سیرت و تاریخ

سلام اس پر کرم فرما ہوا جو بے زبانوں پر

وجہِ تسکین وقرار ،صاحبِ عزّ ووقار ،دونوں عالم کی بہار  حضرت نبیِّ مختار ﷺ کی ذاتِ گرامی جہاں پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے ،وہیں پوری کائنات کے لیے سرمايۂ رحمت ہے،
آپ کی رحمت تمام زمان ومکان کوشامل ہے،یہ رحمت صرف مسلمانوں کےلیے نہیں،کافروں کےلیےبھی ہے، صرف اپنوں کے لیے نہیں،دشمنوں کے لیے بھی ہے،صرف مردوں کےلیے  نہیں ،عورتوں کے لیے بھی ہے۔صرف مالکوں کے لیے نہیں،خادموں کے لیے بھی ہے،صرف انسانوں کے لیے نہیں، جانورں کے لیے بھی ہے۔جی ہاں!وہ جانور جوبے زبان ہیں ،بول نہیں سکتے،اپنے حقوق کامطالبہ نہیں کرسکتے، مظالم کے خلاف آواز نہیں اُٹھاسکتے،جن پرعرب مدتوں سے مختلف طریقوں سے ظلم ڈھاتےآرہےتھے،جہاں وہ جانوروں کو بے مقصد ماردیتے، وہیں وہ انہیں تیراندازی کانشانہ بناتے،جہاں وہ زندہ جانورں کا گوشت کاٹ کر کھاتے،وہیں وہ ان کے چہروں کوداغ دیتے ،جہاں وہ جانوروں کوآپس میں لڑاکر تماشہ دیکھتے،وہیں وہ اُن سے جنسی خواہش کی تکمیل کرتے۔غرض ظلم وستم کی ایک سیاہ تاریخ تھی ،جو جریدۂ عالم پر رقم کی جارہی تھی ،جبروتشدد کاکوہِ ہمالہ تھا،جوان پر توڑا جارہا تھا ،اوریہ دردرسیدہ حیوانِ بے زبان سسک رہے تھے،بِلک رہے تھے،تڑپ رہے تھے،نہ کوئی پُرسانِ حال تھا،اورنہ اشک سوئی کرنے والا،نہ کوئی غم خوارتھا،اورنہ دلاسا دینے والا ،اسی دوران غم کے بادل میں امیدکی کرن جلوہ فروش ہوئی، کوہِ فاران سے اسلام کادرخشاں  ستارہ طلوع ہوا،پھر ان کے لیے ایک حسین دور کاآغاز ہوا،ظلم وتشدد کاسلسلہ بندہوا،  عزت ملی ،پیار ملا،حقوق دیے گئے۔ صرف یہی نہیں کہ قرآن کریم کی تقریبا 200 آیتوں میں جانوروں کاتذکرہ کیاگیا ؛ بلکہ کئی سورتوں کے نام ان کے نام پررکھے گئے، کہیں سورة البقرہ ہے،توکہیں سورة الأنعام۔کہیں  سورة النحل ہے، تو کہیں سورة النمل۔کہیں سورة العنکبوت ہے، تو کہیں سورة الفيل۔بلکہ ان جانوروں کا اور ان کے منافع کاتذکرہ مقامِ احسان میں کیا گیا:فرمایاگیاکہ:”یہ چوپائے
اللہﷻنے ہی پیدا کیے جن میں  تمہارے لیے سردی سے بچاؤ کا سامان ہے، اوراس کےعلاوہ بھی بہت سے فائدےہیں،اورانہی میں  سے تم کھاتے بھی ہو۔اور جب تم انہیں شا م کے وقت گھر واپس لاتے ہو، اور جب انہیں صبح کو چرانے لے جاتے ہو تو ان میں  تمہارے لیے ایک خوشنما منظر بھی ہے۔اور یہ تمہارے بوجھ لادکر ایسے شہر تک لے جاتےہیں ،جہاں تم جان جوکھوں میں ڈالے بغیرنہیں پہنچ سکتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ تمہارا پروردگار بہت شفیق، بڑا مہربان ہے”۔(النحل:6۔7)
