سیرت و تاریخ
صحابۂ کرامؓ اور اہل بیت اطہار کا باہمی تعلق (۱)
کچھ مرتبے وہ ہیں جو بنیادی طور پر ’’اکتساب‘‘یعنی جد و جہد اور محنت کے ذریعہ حاصل کئے جاتے ہیں،جیسے ایک شخص محنت کرکے عالم بن سکتا ہے یا سنتوں کی پیروی اور اللہ اور اس کے رسول کی منع کی ہوئی باتوں سے بچ کر ولایت کے مقام کو پہنچ سکتا ہے،بعض مراتب وہ ہیں جو انتخاب اور قرآن مجید کی زبان میں ’’اجتباء‘‘ کے ذر یعہ حاصل ہوتے ہیں، یعنی اللہ اپنے کسی بندے کوا پنے کسی خاص کام کے لئے چن لیتے ہیں، نبوت ایسا ہی درجہ و مقام ہے، ایسا نہیں ہے کہ انسا ن محنت اور تگ و دو کرے، خوب عبادت وریاضت میں مشغول رہے، تو وہ نبی ہو جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو نبوت ختم ہوچکی؛ لیکن آپ سے پہلے جب نبوت جاری تھی، تب بھی اپنی کوشش سے کوئی نبی نہیں بن سکتا تھا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ جس کو منتخب کرتے، وہی نبوت سے سرفراز فرمایا جاتا؛ اسی لئے قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ’’اجتباء‘‘کا لفظ آیا ہے (آل عمران: ۱۷۹) غرض کہ اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو نبوت کے لئے منتخب فرمایا ہے۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے نبوت کے لئے آپ کا انتخاب کیا گیا ہے، اسی طرح آپ کے متعلقین بھی اللہ کی طرف سے منتخب ہیں، یہ اتفاقی طور پر آپ کے اہل بیت میں داخل نہیں ہوگئے یا کوئی خاتون ازواج مطہرات میں شامل نہیں ہوگئیں، یا کسی صحابی کو صحابیت کا شرف حاصل نہیں ہوگیا؛ بلکہ یہ سب من جانب اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت و نصرت، تائید وتقویت اور آپ کے مشن کی تبلیغ واشاعت کے لئے منتخب کئے گئے ہیں؛ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے قلوب میں جھانک کر دیکھا، سب سے بہترین قلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پایا تو آپ کو اپنی نبوت و رسالت کے لئے منتخب فرمالیا، پھر بقیہ لوگوں کے قلوب کو دیکھا تو صحابہ کے دلوں کو سب سے بہتر پایا، لہٰذا ان کو اپنے نبی کا وزیر ومعاون بنایا: فوجد قلوب أصحابہ خیر قلوب العباد فجعلہ وزراء نبیہ الخ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۳۶۰۰) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کا ایک اور قول ہے کہ اگر تم کو کسی کی پیروی کرنی ہے تو صحابہ کی پیروی کرو، جن کے دل بہت پاکیزہ تھے، جن کا علم بہت عمیق تھا اور جن کی زندگی میں کوئی تکلف نہیں تھا، خود اللہ تعالیٰ نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیت کے لئے منتخب فرمایا تھا: اختارہم اللہ لصحبۃ نبیہ (مسند احمد بن حنبل، حدیث نمبر: ۱۲۳۹۸)
صحابہ میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جنہوں نے بحالت ایمان آپ کا دیدار کیا اور پھر ایمان کی حالت میں ہی ان کی وفات ہوئی؛ اس لئے اس میں اہل بیت بھی شامل ہیں، ازواج مطہرات بھی اور دوسرے صحابہ بھی، ان حضرات کی شان وہی تھی جس کو خود قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء کافروں کے معاملے میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رحم دل: وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَهُمْ (الفتح: ۲۹)؛چنانچہ اہل بیت اور صحابہ کے درمیان بہت ہی خوشگوار اور محبت کے تعلقات تھے۔
اہل بیت میں بنیادی حیثیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت دل اور خواتین جنت کی سردار حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کو حاصل تھی؛ کیوںکہ ان ہی کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسلِ مبارک چلی اور پوری دنیا میں پھیلی اورقیامت تک پھیلتی جائے گی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تعریف اور منقبت میں زیادہ روایتیں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے افضل کسی کو نہیں دیکھا، سوائے ان کے والد ماجد یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے: مارأیت قط أحدا أفضل من فاطمۃ غیر أبیہا (المرتضیٰ: ۸۵، بحوالہ طبرانی) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں کہ گفتگو اور بات چیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی اور میں نہیں پائی جاتی تھی (الاستیعاب: ۴؍۳۷۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے ایک اور روایت منقول ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں تو وہ ٹھیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح چل رہی تھیں: کان مشیہا مشی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الاصابۃ: ۴؍۳۷۸)۔
