ملحدین اور خدا بیزار لوگ ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں سے خار کھاتے رہے ہیں، اور بے سروپا اعتراضات کے ذریعے اسلام کی صحیح اور صاف و شفاف تصویر کو دھندلا کرنے کی جسارت کرتے رہے ہیں، اسلام کے بنیادی عقائد ونظریات میں موشگافیوں کے ذریعہ سادہ لوح لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سعی کرتے رہے ہیں، دیسی ملحد نیرج اتری اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ شق صدر کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، اور اس کا دعوی ہے کہ (معاذ اللہ)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرگی کا مرض لاحق ہوا تھا ،جسے اسلامی کتب میں شق صدر سے تعبیر کر دیا گیا ، دیسی ملحد نیرج اتری کی بکواس ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں:
اس بارے میں الگ الگ رائے (incident) ہیں، اسلام میں اس بارے میں کہا گیا ہے کہ کوئی دیوی دیوتا ہیں جنہوں نے چھاتی کو پھاڑا اور اس میں کچھ کیا، اس طرح کی کچھ کہانیاں ہیں ہم اس کے بارے میں چرچا نہیں کریں گے، ہم یہاں صرف ان باتوں پر چرچا کرنے والے ہیں جسے ہم قبول (accept)کر سکتے ہیں اور مان سکتے ہیں، ولیم مور جو اچھے مورخ (great historin)ہیں ان کا لکھنا ہے کہ: ہو سکتا ہے کہ اس وقت محمد بن عبداللہ کو مرگی(epilepsy) کے دورے پڑتے ہوں، اسی کے کارن حلیمہ اور اس کے پتی (شوہر) ڈر گئے تھے اور وہ محمد بن عبداللہ کو ان کی ماں کو واپس کرنا چاہتے تھے۔
نیرج اتری کے اس بیانیے کا جائزہ لینے سے پہلے ہم قارئین کی خدمت میں شق صدر سے متعلق ضروری تفصیل پیش کرتے ہیں:
شق صدر سے مراد وہ واقعہ ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچپن میں یا معراج کی رات پیش آیا ، یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنی مرتبہ پیش آیا؟ اس بارے میں اہل علم حضرات کے مابین اگرچہ اختلاف ہے ؛ تاہم صحیح اور مستند روایات سے یہ ثابت ہے کہ شق صدر کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو مرتبہ پیش آیاہے: ایک مرتبہ بچپن میں جب کہ آپ کی عمر پانچ سال تھی، اور آپ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تھے، دوسری مرتبہ معراج کی رات یہ واقعہ پیش آیا۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے:
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ جِبْرَائِيلُ وَهُوَ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ، فَأَخَذَهُ فَصَرَعَهُ فَشَقَّ عَنْ قَلْبِهِ، فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ ثُمَّ اسْتَخْرَجَ عَلَقَةً مِنْهُ فَقَالَ: هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ، ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ لَأَمَهُ ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ، قَالَ: وَجَاءَ الْغِلْمَانُ يَسْعَوْنَ إِلَى أُمِّهِ، يَعْنِي ظِئْرَهُ، فَقَالُوا: إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ قُتِلَ، قَالَ: فَاسْتَقْبَلُوهُ وَهُوَ مُنْتَقِعُ اللَّوْنِ، قَالَ أَنَسٌ: لَقَدْ كُنْتُ أَرَى أَثَرَ الْمِخْيَطِ فِي صَدْرِهِ. (مسلم:162)
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنے بچپن میں ایک دن لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے ، آپ کے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے۔ اُنہوں نے آکر آپ کو پکڑا اور زمین پر لٹا دیا۔ پھر آپ کا سینہ چاک کردیا ، دل کو باہر نکالا اور اُس میں سے خون کا ایک لوتھڑا نکال کر پھینک دیا اور کہا کہ یہ آپ کے دل میں شیطان کا حصہ تھا۔پھر جبرئیل علیہ السلام نے آپ کے دل کو ایک سونے کے طشت میں رکھ کر آب زم زم سے دھویا ، پھر دل سیا اور اُسے سینے میں اُس کی جگہ پر رکھ دیا، راوی کہتے ہیں کہ بچے دوڑتے ہوئے آپ کی رضاعی والدہ کے پاس آئے اور کہا: محمد كو قتل كر دیا گیا ہے۔گھر والوں نے یہ سنا تو آپ کے پاس دوڑے آئے۔ چنانچہ کیا دیکھتے ہیں کہ آپ کا رنگ بدلا ہوا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ كہتے ہیں کہ میں نے آپ کے سینے پر سِلائی کے نشانات دیکھے ہیں۔