خودنبی رحمتﷺ  نے بھی ان بے زبان جانوروں کے سروں پر شفقت کاہاتھ رکھاہے،ان کے حقوق کی نشاندہی فرمائی ہے،ان پر ہونے والے مظالم پرقدغن لگایاہے، اس سلسلے میں احادیث میں آپ کی تعلیمات کثرت سے وارد ہیں،جنہیں پڑھ کرجہاں آپ کی بے پناہ رحمت کااندازہ ہوتاہے،وہیں ایک قاری کےدل میں محبت ورحم دلی کی شمع روشن ہوتی ہے،اور قساوت وسخت دلی کی آگ ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ مگرافسوس صدافسوس!آج معاشرے نے  رحمتِ دوعالم ﷺکی رحمت والی تعلیمات سے آنکھیں مُوند لی ہیں،جس کا نتیجہ  ہے کہ یہ بے زبان جانور معاشرے کے مختلف ظلم وستم کانشانہ بن رہے ہیں،جن کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔اگر اس سلسلے میں معاشرے کی بے راہ رویوں کاجائزہ لیا جائے،تو ان کی داستان طویل بھی ہے، اوردرد آلودبھی !!فکرانگیزبھی ہے اور سبق آموز بھی!!ہرایک پر تفصیلی گفتگو کا یہ موقع نہیں،تاہم ان میں سے چند ایک کی نشاندہی ضروری ہے،تاکہ جانوروں کے حقوق دبانے والے اپنے اندر احساسِ ندامت اورخوفِ خدا پیداکریں،خوابِ غفلت سے جاگ جائیں ،اور اسلامی ہدایات کی پیروی کو اپنےلیےحرزِجاں بنائیں۔
*کھانے پینے کاخیال نہ رکھنا*
 بعض لوگ جانور پال لیتے ہیں ،مگر ان کی خوراک کاخیال نہیں رکھتے،خود بھوک لگے،توتڑپ اُٹھیں،پیاس لگے،توبے چین ہوجائیں،مگران بےزبان جانوروں کو وقت پرچارہ پانی دینے کا اہتمام نہیں کرتے،یہ جانوروں  کے ساتھ سراسرظلم ہے۔نبیِّ رحمت ﷺ نے اِن سسسکتےبلکتے،بھوکے پیاسے جانورں کوبے یاروومدگارنہیں چھوڑا،بلکہ ان پراپنی رحمت کے پھول برسائے، جہاں ان کے کھانے پینے کےخیال رکھنے کاحکم دیا،اس پر ثواب کی بشارت سنائی،اوراسےدخولِ جنت کاسبب بتایا۔وہیں آپ نےانہیں بھوکا پیاسارکھنے سے منع فرمایا،اس پروعید سنائی،اوراسےدخولِ جہنم کاذریعہ بتایا۔چناں چہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ کاگذرایک اونٹ کے پاس سے ہوا،جس کاپیٹ بھوک کی وجہ سے کمرسے لگ گیاتھا،توآپ نے فرمایا:لوگو! جانوروں کے سلسلے میں اللہﷻ کاخوف کرو۔تم ان پر اس حال میں سوارہوکہ وہ شکم سیرہوں اور جب تم انہیں چھوڑو تواس وقت بھی انہیں کھلاپلادو۔(ابوداؤد:2550)
آپﷺ نے فرمایاکہ:ایک فاحشہ عورت پیاسے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے جنت میں گئی ۔(مسلم‌:حدیث:5995)جب کہ ایک نیک خاتون بلی پرظلم کرنے کی وجہ سے جہنم میں گئی،جسے اُس نے باندھ رکھا تھا، اُسے نہ تو خود کھلایا اور نہ ہی اُسےچھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے ہی کھا لیتی، حتیٰ کہ وہ کمزوری سے مر گئی۔(بخاری:6009)اورصرف یہی نہیں کہ آپ ﷺ نے جانوروں کے کھانے پینے کے خیال رکھنے کی تاکید کی ،بلکہ جانورں کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کاعالم یہ تھاکہ آپ جانوروں کی پیاس کاخیال رکھتے اور دورانِ وضو بلّی کو پانی پلاتے اور پھراسی بچے ہوئے پانی سے وضوکرلیتے۔
(شرح معاني الآثار:11/1)نبی رحمتﷺ نے گھر میں آنے جانے والے جانوروں کے جھوٹے کوناپاک قرار نہیں دیاہے،تاکہ گھروالوں کو دشواری نہ ہو۔
