سیرت و تاریخ

مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

نبی ٔ رحمت ﷺ کی آمد و بعثت صرف بلاد عرب ہی کے لئے نہیں بلکہ پورے عالم کے لئے رحمت وبرکت اور نعمت و عنایت ہے،نبی رحمت ﷺ کی تشریف آوری سے جہاں فہرست انبیاء تام ہوئی ، قصر نبوت کی تکمیل ہوئی اور نبوت ورسالت کا مبارک سلسلہ اختتام کو پہنچا وہیں آپ ﷺ کی بعثت سے تقریبا ً چھ صدی سے تاریکی میں ڈوبی ہوئی دنیا جگمگا اُٹھی، چہار جانب اُجالا پھیل گیا، ہر سمت رحمت کی ہوائیں چلنے لگیں اور دم توڑ تی ہوئی و پژ مردہ انسانیت کو حیات نو حاصل ہوئی،آپ ﷺ کی تشریف آوری پوری انسانیت کے لئے راحت جاں اور آبِ رحمت سے کم نہ تھی ، یہ وہ دور تھا جب انسانیت کے سچے رہنما سے دنیا تقریباً خالی ہوچکی تھی ، شیطان ہر جگہ اپنے کارندوں کے ساتھ ڈیرے ڈال چکا تھا، من مانی اور نفسانیت کے انسان غلام بن چکے تھے، ان کے جسم زہر آلود ہوچکے تھے،ان کے دماغ ماؤف ہوچکے تھے اور ان کے دل مردہ ہوچکے تھے جس کے نتیجے میں وہ بھلے اور بُرے کی تمیز کھوچکے تھے،انسان وحیوان کے فرق کو سمجھنے سے قاصر تھے،حق وناحق ،ظلم وعدل اور خیر وشر کے فرق سے یکسر نابلد ہوچکے تھے ،وہ روز بروز ظلمت وسیاہی کی طرف بڑھتے ہی جارہے تھے اور قریب تھا کہ وہ اس میں گر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نامراد ہوجاتے ،تب ہی اللہ کو ان پر رحم آیا اور اس نے رحمت عالم ﷺ کو بھیج کر ان پر رحم فرمایا ،آپ ﷺ کے آتے ہی ظلمتیں کافور ہوئیں ،ہر سمت اُجالا ہو گیا ، معبودان باطل منہ کے بل گرپڑے، توحید کا عَلم بلند ہوا، کفر وشرک کا تلسمی ٹوٹ گیا ،توحید ورسالت جلوہ گر ہوا،ظلم وستم کے بادل چھٹ گئے ، عدل وانصاف کی رم جھم بارش برسنے لگی اور انسانیت نے چین وسکون کی سانس لی،نبی ٔ رحمتﷺ نے انسانوں اور جنوں کو خدائی احکامات وہدایات سے روشناس کرایا اور اپنی رحمت بھری بے مثال وبے نظیر تعلیمات سے انہیں جینے کا سلیقہ وطریقہ سکھلایا اور پوری انسانیت کو امن و امان ،اطمینان و سکون کا وہ پیغام دیا جس کی صدیوں سے وہ متلاشی تھے ،نبی ٔ رحمتﷺ نے اپنی رحمتوں بھری تعلیمات اور مشفقانہ برتاؤ سے پوری انسانیت کا دل موہ لیا ،انسانیت کا احترم سکھایا اور بتایا کہ تم سب ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو ،تمہارے درمیان سب سے پہلا رشتہ انسانیت کا رشتہ ہے ،اسی رشتے سے بعد کے سارے رشتے وجود میں آئے ہیں ، انسانوں کے درمیان ایک دوسرے کا احترام اسی رشتے کی وجہ سے ہے ، رشتہ ٔ انسانیت کو پامال کر نے والے کبھی بھی دنیا کو گہوارہ ٔ امن بنانہیں سکتے ،پھر ماں باپ کا رشتہ عظیم رشتہ ہے ،اسی سے انسان دنیا میں آتا ہے اور اس کی بے شمار چیزوں سے محظوظ ہوتا ہے ، نبی ٔ رحمت ﷺ انسانوں کو ماں باپ کا مقام ومرتبہ بتلاکر ان کی خدمت کو عبادت اور دخول جنت کا سبب بتایا ،رشتہ دار وں کے ساتھ صلہ رحمی کی تعلیم دی،اہل