سیرت و تاریخ

حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی کچھ جھلکیاں !

چھٹی صدی عیسوی میں جب فاران کی چوٹیوں سے نورِ اسلام جلوہ گر ہوا ، اور اس کی شعائیں رفتہ رفتہ جزیرۃ العرب میں پھیلنے لگی ، اور نبی رحمت ﷺ نے عرب کے بدوؤں کو ظلمت کی شبِ تار سے نکال کر نور و ضیاء کے پاکیزہ ماحول میں لا کھڑا کیا ، اور جہل و نادانی کے قعرِ عمیق سے نکال کر علم و روشنی کے بامِ عروج پر پہونچا دیا ، اور جن لوگوں نے آپ ﷺ کی دعوتِ اسلام پر لبیک کہتے ہوئے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ، تو پروردگارِ عالم نے انہیں اپنی رضا کا پروانہ ، جنت کا تمغہ ، اور کامیابی وکامرانی ، اور فوز و فلاح کا مژدہ سنایا ؛  لیکن اس سے قبل انہوں نے وہ ناقابلِ فراموش کارنامے اور قربانیاں سرانجام دی ، جو حیران کن اور تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے  یعنی صوتحال کچھ اس طرح کی تھی کہ جب اسلام قبول کرتے تو ” اپنے ”  پرائے ہو جاتے ، دشمن درپے آذار ہوجاتے ، اہل قبیلہ اور خاندان والے محبت کے بجائے نفرت کے تیر برساتے ، صبح وشام بے رحمی سے دور ناک اور جان گداز ایذاء  پہونچاتے ، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ، رشتہ داریاں اور قرابت داریاں ختم ہوجاتے، فاقوں پر فاقے ہوتے رہتے ،حتی کہ اسلام ترک کرنے پر مجبور کرتے ، اور اس طرح سے حالات دگرگوں ہوجاتے ؛ لیکن ان جانثاروں اور سچے وفاداروں نے صبر وتحمل اور استقامت و ثبات قدمی کا دامن تھامے رکھا اور اسلام پر جمے رہے ، انہی جانثاروں میں ایک سنہرا نام حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا بھی آتا ہے جو والسابقون الاولون میں شامل ہے، ترتیب کے اعتبار سے آپ گیارہویں نمبر پر اسلام قبول کیے ۔
نام ونسب : آپ کا نامِ نامی ، اسم گرامی عبداللہ ، کنیت : ابو سلمہ ( اسی سے آپ مشہور و معروف ہے)
والد ماجد کا نام : عبدالاسد اور دادا کا نام : ہلال بن عبداللہ تھا ، نیز آپ کا شجرۂ نسب  ساتویں پشت میں نبی ﷺ سے جاملتا ہے، آپ نبی ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ﷺکے رضاعی بھائی بھی تھے ، نیز آپ کی زوجہ محترمہ ( حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا )آپ کے انتقال کے بعد نبی ﷺ کی اہلیہ محترمہ اور اس امت کی ماں قرار پائی ، مختصر یہ کہ بہت سی نسبتوں سے آپ نبی کے قرابت دار ہے ۔
ازواج و اولاد : کتبِ تاریخ و اوراقِ سیر میں صرف آپ کے ایک ہی نکاح  کا تذکرہ ملتا ہے ، جوکہ حضرت ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ مخزومیہ سے ہوا، ( ابوسلمہ کے انتقال کے بعد حضور ﷺ سے جن کا نکاح ہوا ) ان کے علاوہ کسی اور سے آپ نے نکاح نہیں کیا ، ان سے آپ کی یہ اولاد ہیں :
(١) سلمہ( ان ہی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ ابوسلمہ اور آپ کے زوجہ ام سلمہ سے معروف ہوئی )
(٢)عمر،
(٣) درہ،
(٤) زينب ۔
ہجرت فی سبیل اللہ : آپ کی ہجرت کی داستان بھی بڑی دردناک اور مشکلات و مصائب سے پر ہے ، یہی وجہ ہے کہ جس کو پڑھنے والا قاری اور سننے والا سامع کوئی بھی رویے بغیر نہیں رہے گا ، اور وہ واقعہ سیرت کی کتابوں میں پورے شرح و بسط اور تفصیل کے ساتھ مذکور ہے، اس پر مستزاد یہ کہ آپ نے بقائے اسلام اور تحفظِ دین کی خاطر دو مرتبہ ہجرت کی ، چنانچہ پہلی مرتبہ حبشہ کی طرف معہ اہلیہ کے ہجرت کی ، دوسرے مرتبہ مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی ، دونوں ہجرتیں پرخطر اور تکالیف و آلام سے معمور تھی ، جس کے مطالعہ کے لئے سیرت وسوانح کی کتب کی جانب رجوع کیا جاسکتا ہے ،
جنگی خدمات اور عسکری کارنامے:
جہاں آپ نے دینِ مصطفوی پر ثابت قدم رہنے کے لئے جان و مال کی اَن گنت قربانیاں دی ہے ، تو وہی جنگی خدمات اور عسکری کارناموں میں بھی شریک ہوکر بہت خدمات کی، چنانچہ اسلامی تاریخ کی سب سے پہلی اور مشہور و معروف جنگ "جنگِ بدر” میں از اول تا آخر شریک رہے، اور بڑی جد و جہد سے خدمات سرانجام دی، نیز غزوۂ احد میں بھی شرکت کی اور اسی جنگ میں آپ زخمی بھی ہوئے ،
پھر ٤ ھ میں نبی ﷺ نے آپ کی سرکردگی و سربراہی میں ایک قافلہ روانہ کیا، جس کا واقعہ کچھ اس طرح مذکور ہے ،
سریہ ابو سلمہ :
یکم محرم ۴ ھ کو ناگہاں ایک شخص نے مدینہ میں یہ خبر پہنچائی کہ طلیحہ بن خویلد اور سلمہ بن خویلد دونوں بھائی کفار کا لشکر جمع کر کے مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے نکل پڑے ہیں ۔ تو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس لشکر کے مقابلہ کے لئے  حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ڈیڑھ سو مجاہدین کے ساتھ روانہ فرمایا جس میں حضرت ابو سبرہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما جیسے معزز مہاجرین و انصار بھی تھے ؛  لیکن کفار کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے تو وہ لوگ بہت سے اونٹ اور بکریاں چھوڑ کر بھاگ گئے جن کو مسلمان مجاہدین نے مال غنیمت بنا لیا اور لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی۔
(زرقانی ج۲ ص۶۲)