(شرح معاني الآثار:11/1)آپ ﷺ کی اس شقفقت ورحمت  کوجانور بھی خوب محسوس کرتے،آپ کو اپنا غم خوار سمجھتے،اپنا ہمدردجانتے،اسی لیےبعض اوقات آپ سے اپنادُکھڑاسناتے ،مالک کے ظالمانہ رویہ کی شکایت کرتے۔ایک مرتبہ رحمة للعالمینﷺ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے ،وہاں ایک اونٹ دیکھا،رحمتِ دوعالم ﷺ کو دیکھ کر وہ اونٹ سسکنے لگا،اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں،آپ اس اونٹ کے پاس تشریف لے گئے،اس کی کوہان اورگردن سہلائی،اس نے رونابند کردیا،آپ نے دریافت کیا:اس کامالک کون ہے؟ایک نوجوان انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے حاضرِ خدمت ہوکر عرض کیا:یہ میرااونٹ ہے،آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تمہیں جانوروں کے سلسلے میں اللہﷻ کاخوف نہیں،جس نے تمہیں اس کا مالک بنایا ہے،یہ اونٹ تمہاری شکایت کررہاہے کہ تم اسے بھوکارکھتے ہواور مسلسل کام میں لگائے رہتے ہو۔(ابوداؤد:2551)
  *بچوں کوماں سے دور کرنا*
"ماں” اپنے بچوں کے لیے محبت کا درخشاں شاہ کار ہوتی ہے،الفت کاروشن مینارہوتی ہے، اس کی ممتا میں بے پناہ چاشنی ہوتی ہے،اس کی قربانی میں بے غرض خلوص ہوتاہے۔
 دنیا کی ہرطاقت اس کے سامنے ہیچ ہے ،کائنات کی ہراُلفت اس کے آگے بے قیمت ہے۔ وہ اللہﷻکی طرف سے ایک عظیم تحفہ ہے ؛ جس کا کوئی بدل نہیں،اس کے بغیر یہ دنیا اور دنیا کی رنگینیاں کچھ بھی نہیں،اسی لیے اسلام نے جہاں انسانوں کو اپنی ماں کی عزت کاحکم دیاہے،اس کی خدمت کی تلقین کی ہے ،وہیں اس نے یہ بھی کہا ہے کہ جانوروں اور پرندوں کی مائیں بھی آخر مائیں ہوتی ہیں،ان کابھی اپنے بچوں کے ساتھ محبت کا رشتہ ہوتاہے،اس لیے ان کے اس نازک محبت کاخیال رکھاجائے،ان کے آبگینۂ محبت کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے،صرف تفریح کے لیےان کے بچے قیدنہ کیے جائیں،ان کے درمیان فُرقت کی دیوار نہ کھڑی کی جائے ،تاکہ نہ بچے اپنی ماؤں کے بغیربے چین ہوں، اورنہ ہی ماں اپنے بچوں کے لیے بے قرار۔
ایک مرتبہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،ان کے ہاتھوں میں چادر میں چھپے ہوئے کسی پرندے کے بچے تھے،آپ ﷺ نے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ایک جھاڑی سے آواز آرہی تھی،میں نے جاکر دیکھا،تووہاں یہ بچے تھے،میں نے ان کو اٹھا لیا،پرندے یعنی جب ان کی ماں نے دیکھا تووہ سرپر منڈلانے لگی،آپ ﷺ نے فرمایا:جاؤ ،بچے کو اسی جگہ رکھ دو۔( ابوداؤد: 3089) ایک سفر میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک چڑیا کے دوبچے پکڑ لائے،چڑیافرطِ محبت میں ان کے گرد منڈلانے لگی،نبی کریمﷺقضاۓ حاجت کے لیے تشریف لے گئے تھے،جب آئے ،توفرمایا:اس کے بچوں کو پکڑ کرکس نے اسے پریشان کررکھاہے،اس کے بچوں کو چھوڑدو۔( ابوداود: 2675 )