تعلق اور پڑوس سے اچھے برتاؤ کی تلقین کی،غریب ومسکین ،بیوہ ویتیم کی مدد ونصرت کو عظیم الشان خدمت قرار دے کر ان کی دستگیری کو دونوں جہاں کی فوز وفلاح کا ذریعہ قرار دیا ،لڑکیوں کی پرورش پر جنت کی بشارت دی ،انہیں انسانی زندگی کا نگینہ قرار دیا اور ان سے محبت وشفقت کرنے والے کو جنت میں اپنے پڑوسی ہونے کی خوشخبری سنائی ، نبی ٔ رحمت ﷺ نے نہ صرف انسانوں کے ساتھ مشفقانہ اور ہمدردانہ انداز سے پیش آنے کی ترغیب دی بلکہ حیوانات وجاندار کو تکلیف دینے اور نباتات کو بے ضرورت کاٹنے اور ضائع کرنے سے بھی منع فرمایا، نبی ٔ رحمت ﷺنے اپنی تعلیمات کے ذریعہ سسکتی ، بلکتی اور ظلم وجور کے سمندر میں ڈوبتی ہوئی انسانیت کو رحمت کے ساحل اور عافیت کے کنارے پر پہنچادیا ، چنانچہ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کی نہایت بلیغ اور جامع تقریر اس کا بین ثبوت ہے جو انہوں نے شاہ حبشہ ’’ اصحمہ نجاشیؓ‘‘ کے دربار میں کی تھی ، اسلام کے ابتدائی زمانہ میں مشرکین مکہ کی ایذ ا رسانیوں سے تنگ آکر بعض مسلمان نبی رحمت ﷺ سے اجازت لے کر حبشہ ہجرت کر گئے ،مشرکین مکہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے ایک وفد حبشہ بھیجا تاکہ انہیں واپس لایا جاسکے ، مشرکین کا وفد نجاشی کے دربار میں پہنچ کر اول تحائف پیش کیا ،پھر مسلمانوں کے خلاف بادشاہ کو خوب بھڑ کایا ،تحقیق حال کے لئے جب بادشاہ نے مسلمانوں کو بلایا تواس موقع پر حضرت جعفرؓ نے شاہ حبشہ کے سامنے جن الفاظ میں تقریر دل پذیر کی اس کا کچھ حصہ یہ تھا ’’اے بادشاہ! ہم سب جاہل اور نادان تھے،بتوں کو پوجتے اور مردار کھاتے تھے ،قسم قسم کی بے حیائیوں میں مبتلا تھے،رشتے ناتوں کو توڑا کرتے اور پڑوسیوں کے ساتھ بد سلوکی کرتے تھے،ہم میں کا طاقتور کمزوروں پر ظلم کرتا تھا،اسی حالت سے ہم دوچار تھے کہ اللہ نے ہم پر رحم فرمایا اور ہم ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا ،جس کے حسب ونسب اور صدق وامانت اور عفت و پاکدامنی سے ہم خوف واقف ہیں ،اس نے ہم کو ایک اللہ کی طرف بلایا ،اسی کی پرستش کا حکم دیا اور سچائی ،امانت داری اور صلہ ر حمی کی تعلیم دی،پڑوسیوں سے حسن سلوک کرنے،لڑائی جھگڑے سے بچنے،حرام کھانے سے ،یتیموں کا مال کھانے،پاک دامن پر تہمت لگانے اور تمام بے حیائی کے کاموں سے بچنے کا حکم دیا اور یہ حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں ،کسی کو اس کا شریک نہ کریں ،نماز پڑھیں ،زکوٰۃ دیں،روزہ رکھیں اور اپنا جان ومال راہ خدا میں لگا نے سے گریز نہ کریں(سیرت المصطفیٰ ؐ،۱ـ- ۲۵۰) ۔
