سیرت و تاریخ

امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں

محبت ایک پاکیزہ جذبہ اور صحیح میلان کا نام ہے، محبت میں اگر جذبۂ صادق اور طلب حقیقی ہو تو اس میں اطاعت و فرمانبرداری، احترام و اکرام کا عنصر خود بخود شامل ہوجاتا ہے،فلاں شخص دعوی کرے کہ وہ کسی سے محبت کرتا ہے مگر اسکی ضروریات اور اسکے منشاء کے مطابق اس سے پیش نہیں آتا اور اسکے تقاضوں کو نظرانداز کررہا ہے تو کیا کوئی اس کی محبت کے دعوی کو تسلیم کرے گا؟ ہرگز نہیں! محبت تو محبوب کے تقاضے سے مشروط ہوتی ہے،اگر تقاضے اور منشاء کی تکمیل نہ ہو تو دعوی بے بنیاد اور کھوکھلا ہونے میں کسی کو شک وہ شبہ نہیں ہوتا بعینہ اگر ہمیں أحمد مجتبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت ہے تو آپ کے تقاضے اور منشاء پر عمل ہونا چاہیے ورنہ تو عشق رسول کا دعویٰ سراسر بے بنیاد اور بے اصل ہوگا

ظہور قدسی
آج سے ساڑھے چودہ سو سال سے قبل ظلمت کدہ عالم میں خداوند عالم نے وہ عظیم الشان ہستی کو مبعوث فرمایا جو رسولوں کے سردار اور ختم نبوت کے علمبردار تھے،جو دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا کا ظہور تھے،جوایسی مقدس شریعت سے سرفراز فرمائے گئے تھے جو تا قیامت جاری و ساری رہنے والی ہے، جنہیں ایسا کلام معجز عطا فرمایا گیا تھا جو بنی نوع آدم کے لئے آخری سانس تک قانون کی حیثیت رکھتا ہے،جس کے بعد کسی نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی نہ رہ گئی ہو،ایسا کامل وہ مکمل دین عطا فرمایا جس کو الیوم اکملت لکم الخ کے ذریعے خدائی سند حاصل ہے،

کچھ بھی پیغام محمد کا تمھیں پاس نہیں
مگر افسوس اسی شریعت کے نام لیوا، محبت رسول کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں نے شریعت محمدی میں بہت ساری تحریفات کرکے ایسے رسوم و رواج بدعات و خرافات کو دین اسلام کا نام دیے دیا ہے جسکا ماضی میں کوئی تذکرہ نہیں ملتا، دور نبوت، دور صحابہ، دور تابعین تبع تابعین، کہیں پر بھی اسکی شہادت نہیں ملتی بلکہ ہندوؤں اور غیر مسلم اقوام کی صحبت اور جہالت نے مذہب اسلام کے متبعین میں بہت سارے خرافات کو رواج دیا ہے مقام حیرت ہے کہ جہاں ایک طرف سادہ لوح مسلمان ان باطل اور جاہلانہ رسم و رواج کو اسلام کا نام دے کر ثواب کی امید پر بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے ہیں تو وہیں دوسری طرف افسوس کی انتہا نہیں رہتی ان حضرات پر جو شریعت کے علم کے باوجود محض نام و نمود، دنیوی اغراض،سیم وزر کی لالچ میں بدعات و رسومات، جاہلانہ عقائد اور باطل نظریات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کا نام دے کر سادہ لوح عوام کو گمراہی کے ایک عمیق اور تاریک غار میں دھکیل رہے ہیں؛ حد تو یہ ہے کہ اپنے بیانات اور بھڑکانے والی تقاریر میں صحیح العقیدہ مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ لگا کر ان سے تعلقات کے ختم کرنے، میل جول اور سلام و مصافحہ پر قدغن لگا کر مسلم اتحاد و اتفاق  یکجہتی و امن پسندی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں (فواسفاہ) علامہ اقبال نے شاید اسی کی عکاسی کی ہے

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمھیں پاس نہیں

بدعت کی اصل وجہ
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ دانی اور سیرت رسول، اور اسلامی تعلیمات سے بہت حد تک نا آشنا ہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات اور تاریخ کو موجودہ دور کے جدت پسند عناصر نے قدیم دقیانوسیت اور اسلاف پرستی، تنگ نظری اور جمود کا نام دے کر مسلمانوں کو اس سے بتدریج دور کردیا ہے؛جسکے نتیجے میں احقاق حق اور ابطال باطل کی تمیز کا فقدان پوری امت مسلمہ پر مسلط ہےتبھی تو آئے دن بدعات و خرافات، باطل نظریات، اور غلط عقائد و افکار کی ایک بھر مار ہوتی ہے جو امت مسلمہ کے اتحاد اور سالمیت کو دن بہ دن نقصان پہنچا رہے ہیں اہل باطل ان بدعتوں پر دین کا لیبل چسپاں کرکے عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہیں اور عوام  دینی جہالت، دینی ناخواندگی کی وجہ سے اس پر عمل پیرا ہوجاتے ہیں، رفتہ رفتہ وہ بدعتیں معاشرے میں پھیل کر  اس کی جڑیں مضبوط ہوجاتی ہیں