ان روایات سے معلوم ہواکہ  محض تفریح  کے لیے جانوروں اور پرندوں کوقید کرنا جائز نہیں ہے۔ہاں!طوطا یا اسی طرح دیگر پرندوں کو پالناشرعاًجائز ہے بشرطیکہ ان کےدیکھ بھال کا بندوبست کیاجائے،خوراک وغیرہ کا انتظام رکھاجائے، بیمار ہونے کی صورت میں علاج معالجہ کی فکر کی جائے،خودپرندوں کو یاان سے گردوپیش دیگر افراد کو کسی قسم کی اذیت نہ ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی سے پرندہ پالنا ثابت ہے، بعد ازاں وہ مرگیا تو وہ افسردہ رہتے تھے، بنا بریں آں حضرت نبی کریم ﷺ ان سے اس حوالے سے دل لگی بھی فرماتے تھے۔(فتوی نمبر:144008201329دارالافتاء،بنوری ٹاؤن)
*پرندوں کے انڈوں کولے لینا*
پرندوں کو جس طرح اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے،اسی طرح اسے اپنے انڈوں سے بھی محبت ہوتی ہے،بعض لوگ تفریح طبع کے لیے ان کے انڈے لے لیتے ہیں ،اور انہیں ضائع کردیتے ہیں،  حالاں کہ جس طرح پرندوں کوبچوں کے تئیں صدمہ پہنچا نے سے منع کیاگیاہے،اسی طرح انڈوں کے سلسلے میں تکلیف دینے سے منع کیا گیا ہے۔
چناں چہ ایک مرتبہ آپ ﷺ کسی سفرمیں جارہے تھے،لوگوں نے ایک جگہ پڑاؤ کیا،وہاں ایک پرندے نے انڈادے رکھا تھا،ایک شخص نے وہ انڈا اٹھالیا،چڑیا بے قرار ہوکر آپ ﷺ اور صحابہ کے سروں پر منڈلا نے لگی،آپ نے دریافت کیا:کس نے اس کا انڈا چھین کر اس کو تکلیف پہنچائی ہے،ایک شخص نے کہا: یارسول اللہ مجھ سے یہ یہ غلطی سرزد ہوئی ہے،آپ  ﷺ نے فرمایا:اسے وہیں رکھ دو اور اس پر رحم کرو۔(مسندأحمد:320/5)
*بچوں کے لیے دودھ نہ چھوڑنا*
کچھ لوگوں کی طبیعتوں میں بُخل بھی ہوتاہے،اورحرص بھی ،اسی لیے وہ جہاں دودھ میں پانی ملاکر بیچتے اور اپنے سر گناہ لادتے ہیں ،وہیں جانور کادودھ قطرہ قطرہ دُوہ لیتے ہیں،اور ان کے بچوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑتے ہیں،یہ ان بے زبان بچوں کےساتھ ایک قسم کی زیادتی ہے،نبی کریم ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم  ﷺایک شخص کے پاس سے گزرے جو بھیڑ کا دودھ دُوہ  رہا تھا۔ آپﷺ نے اُس سے فرمایا:اے فلاں! جب تم دودھ نکالو تو اِس کے بچے کے لیے بھی چھوڑ دو یہ جانوروں کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ہے۔
( المعجم الأوسط، 1 /271، الرقم: 885)
*جانوروں کو بُر ابھلاکہنا*
اسلام کی جہاں یہ تعلیم ہے کہ  کسی انسان کو بلاوجہ بُرابھلانہ کہاجائے ،اس پر لعن طعن نہ کیاجائے،اس کو بددعاء نہ دی جائے،اسی طرح اس کی تعلیم یہ بھی ہے کہ جانوروں کو بُرابھلانہ کہاجائے،اس پر لعنت نہ بھیجی جائے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرمﷺ  کے ساتھ بُوَاط کی جنگ میں گئے، آپ ﷺ مَجْدِی بن عمرو جُہَنِی کو ڈھونڈ رہے تھے، ایک اونٹ پر ہم پانچ، چھ اور سات آدمی باری باری بیٹھتے تھے، ایک انصاری اُونٹ پر بیٹھنے لگا، اُس نے اُونٹ کو بٹھایا، پھر اُس پر سوار ہوا، پھر اُس کو چلانے لگا، اُونٹ نے اس کے ساتھ کچھ شوخی کی، اُس نے اونٹ سے کہا: چل،اللہﷻ تجھ پر لعنت کرے۔ حضور نبی اکرمﷺ نے پوچھا: اپنے اونٹ کو لعنت کرنے والا یہ کون شخص ہے؟ اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میں ہوں، آپﷺ  نے فرمایا: اِس اونٹ سے اُتر جاؤ، ہمارےساتھ کسی ملعون جانور کو نہ رکھو، اپنے آپ کو بددعا نہ دو، نہ اپنی اولاد کو بددعا دو، اور نہ اپنے اموال کو بددعا دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وہ ساعت ہو جس میں اللہﷻ سے کسی عطا کا سوال کیا جائے، اور وہ دعا قبول ہو جائے۔‘‘
(مسلم:3009)ایک دوسری روایت میں ہے:آپ ﷺنے فرمایا کہ :مرغ کو برابھلانہ کہو،کیوں کہ وہ نماز کے لیے بیدار کرتاہے۔
(ابوداؤد:5101)
*جانوروں کو بلاضرورت مشقت میں ڈالنا*
جانوروں پرزیادتی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ان بے زبانوں پرضرورت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جائے،ان کی بیماری کاخیال نہ رکھا جائے، اوران کا استحصال کیاجائے، ،نبی ﷺنے اس سے منع فرمایا ہے۔سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جانوروں کی پیٹھوں کو منبر بنانے سے بچو بے شک اللہﷻ نے اُنہیں تمہارا اِس لیے مطیع کیا ہے تاکہ وہ تمہیں اُس شہر تک پہنچائیں جہاں تم بغیر شدید مشقت کے نہیں پہنچ سکتے تھے اور تمہارے لیے زمین بنائی ہے تاکہ تم اپنی ضرورتیں اِس سے پوری کرو۔‘‘
(ابوداؤد:25567)
ایک دوسری روایت میں ہے:
حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی کریمﷺ نے فرمایا: جانوروں پر تب سوار ہو جب وہ صحت مند ہوں، اور اُنہیں اپنی کرسیاں نہ بنا لو (کہ جب جی چاہا اُن پر بیٹھ گئے)۔
(مسند احمد:234)
*سلام اس پر جو دنیا کے لیے رحمت ہی رحمت ہے*
*سلام اس پر کہ جس کی ذات فخرِ آدمیت ہے*۔
   *جانوروں کو بے مقصد مارڈالنا*
شریعتِ اسلام میں جانوروں کاایک حق یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انہیں کھانے کے لیے یاکسی اور نیک مقصد سے ذبح کیاجائے ،انہیں  بلاضرورت مارکر نہ پھینکاجائے،ایک روایت میں نبیِ رحمت  ﷺ نے ارشاد فرمایا
:جو کسی چھوٹی یا بڑی چڑیا کو اس کے حق کے بغیر قتل کردے، اللہ ﷻؐاس کے قتل کے بارے میں سوال کرے گا ،لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! چڑیا کا حق کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:اس کو ذبح کرکے کھایا جائے ،نہ کہ سر کاٹ کر پھینک دیا جائے۔(نسائی:4445)ایک دوسری روایت میں رحمة للعالمین ﷺ کاارشاد ہے:جس نے بلاوجہ کسی چڑیا کو قتل کیا وہ چڑیا کل  قیامت کے دن پروردگار عالم کے سامنےاس کے خلاف استغاثہ کرے گی کہ اے پروردگار! فلاں شخص نے مجھے کسی نفع (کھانا یا شکار) کےلیے نہیں ،بلکہ یوں ہی بے فائدہ مار ڈالا تھا۔(نسائی:4446)