نبی ٔ رحمت ﷺ کے رحمت کی کوئی سر حد نہیں ،آپﷺ کی رحمت کسی ملک و علاقہ ،قوم وزبان اور رنگ ونسل تک محدود نہیں بلکہ رحمت عالم ﷺکی رحمت پورے عالم پر سایہ فگن ہے ، اس میں عربی وعجمی ،شمالی وجنوبی ،اپنے وبیگانے ،مالدار وغریب او ر بیوہ وبے سہارے سبھی شامل ہیں،نبی ٔ رحمت ﷺ نے انسانی حقوق اور احترام انسانیت کی طرف جس انداز میںتوجہ دلائی وہ تمام انسانوں کیلئے آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے ،ارشاد فرمایا :’’ اے لوگو! تم سب کا پروردگار ایک ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہی ہے ،خبر دار ! کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہے اور نہ کالے رنگ والے کو گورے رنگ والے پر اور نہ سرخ رنگ والے کو کسی کالے رنگ والے پر فوقیت حاصل ہے ،سوائے تقویٰ اور پرہیزگاری کے‘‘ ( مسند احمد:۲۴۲۰۴) ، نبی ٔ رحمت ﷺ نے صنف نازک کو بلند وبالا مقام عطا کیا ،انہیں وہ مرتبہ عطا کیا جن کی وہ مستحق تھیں ، آپؐ نے عورتوں کوجو عزت وعظمت سے نوازا تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ، آپﷺ کی آمد سے پہلے صنف نازک کا بدترین استحصال کیا جاتا تھا ،ان کے حقوق پامال کئے جا چکے تھے، باندی بناکر ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا، اپنی تسکین کی خاطر انہیں شمع محفل بنا یا جاتا تھا ،بعض بد بخت ان کی پیدائش کو منحوس تصور کرکے پیدا ہوتے ہی انہیں زندہ درگور کردیتے تھے،غرض یہ کہ عورتوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا جاتا تھا ،ایسے ناگفتہ بہ حالات میںآپ ﷺ تشریف لاتے ہی عورتوں کو وہ مقام دلایا جس کا صدیوں سے انہیں انتظار تھا،آپ ﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ فرمایا کہ عورت ہر روپ میں قابل تعظیم اور لائق احترام ہے، اس کی خدمت اور عمدہ برتاؤ باعث اجر وثواب ہے، عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت ہے ،اگر عورت بیوی ہے تو اس پر خرچ بہترین صدقہ ہے، اگر وہ بہن یابیٹی ہے تو ان کی دیکھ بھال ،عمدہ تربیت اور شادی کرکے ان کے گھر بسانا دخول جنت کا ذریعہ ہے ، نبی ٔ رحمت ﷺ کی رحمت سب پر عام تھی ،وہ دشمنوں کے ساتھ بھی اپنوں جیسا سلوک کرتے تھے ،وہ کسی سے کیا دشمنی رکھتے جو خود رحمت بن کر آئے ہوں، وہ بندوں کو خدا سے جوڑنے کے لئے آئے تھے ،ان کا نعرہ بس ’’اللہ کو ایک مانو اور کامیابی کو پالو‘‘ تھا،وہ سراپا رحمت تھے ، معاف کرکے خوش ہوتے تھے ،انہوں نے جنگ وجدال کے موقع پر بھی انسانیت کو ملحوظ رکھا اور اپنے ماننے والوں کو بھی اسی کی تعلیم دی ،چنانچہ اسی تعلیم وتربیت کا نتیجہ تھا کہ خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے ایک لشکر کو روانہ کرتے وقت اس کے کمانڈر کو ہدایتیں دیتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ :کسی بچہ کو قتل نہ کرنا،کسی عورت پر ہاتھ نہ اُٹھانا،کسی ضعیف کو نہ مارنا،کوئی پھل دار درخت نہ کاٹنا،کسی بکری وغیرہ کو خواہ مخواہ ذبح نہ کرنا،کسی باغ کو نہ جلانا،کسی باغ کو پانی چھوڑ کر تباہ نہ کرنا،بزدلی نہ دکھانا،اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا(مصنف ابن ابی شیبہ) ،نبی