ولادتِ رسول نو یا بارہ
تاریخ نویسوں کے درمیان ولادتِ مبارکہ کی تاریخ میں کافی اختلاف ہے، کسی نے ٢ربیع الاول کہا، تو کسی نے ٨ ربیع الاول،تو بعض نے ٩ ربیع الاول تو کچھ اوروں نے ١٢ ربیع الاول کہا، جمہور علماء کے نزدیک ولادتِ مبارکہ کی تاریخ ١٢ ربیع الاول ہےلیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت کے دن پر کسی کا اختلاف نہیں متفقہ قول ہے کہ بروز پیر نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا ظہور قدسی ہوا، تاریخ دانوں فلکیات کے ماہروں نے پوری تحقیق کے ساتھ کہا ہے کہ ولادت مبارکہ کی تاریخ دن کے حساب سے ٩ ربیع الاول ہوتی ہے، ساتھ ہی بہت سے محقق سیرت نگاروں اورمورخین کی تحقیق بھی یہی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت نو[9] ربیع الاول کو ہوئی؛ چنانچہ ان میں ہندستان کے مایہ ناز مورخ قاضی محمد سلیمان منصورپوری رحمۃ اللہ علیہ (مصنف رحمۃ للعالمین)علامہ محمد طلعت (مصنف دول العرب والاسلام) علامہ رشید رضا مصری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا ابو الکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ (مصنف رسول رحمت) علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ (مصنف سیرت النبی) مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی رحمۃ اللہ علیہ (مصنف تاریخ اسلام) شاہ معین الدین احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ (مصنف تاریخ اسلام)مولاناابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ(مصنف نبی رحمت) مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (مصنف الرحیق المختوم) شامل ہیں

عید میلاد النبی کی بدعات
عصر حاضر میں جہاں دیگر اور بھی بہت سے بدعات و خرافات ہیں وہیں ان میں سر فہرست ”عیدمیلاد النبی“ ہے،اگر حقائق اور غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو حقیقت میں نا تو یہ عید ہے اور نہ ہی کوئی اور اسلامی تہوار ،محض ایک دکھاوا اور عیسائیوں کی طرح ایک رسم ہے جسے مسلم معاشرے کا ایک کثیر طبقہ دین سمجھتا ہے، جسے بطور عبادت بغرضِ حصولِ ثواب منایا جاتا ہے، جلسے جلوس کا اہتمام ، محفل میلاد کا انعقاد ہوتا ہے، بازاروں اور گلی کوچوں کو برقی قمقموں سے منور کیا جاتا ہے،آلات موسیقی اور ڈھول کا استعمال ہوتا ہے،مال کا بے جا اسراف ہوتا ہے، سڑکیں بند کردی جاتی ہیں، جلسے جلوس کی وجہ فرض نمازوں کا چھوڑا جاتا ہے، مدحِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حد تجاوزی ہوتی ہے، حتی کہ نبی کو اللہ کی صفات میں برابری کا درجہ دیا جاتا ہے (نعوذ باللہ من ذالک) یہ بھی عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک ان کے ذکر کے وقت حاضر ہوتی ہے اور وہ عبادات کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں، جبکہ یہ سب صریح بدعات ہیں جنکی کوئی اصل نہیں ہے
اللہ رحم فرمائے اس امت پر کہ اب تو عیسائیوں کی روش پر چل کر happy birthday day of Muhammad rasuullah
کے نام پر cake بھی کاٹا جارہا ہے، مجلس میں یا رسول اللہ کا نام لے کر تالیاں بجائی جاتی ہیں، دل خون کے آنسو روتا ہے، کلیجہ منھ کو آجاتا ہے، آہ!  اس بدبختی وہ حرمان نصیبی کو کیا نام دیا جائے، اس عظیم الشان ہستی کے محترم و معظم نام اور سیرتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے با عظمت عنوان پر اس طرح کے بدعات و خرافات! کچھ دیر کے لیے شیطان کی پیشانی بھی احساسِ ندامت سے عرق آلود ہوجاتی ہوگی، شاید علامہ اقبال نے انہیں کے بارے میں کہا تھا