 *جانوروں کونشانہ بنانا*
بعض لوگ صرف طبعی تفریح  اور شیطانی خواہشں کی تکمیل کے لیے جانوروں یا پرندوں کو نشانہ بنا تے ہیں ،نبی کریم ﷺ نے نہ یہ کہ صرف اس سے منع کیاہے ،بلکہ ایسا کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ  نے فرمایا: کسی جاندار کو (تیر اندازی کے لیے) ہدف مت بناؤ۔‘‘
( مسلم: 1957)ایک دوسری روایت میں حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا، آپ کاگزر چند لڑکوں یا آدمیوں کے پاس سے ہوا جو ایک مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کر رہے تھے۔ جب اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو منتشر ہوگئے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نےدریافت فرمایا: یہ کام کس نے کیا ہے؟ یقینًانبی اکرمﷺ نے اُس پر لعنت فرمائی ہے جو ایسا کام کرے۔(بخاری:5196)ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کسی بھی زندہ پرندے یاجانور کوتکلیف پہنچانا اورانہیں تڑپانا جائز نہیں ہے۔
*جانوروں کو لڑانا*
تفریحًاجانوروں کو آپس میں لڑانے کارواج دورِجاہلیت سے چلاآرہا ہے، آج بھی یورپ میں "بُل فائٹنگ "بیلوں کی لڑائی کااہتمام قومی تہوار کےطور پر کیا جاتاہے ،خود ہمارےمسلم سماج میں بھی مرغ بازی،کبوتر بازی بعض لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے،جو جانوروں کے ساتھ سراسر ظلم ہے ،نبی کریمﷺ نے ہر طرح سےجانوروں کو آپس میں لڑانے کی ممانعت فرمائی ہے ،چاہے مرغیوں کو لڑایا جائے یابٹیر کو، چاہے مینڈھے کو لڑایا جائے یا کسی اور جانور کو۔حضرت ابن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللهﷺنےجانوروں کو آپس میں لڑانے سے منع فرمایا ہے۔(ابوداؤد:2562)
 *جانوروں کے چہروں پرمارنا یااُنہیں داغنا*
جانور کو تکلیف دینے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اس کے چہرے پر ماراجائے ،یا اس کے چہرے کو داغ دیا جائے،اسلام میں اس سے سختی سے منع کیاگیا ہے۔  ایک حدیث میں ہے:
نبی اکرم ﷺنے جانور کو چہرے پرمارنے اوراسے داغنے سے منع فرمایا ہے۔(مسلم:2116)بلکہ جانور کاچہرہ داغنے والے پرنبی کریمﷺ نے لعنت فرمائی ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کے پاس سے ایک گدھا گزرا ،جس کے منہ کو داغا گیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: اُس پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اِسے داغا ہے۔( مسلم: 2117)
*جانوروں کومُثلہ بنانا*
نبی اکرم ﷺنےجانوروں کاایک حق یہ بھی بتایا ہے کہ انہیں مثلہ نہ کیا جائے ،یعنی ان کے کچھ عضو کو کاٹ کران کی شکل نہ بگاڑی جائے ،بلکہ آپ نے ایسا کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔حضرت عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ  کاگذرچند لوگوں کے پاس سے ہوا ،جب کہ وہ ایک مینڈھے پر تیر سے نشانہ لگارہے تھے ،آپ نے اسے ناپسند کیا اور فرمایا:جانوروں کو مثلہ نہ کرو۔(بخاری:829)