ٔ رحمت ﷺ نے غربت وافلاس کے ماروں اور بے کسوں وبے بسوں پر ہمیشہ دست شفقت رکھا اور ان کی دستگیری فرماتے رہے ،نبوت سے قبل اور نبوت کے بعد بھی آپ ﷺ نے اس کو اپنے مشن کا ایک حصہ بنائے رکھا ،آپ ﷺ کے در سے کوئی سائل خالی نہ جاتا تھا،کوئی سوالی محروم نہ ہوتا تھا اور کوئی بھوکا خالی پیٹ نہ جاتا تھا، نبی ٔ رحمت ﷺ خود بھوکے رہتے لیکن کسی کو بھوکا نہ دیکھ سکتے تھے ،مصیبت زدہ کو دیکھ کر آنکھیں بھر آتی تھیں ،مظلوم کی مدد کے لئے فوراً پہنچ جایا کرتے تھے،آپ ﷺ بے یار ومددگار پر اپنی رحمت کی چادر ڈالدیتے تھے ،دن ورات صبح وشام بس ایک ہی فکر تھی کہ گم کردہ انسانیت کسی طرح راہ راست پر آجائے ،جس طرح یہ سب ایک ماں باپ کی اولاد ہیں اسی طرح یہ ایک ہی خالق کی مخلوق ہیں ،سب کا رب رحمن ورحیم ہی ہے ،وہی رزاق وفتاح اور وہی مالک الملک ہے ،اس کی چادرِ رحمت یعنی ایمان میں آجانا سب سے بڑی کامیابی ہے ، نبی ٔ رحمت کی اپنی امت کے ساتھ یہ رحمت و عنایت اورمحبت و شفقت ہی تھی کہ ماں باپ سے زیادہ فکر مند رہتے تھے، صبح سے شام تک انہیں راہ راست پر لانے کی جستجو میں رہتے اور رات سے صبح صادق تک ان کی بلندیوں کی دعائیں کرتے ،جنہوں نے انہیں وطن سے نکالا انہیں وطن میں پناہ دی،جنہوں نے پتھر برسائے ان پر رحمت نچھاور کی،جو مقابلہ پر آئے انہیں گلے سے لگایا اور جو ذلیل کرنا چاہا اسے عزتوں سے نوازا ،اور پوری دنیا کو اپنی رحمت بھری تعلیمات اور عملی سیرت سے یہی پیغام دیا کہ میں رحمت بن کر آیا ہوں زحمت نہیں ،محبت کا پیام لایا ہوں ،نفرت نہیں ،دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے آیا ہوں نفرت کا اکھاڑا نہیںاور پوری انسانیت کے لئے دائمی راحت کا سامان لے کر آیا ہوں وقتی وعارضی نہیں، آج دنیا کو اسی تعلیم کی ضرورت ہے اور اسی منور و معطر سیرت کے آئینہ میں انہیں اپنی صورت درست کرنے کی ضرورت ہے ،دور حاضر میں تو تڑپتی ،سسکتی اور امن وامان کی متلاشی انسانیت کو پیام رحمت کی اشد ضرورت ہے ، اس کے بغیر انسانیت کے سکون کا تصور محال ہے، آج دنیا مادی ترقیات کے باوجود تباہی وبربادی کے دہانے پرکھڑی ہے ،اگر نبی ٔ رحمتﷺ کا رحمت والا پیام نہ پہنچا تو تباہی سے بچنا ان کے لئے نا ممکن ہوجائے گا ، ہم غلامان نبی ٔ رحمت ﷺ کی ذمہ داری ہے کہ خود بھی اسی سیرت کے سانچے میں اپنی زندگی کو ڈھالیں اور تعلیمات نبوی کے مطابق خود بھی زندگی گزاریں اور رحمت والی تعلیمات دوسروں تک بھی پہنچائیں اور انہیں بتائیں کہ نبی ٔ رحمت ﷺ کی سیرت کس قدر عظیم ہے اور اس سے وابستہ ہوجانا انسانیت کے لئے کس درجہ ضروری ہے ؎
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا ٭مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا٭ وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

٭٭٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×
Testing