ہاتھ بے زور ہیں الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں

مانا کہ یہ ماہ سعادت ہے اِس مقدس ومسعود موقع پر کائنات کی سب سے عظیم ترین شخصیت کے وَجود نے اِس مبارک مہینے کی عظمتوں کو چار چاند لگائے ہیں، لیکن اس سے بڑھ کر ہمارے لئے یہ مقام افسوس ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو کچھ ہمیں سرفراز فرمایا تھا آج ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہیں رہا، جو روحانیت عطا کی تھی آج ہم اس سے تہی دست ہیں، جن نعمتوں سے امت کو بہرہ ور کیا تھا آج ہم ان سے محروم ہیں، ہاں یہ مقام غم و بکا ہے عصر حاضر میں امت مسلمہ اپنے شامت اعمال کی بنا پر ذلت و رسوائی کے ساتھ جی رہی ہے ہم آقا سے غلام، حاکم سے محکوم ،غنی سے مفلس ،زَردار سے بے زر بلکہ بے گھر ہو چکے ہیں، کاش!! ہم یہ سوچتے کہ ہماری زبان جس مقدس ہستی کی محبت کا دم بھر رہی ہے، جس کے عشق کا دعویٰ کررہی ہے کیا وہ حقیقت ہے؟کیا عشق رسول کا یہی پیمانہ ہے؟ کیا اسکے تقاضے یہی ہیں؟کیا آج ہمارا عشق، صحابہ کے عشق رسول سے مختلف تو نہیں؟ کیا ہمارا ہر عمل اس دعویٰ محبت کا گواہ ہے؟ کیا ہمارا وجود اس عظیم ترین ہستی سے میل کھاتا ہے؟کیا یہ طریقہ سنت رسول یامحبان رسول اور عاشقان نبی سے ثابت ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے تو یقین رکھئے! یہ عشق ومحبت کا ڈھونگ فریبِ نفس علاوہ کچھ اور نہیں ہے، اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے علاوہ اسکی کوئی حقیقت نہیں ہے.
محبت رسول کا حقیقی مطلب

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے
جو ہو اس میں خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

عشق سچا ہو تو سینہ جلتا ہے، ایک آگ اندر لگتی ہے، اور اندر ہی سلگتی ہے، عشق ہو جائے تو لب سل جاتے ہیں، سر بازار ناچتا نہیں پھرتا، اندرونی آلاشیں پاک ہونے لگتی ہیں، ایک تڑپ محبوب جیسا بننے کی، ایک لگن نقش پا پر چلنے کی کوئی لمحہ چین نہیں لینے دیتی، ہر لحظہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو جائے جو نا گوار خاطر ہو،ہم غور کریں کہ کیا ہماری محبت ایسی ہی ہے یا نہیں؟ہم جب اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھتے ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کے اس دعوے میں کھوکھلے نظر آتے ہیں کیونکہ محب تو ہر حال میں محبوب کا تذکرہ حرزِ جاں رکھتا ہے،اور اگر ہماری محبت میں صداقت ہوتی،ہمارے عشقِ رسول میں ایک لگن ایک تڑپ ہوتی؛تو آج امت مسلمہ کی یہ حالتِ زار  ہرگز نہ ہوتی،مسلمان شریعت سے اس قدر بیگانہ نہ ہوتا،ہم حضور کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کے عادی ہوتے،اِتباعِ سنت ہمارا طرۂ اِمتیاز ہوتا،اور تقوٰی وہ طہارت پاکی وہ نظافت ہمارا شعار ہوتا.
عربی کا ایک مشہور شعر ہے جو حقیقت کا غماز ہے

تعصي الا لَہ وانت تُظہِرُ حبَّہ ہذا محالٌ وفي القیاسِ بدیع
لو کان حبُّک صادقًا لَأطَعْتَہ لِأنَّ المُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ یُطِیع

تم زبان سے اللہ کی محبت کا اظہار کرتے ہو اور عمل سے اس کی نافرمانی اور مخالفت۔ محبت اور مخالفت کو یکجا ہونا ازروئے عقل نہایت عجیب؛ بلکہ محال ہے۔ اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم یقینی طور پر اس کی اطاعت کرتے؛ کیونکہ محب وعاشق اپنے محبوب کا اطاعت گذار اور فرماں بردار ہوتا ہے۔

دھر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے
آج امت مسلمہ بہت تکلیف دہ و روح فرسا حادثات سے گزر رہی ہے، امت مسلمہ کا وجود کئی صدیوں سے مسلسل و لگاتار نت نئے فتنوں حادثوں و سازشوں اور کفار کی یورشوں کی زد میں ہے، بات ہمارے اِیمان تک آ پہونچی ہے،ہمارے اعمال بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں غضب بالائے غضب یہ ہے کہ ہم ابھی بھی غافل ہیں،کیا اب بھی ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم ربیع الاول میں ولادت رسول کے نام پر جشن منائیں؟یہ خواب غفلت سے بیدار ہونے کا وقت ہے خدارا!!ظاہری دل آویزیوں پر نہ جائیے،خرافات کی ظاہری چمک دمک دیکھ کر دھوکے میں نہ آئیے،رسمی مجلسوں کی آرائش سے پہلے اپنی حالت زار پر رحم کھائیے،سڑکوں اور چوراہوں پر قندیل روشن کرنے کے بجائے اپنے قلوب کو نورِ ایمانی سے منور کرنے کی کوشش کیجئے،ان عقائد سے اپنا دامن چھڑائیے اور اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہونے کا عہد کیجئے، تب جاکر قوم مسلم ایک بار پھر ترقی راہ پر گامزن ہوگی

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالاکردے
دھرمیں اسمِ محمدسے اجالا کردے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×