*آگ سے جلانا*
معاشرے میں ایک یہ چیز بھی عام ہے کہ بعض اوقات لوگ چونٹیوں کے غول یابھڑوں کے چھتوں میں آگ لگادیتے ہیں ،یہ صحیح نہیں ہے،ان کی تکلیف سے بچنے کے لیے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنا چاہیے ،جانور خواہ کتنےہی تکلیف دہ ہوں، انہیں زندہ جلانے سے منع کیا گیاہے، ایک سفرمیں آپ ﷺ نے چونٹیوں کا غول دیکھا ،جن کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جلادیا،آپ کے استفسار کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ہم نے جلایا ہے ،آپﷺ نے ارشاد فرمایا:آگ کے مالک کے سوا کسی دوسرے کو آگ کاعذاب دینا صحیح نہیں ہے۔(ابوداؤد:5105)
اسی لیے اکثر علماء کی رائے یہی ہے کہ بچھو یا کسی بھی مُوذی جانور کوزندہ جلانا درست نہیں ہے۔(جانوروں کے حقوق:26)ایذادینے والے جانور کومارنے کا حکم ہے ،مگر اس میں بھی ایسے طریقے سے مارنے  کو ترجیح دی گئی ہے جس میں کم سے کم تکلیف میں وہ ایذادینے والا جانورختم ہوجائے، مثلاًگرگٹ مارنے کا حکم دیا گیا تو فرمایا گیاکہ ایک ضرب میں ماردینا زیادہ باعثِ فضیلت ہے۔(مسلم:2240)اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ کئی ضرب میں تکلیف زیادہ ہوگی۔جانوروں کو جلانے سے ممانعت سے متعلق حدیث کی وجہ سے ہی اہلِ علم نے یہاں تک لکھا ہے کہ کرنٹ والے بَلّے کو ہلاکر مچھروں کو مارنا مکروہ ہے؛ اِس لیے کہ اِس میں بلا ضرورت جاندار کو آگ سے جلانا لازم آتا ہے، جس کی حدیث میں ممانعت ہے، اور مچھروں کو دفع کرنے کی اِس کے علاوہ اور بھی بہت سی تدبیریں موجود اور مؤثر ہیں، اُنہیں استعمال میں لانا چاہئے، مثلاً: مچھردانی، کچھوا چھاپ، یا اَلاؤٹ وغیرہ؛ البتہ اگر کرنٹ والی مشین کسی جگہ رکھی ہے اور مچھر وہاں جاکر خود بخود مرتے رہیں تو اِس میں حرج معلوم نہیں ہوتا؛ کیوں کہ یہاں جلانا نہیں پایا جارہا ہے؛ بلکہ خود جلنا پایا جارہا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے کہیں آگ جل رہی ہو اور اُس میں پروانے جاکر خود بخود جل جائیں۔(کتاب النوازل450/14)
*جانوروں سے بے ضرورت کھیلنا اورتھکانا*
بعض لوگ جانوروں کے ساتھ بے ضرورت کھیلتے ہیں اوران کو تھکاتھکا کر مارتے ہیں، حدیث شریف میں اس سے بھی منع کیاگیا ہے ،اور اس طرح کی حرکت کرنے والے کو شیطان کہاگیا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کبوتر سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ "شیطان ہے شیطان کے پیچھے پڑا ہے۔(جامع الاصول فی احادیث الرسول:18413) البتہ بچے اگر جانور کے ساتھ محض دل بہلانے کے لیے کھیلیں ،اور اس سے جانور کو کوئی جسمانی یا ذہنی اذیت نہ پہونچے ،تو بعض روایات کی
