اور پھر وہ ادارے کو اپنے حصہ کی کھال دینے پر رضامندی ظاہر کردیں توادارہ کے لیے کھال رکھنا جائز ہے؛ لیکن اگر وہ ادارے کو اپنے حصہ کی کھال نہ دینا چاہیں توان کے جانور کی کھال انہیں واپس کرنا اور ادارے پر لازم ہے ایسے افراد کے یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ جس جانور میں یہ افراد شریک ہوں اس جانور کی کھال اس کے حصہ داروں کے حوالے کردی جائے پھر اگر بعض حصہ دار اپنے حصہ کی کھال ادارے کو دیناچاہیں تو اس کھال کو فروخت کرکے اپنے حصہ کی قیمت ادارے کو دے سکتے ہیں اور اگر ادارہ چاہے تو یہ صورت اختیار کرسکتا ہے کہ ایسے تمام حصہ دار جو اجتماعی قربانی میں شریک ہوتے وقت ہی یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ کسی بھی وجہ سے ادارے کو کھال دینے پرراضی نہیں ہیں تو ان کو جانوروں میں ایسے حصہ داروں کے ساتھ شریک نہ کرے جو ادارے کو اپنے حصہ کی کھال دینا چاہتے ہیں بلکہ ادارے کو کھال نہ دینے والے افراد یکجا کردے مثلا ً اگر سات حصہ دار اپنے حصہ کی کھال ادرے کو نہ دینا چاہیں تو ان سات حصہ داروں کو ایک جانور میں شریک کر کے جانور کی کھال ان کے حوالے کردے اس صورت میں وہ حصہ دار جو ادارے کو اپنے حصہ کی کھال نہیں دینا چاہتے مشترک طور پر کسی بھی جانور میں جمع نہیں ہوں گے اورا یسا کرنے سے ادارہ کسی اضافی دشواری سے بھی بچ جائے گا۔(فتاوی دارالعلوم کراچی)
مختصر یہ کہ قربانی کی یہ عبادت تصحیح نیت اور خلوص دل سے کی جائے ،علماء سے مسائل معلوم کیے جائیں اور شرعی اعتبار سے تمام اصول و شرائط کو ملحوظ رکھاجائے؛تاکہ عنداللہ ہماری قربانی شرف قبول حاصل کرے اور قربانی کرنے والے کے لیے جوخوش خبریاں سنائی گئی ہیں ؛ہم ان کے حق دار بن سکیں ۔