آپ کی روایتِ احادیث و اخبار :
نقلِ احادیث اور روایتِ اخبار میں بھی آپ کی خدمات موجود ہے : چنانچہ
صحیح بخاری میں : ‏حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"جس نے کسی کی بالشت بھر زمین بھی دبا لی تو قیامت کے دن دبائی گئی زمین کے برابر سات زمینوں کا طوق اسکے گلے میں پہنایا جائیگا ”
(صحیح بخاری2453 )
ترمذی وغیرہ میں : حضرت ابوسلمہ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے اور ان کی اہلیہ ام سلمہ نے ان سے حدیث روایت کی ہے۔ ان کی واحد روایت ہے جسے ترمذی و ابن ماجہ اورامام احمد نے نقل کیا، وہ یہ ہے: کہ  حضرت ابوسلمہ نے (ایک دن گھر آئے تو) اپنی اہلیہ ام سلمہ سے کہا: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک فرمان سنا ہے جس سے بڑی خوشی ہوئی ۔ارشاد فرمایا: ”جب کسی مسلمان پر کوئی مصیبت ٹوٹے (یعنی اس کا کوئی عزیز دنیا سے چلا جائے) تو اسے چاہیے کہ انا ﷲواناالیہ راجعون کہہ کر یہ دعا مانگے: اے اﷲ، میں تجھ ہی سے اس صدمے پرصبر کرنے کا اجر چاہتا ہوں ، مجھے اجر و ثواب دے اور اس مصیبت کا بہترین بدل عنایت کر۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ  اسے نعم البدل عطا کر دیتا ہے۔پھر جب حضرت ابو سلمہ کا آخری وقت آیا تو انھوں نے دعا مانگی: اے اﷲ، میرے اہلِ خانہ میں مجھ سے بہتر قائم مقام لے آ۔ ان کی وفات کے بعد ام سلمہ نے دعا مانگی: ” انا ﷲواناالیہ راجعون ” ۔
میں اﷲ ہی سے اپنا صدمہ برداشت کرنے کا اجر چاہتی ہوں۔مجھے اس کا ثواب عطا کر ۔ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر میرے دل میں خیال آیا کہ میرے لیے ابوسلمہ سے بہتر کون ہو گا ؟ ہرگز نہیں ،کوئی نہیں ہو سکتا۔” (ترمذی ، رقم ۳۵۱۱۔ابن ماجہ، رقم ۱۵۹۸۔ احمد، رقم ۱۶۳۴۴)۔

وفات حسرت آیات:  جنگِ احد میں ابواسامہ جشمی کے تیر کی نوک سے آپ کے بازو میں گہرا زخم لگا ،انجام کاریہی ان کی شہادت کا سبب بنا .
چنانچہ جمادی الثانی کی ٢٧, تاریخ  ۴ھ کا دن وہ غم ناک دن تھا جس میں حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ اس دارِ فانی سے عالمِ جاویدانی کی طرف کوچ کر گئے” اناللہ وانا الیہ راجعون ”
چنانچہ نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی ۔
آپ کی زندگی کے واضح اسباق و عبر : (١) دین کو تمام چیزوں پر ترجیح اور فوقیت دینا ، (٢) اللہ اور اس کے رسول سے سچی محبت کا دم بھرنا ، (٣) دین کی اشاعت اور ایمان کے تحفظ پر اہل وعیال ، مال و منال اور گھر بار کو سب کچھ قربان کردینا ، (٤)  سخت مشقتوں اور کٹھن حالات میں صبر وتحمل کا دامن تھامے رکھے ، (٥) اور اپنے آپ کو حکمِ الٰہی و فرمانِ نبوی کا مکمل تابع و فرمانبردار بنالیں ،  وغیرہ

کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گذر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں

پروردگار عالم آپ کی خطاؤں اور لغزشوں کو اپنے فضل معاف فرمائیں اور نیکیوں اورحسنات کو شرفِ پذیرائی بخشے ، اور ان کے صدقے میں ہمارے حق میں خیر کے فیصلے فرمائیں آمین ثم آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×