روشنی میں اس حد تک گنجائش ہے،لیکن اگر تکلیف پہونچے تو بچوں کے لیے بھی اس طرح کا کھیل کھیلنے کی اجازت نہ ہوگی۔
*کُند چھری سے ذبح کرنا*
شریعتِ اسلام میں کچھ جانوروں کوحلال قرارد یا گیا ہے، مسلمان اسے ذبح کرکے کھاسکتےہیں،مگربعض لوگ ذبح کرنے میں جانوروں پر ظلم کرتے ہیں ،ان کی چھری تیز نہیں ہوتی ہے،اور وہ ذبح کرنا شروع کردیتے ہیں ، نبی رحمتﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ جل شانہ نے ہر چیز کے ساتھ حسنِ سلوک کو فرض قرار دیا ہے ،اس لیے کسی جانورکو ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو ،تیز دھاردارچھری سے ذبح کرو ،تاکہ ذبیحہ کی روح نکلنے میں آسانی ہو۔(مسلم:1955)
*جانور کے سامنے چھُری تیز کرنا*
کچھ لوگ اپنی چھری پہلے سے تیز نہیں کرتے ہیں ،اوراسے  جانور کے سامنے تیزکرتے ہیں،اس سے جانور کو ذہنی اذیت ہوتی ہے،نبی اکرم ﷺ نے اس سے بھی منع فرمایا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک آدمی کے پاس سے گذرے ،جو اپنی ٹانگ ایک بکری کے اوپر رکھے چُھری تیزکررہا تھا۔ بکری اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جس پر آپ ﷺ نے فرمایا:کیا اس سے پہلے چھری تیز نہیں کر سکتے تھے؟ کیا تم اسے دو موت مارنا چاہتے ہو ۔(المعجم الاوسط:3590)دوموت مارنے سے مراد یہ ہے کہ تمہارے اس عمل سے جانور کو دوہری تکلیف ہوگی ،ایک چھری دیکھنے کی تکلیف اور دوسرے ذبح ہونے کی تکلیف۔ایک دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے حکم دیا کہ چھریوں کو تیز کیاجائے،تواسے جانوروں سے اوجھل رکھاجائے(مسنداحمد:3135)
*قربان گاہ تک لے جانے میں سختی کرنا*
بعض لوگ جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے لے جاتے وقت سختی کرتے ہیں،نبی اکرم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے،اورجانوروں کو نہایت نرمی  کے ساتھ مقامِ ذبح کی طرف لے جانے کاحکم دیا ہے ،ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ بکری کو زمین پرگھسیٹتا ہوا لے جارہا ہے ،آپ نے اس پر تنبیہ فرمائی،آپ نے بکری کو صبر کی تلقین فرمائی اور قصاب سے کہاکہ: اس کو موت کی طرف نرمی کے ساتھ لے جاؤ ۔(مصنف عبدالرزاق:8609)
مذکورہ بالا تمام تفصیلات کی روشنی میں ہر شخص بہ آسانی اندازہ لگا سکتاہے کہ نبی رحمت ﷺنے کس قدر اپنی رحمت سے ان بے زبان جانوروں کو نوازا ہے، قدم قدم پران کے ساتھ رحم وکرم کاحکم دیا ہے،ان پر ہونے والے مظالم کا سدباب کیا ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم  جانوروں کے ساتھ رحم کامعاملہ کریں،انہیں راحت پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کریں،اور انہیں تکلیف پہنچانے سے  حتی الوسع گریزکریں۔
*دروداس پر جوبن کرراحت قلب حزیں آیا*
*سلام اس پر جوبن کررحمة للعالميں آیا*

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×