سیدنا حضرت علی ر ضی اللہ عنہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے تعلقات بڑی ہی محبت و مودت اور احترام واکرام پر مبنی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بہ پابندی آپ رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھتے رہے، مشہور مؤرخ علامہ ابن کثیر کے بیان کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد پہلے ہی دوسرے دن آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی؛ البتہ چھ ماہ کے بعد دوبارہ بیعت کی تجدید فرمائی تھی، (البدایہ والنہایۃ: ۵؍۲۴۹) بلکہ بعض راویوں نے نقل کیا ہے کہ ایک صاحب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہی اور عرض کیا کہ یہ کیا ہے کہ خلافت قریش کے سب سے کم تر اور کم تعداد قبیلہ کے حصہ میں چلی گئی؟ اگر آپ چاہیں تو میں گھوڑوں اورفوجیوں سے مدینہ کو بھر دوں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اس کا اہل نہیں سمجھتا تو عہدۂ خلافت ان کے حوالہ نہیں کیا ہوتا (کنز العمال: ۳؍۱۴۱)۔
جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ’’ذو القصہ‘‘ نامی علاقہ کی مہم کے لئے مدینہ سے نکلنا اور محاذ جنگ پر جانا چاہتے تھے، نیز اپنی سواری پر بیٹھ چکے تھے تو اسی وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اونٹنی کی مہار تھام لی اور کہا کہ آپ مدینہ سے باہر جاکر ہم لوگوں کو صدمہ سے دوچار نہ کیجئے کہ اس طرح اسلام کا شیرازہ ہمیشہ کے لئے بکھر جائے گا، ظاہر ہے یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جو مخلص ہو اور محبت کرنے والا ہو، ورنہ جو لوگ بد خواہ ہوتے ہیں، وہ تو ایسے موقع کو غنیمت جانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کو خطرہ کے مقام پر بھیج دیا جائے؛ تاکہ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو راستہ صاف ہوجائے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جوں ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع ملی تو آپ عجلت کے ساتھ روتے ہوئے تشریف لائے اور کہا:’’اے ابو بکر! آپ پر اللہ کی رحمت ہو، خدا کی قسم! آپ سب سے پہلے مسلمان ہوئے، آپ کا ایمان سب سے زیادہ کامل درجہ کا تھا، آپ کا یقین پختہ تھا، آپ اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے، آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ قابل اعتماد اور قابل احترام تھے، اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام کی طرف سے بہترین جزا عطا فرمائے‘‘، یہ کہتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی توصیف میں طویل گفتگو فرمائی۔ (دیکھئے: مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی: المرتضی، ص: ۹۳، عربی نسخہ)
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بھی اہل بیت سے بے حد محبت تھی، ایک بار عصر کی نماز کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نکلے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنے کاندھے پر اٹھالیا اور کہنے لگے کہ حسن رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ہیں علی رضی اللہ عنہ کے مشابہ نہیں ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کو سن کر ہنستے رہے۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
یہی تعاون وتناصر اور محبت وچاہت حضرت عمر اور حضرت علی کے درمیان بھی تھی، ایک بار صدقہ کے جانوروں کے حساب کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ گئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سایہ میں بیٹھ گئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک ایک اونٹ کا رنگ اور اس کے دانت وغیرہ کی تفصیل بولتے جاتے، حضرت علی رضی اللہ عنہ املاء کراتے اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ لکھتے جاتے، سخت گرمی کا موسم تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ دھوپ میں تھے اور یہ دونوں حضرت سایہ میں تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوتے ہوئے قرآن کی آیت پڑھی: إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِين پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ قوی و امین شخص ہیں: ہذا القوي الأمین (الکامل لابن اثیر: ۳؍۵۵) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ کوئی اہم کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے بغیر نہیں کرتے اور جب لوگوں کی رائے میں اختلاف ہوتا تو اکثر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رائے کی طرف آپ کا جھکا ؤ ہوتا۔
جنگ فارس میں ایک مرحلہ ایسا آیا،جب ایرانیوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی، اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ مسلمانوں کی فوج کے ساتھ وہ خود آگے بڑھیں اور محاذ جنگ سے قریب قیام کریں، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بھی یہی رائے ہوئی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور ان سے مشورہ طلب کیا، تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ کسی کو اپنا نائب بنادیں، خود نہ جائیں؛ کیوںکہ اگر آپ پر کوئی افتاد آگئی تو اسلام اورمسلمانوں کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا اور اس کا تدارک نہیں ہوسکے گا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس رائے کی تعریف کی اورفرمایا: یہی رائے قابل عمل ہے: ہذا ہو الرأي (المرتضی، ص: ۱۰۵) اسی طرح شام کے محاذ پر جب حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع بھیجی کہ رومیوں کا ٹھاٹیں مارتا ہوا لشکر چلا آرہا ہے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ سے مشورہ کیا، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود فوج کی کمان سنبھالیں اور محاذ جنگ پر جائیں؛ تاکہ مسلمانوں کا حوصلہ بلند رہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر بھی اس رائے سے اختلاف کیا اور کہا کہ امیر المؤمنین کا خود نکلنا مناسب نہیں؛ کیوںکہ اگر خدا نخواستہ کوئی حادثہ پیش آجائے تو مسلمانوں کے لئے کوئی مرجع وماویٰ باقی نہیں رہے گا، (المرتضیٰ: ۱۰۶ – ۱۰۷) ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کوئی کدورت ہوتی تو وہ اس طرح کا مشورہ نہیں دیتے؛ بلکہ ا س بات کو پسندکرتے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک خطرہ کی جگہ پر جائیں۔
اس کے برخلاف جب فتح بیت المقدس کے موقع سے عیسائیوں نے مطالبہ کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود بیت المقدس آئیں اور اپنے ہاتھ سے صلح نامہ تحریر کریں، اس پس منظر میں حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے وہاں آنے کی درخواست کی، تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مشورہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود نہ جائیں؛تاکہ رومیوں کی ناک نیچی ہو؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ یہ ایک تاریخی شرف کی بات ہے اور اس طرح مسلمانوں کو جنگ سے بچایا جاسکتا ہے؛ اس لئے امیرا لمؤمنین کو سفر کرنا چاہئے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند فرمایا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بناکر تشریف لے گئے اور اس طرح بیت المقدس فتح ہوا۔
دوسری طرف خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دل میں اہل بیت کی بڑی عظمت ومحبت تھی، ایک بار یمن سے کپڑے آئے، جن کو عرب ’’حلہ‘‘کہتے تھے، آپ نے سبھوں کو تقسیم کیا، لوگ نئے نئے لباس پہن کر مسجد نبوی میں آئے، وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملتے اور ان کا شکریہ ادا کرتے، اتنے میں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما مکان سے نکلے، ان کے جسم پر حلہ نہیں تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اداس بیٹھے ہوئے تھے، لوگ اس اداسی کا سبب پوچھنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان دونوں بچوں کو حلہ نہیں مل سکا؛ کیوںکہ یہ حلے ان کے قد سے بڑے تھے، پھر آپ نے یمن کے گورنر کو خط لکھا کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لئے جلد سے جلد دو حلے بھیجے جائیں، جب یہ حلے آئے اور آپ نے انہیں پہنایا، تب جاکر آپ کو اطمینان ہوا۔ (الاصابۃ: ۱؍۱۰۶)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب مالی فراوانی ہوئی تو آپ نے لوگوں کے لئے وظیفہ مقرر کرنا چاہا، اور ترتیب کیا ہو؟اس کے لئے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ امیر المؤمنین آپ اپنے آپ سے شروع کیجئے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، میں اس شخص سے شروع کروںگا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قریبی رشتہ دار ہوگا، ان کے بعد بنو ہاشم کے دوسرے لوگوں کا حصہ مقرر کروںگا؛ چنانچہ سب سے پہلے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اور ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حصہ مقرر کیا، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما حالاںکہ اس وقت بچے تھے؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے ان کا بھی حصہ مقرر فرمایا، (کتاب الخراج لابی یوسف، ص: ۲۴) اور بعض روایات میں ہے کہ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی وجہ سے بدری صحابہ کے برابر ان کا وظیفہ مقرر کیا۔ (المرتضیٰ، ص: ۱۱۰)(جاری)