اور صحیح بخاری میں ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ عَنْ لَيْلَةِ أُسْرِيَ بِهِ بَيْنَمَا أَنَا فِي الْحَطِيمِ وَرُبَّمَا قَالَ فِي الْحِجْرِ مُضْطَجِعًا إِذْ أَتَانِي آتٍ فَقَدَّ قَالَ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ فَشَقَّ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ فَقُلْتُ لِلْجَارُودِ وَهُوَ إِلَى جَنْبِي مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مِنْ ثُغْرَةِ نَحْرِهِ إِلَى شِعْرَتِهِ وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ مِنْ قَصِّهِ إِلَى شِعْرَتِهِ فَاسْتَخْرَجَ قَلْبِي ثُمَّ أُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مَمْلُوءَةٍ إِيمَانًا فَغُسِلَ قَلْبِي ثُمَّ حُشِيَ ثُمَّ أُعِيدَ۔
آپ نے فرمایا: ’’ایسا ہوا کہ میں حطیم یا حجر میں لیٹا ہوا تھا کہ اچانک ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے یہاں سے یہاں تک چاک کر دیا ۔ راوی کہتا ہے: میں نے جادو سے پوچھا: جو میرے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے: اس سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے کہا: حلقوم سے ناف تک۔ میں نے اسے یہ کہتے ہوئے بھی سنا کہ سینے سے ناف تک۔‘‘ پھر اس نے میرا دل نکالا۔ اس کے بعد سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان سے لبریز تھا۔ میرا دل دھویا گیا۔ پھر اسے ایمان سے بھر کر اپنی جگہ رکھ دیا گیا۔
مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شق صدر کا واقعہ دو مرتبہ پیش آیاہے، اور یہ بات صحیح اور مستند روایات سے ثابت ہے، اب شق صدر کے واقعہ کو دیسی ملحد نے جو مرگی کا عارضہ سے قرار دیا ہے ہم مندرجہ ذیل سطور میں اس دعوی کاجائزہ لیتے ہیں:
(الف)شق صدر کی حقیقت قارئین کو معلوم ہوچکی ہے، اب مرگی کا مرض اور اس کے آثار وعلامات (symptoms) کے بارے میں ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں؛ تاکہ معلوم ہوکہ مرگی اور شق صدر کا واقعہ دونوں میں مماثلت ہے یا دونوں میں آسمان زمین کا فرق ہے!!!
اس مرض اور اس سے متاثرہ مریض کے بارے میں اطباء نے جو کچھ لکھا ہے اس کے مطابق مرگی ایک دماغی مرض ہے، اس بیماری کو انگریزی میں Epilepsy کہا جاتا ہے، انسان کے دماغ میں جو بجلی کی حرکت ہوتی ہے وہ وقتی طور پر جب بے قابو ہوجاتی ہے اور ایک ہی وقت میں پورے دماغ میں بہت زیادہ برقی رو پھیل جاتی ہے تو انسان کے جسم پر ایک دورے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، اس بیماری کی عام علامات یہ ہیں:
1۔ اچانک سے بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔(unconscious or fainting)
2۔ اچانک انسان نیچے گر جاتا ہے۔(falls)
3۔ انسان کا جسم اکڑ سکتا ہے۔(stiffening of body)
4۔ انسان کو جھٹکے لگ سکتے ہیں۔(uncontrollable jerking movements of legs and arms)
5۔ انسان کا منہ ایک جانب ٹیڑھا ہوسکتا ہے۔(staring)
6۔ سانس وقتی طور پر رک سکتی ہے جس کی وجہ سے ہونٹ نیلے پڑ سکتے ہیں۔(breathing problems due to which patient might bite his tongue)
7۔ منہ میں جھاگ آسکتی ہے جبکہ زبان دانتوں کے درمیان آکر کٹ سکتی ہے۔(foam coming out of the mouth)
8۔ کپڑوں میں پیشاب بھی خارج ہوسکتا ہے۔(loose of the bowel or bladder control)
مرگی کے کچھ دورے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مریض ہوش و حواس مکمل طور پر نہیں کھوتا ،چنانچہ وہ مریض کی بات سن سکتا ہے اور بول بھی سکتا ہے اگرچہ وہ بے مطلب یا بے مقصد سی بات ہوتی ہے ، ایسے دوروں کو انگریزی میں ٹمپورل لوب اٹیک (Temporal Lobe attack or Epilepsy or TLE) کہتے ہیں ، اگر شدّت ہو یا تشنّج ہو تو پسینہ بھی آجاتا ہے (سارے جسم پر) ۔ یہ بات یقینی ہے کہ مرگی کا دورہ کسی قسم کا ہو اس میں اکثر بول پر قابو نہیں رہتا، ان تمام باتوں کے باوجود مریض کو ہوش میں آنے پر کچھ یاد نہیں رہتا کہ اس دوران اس نے کیا سنا کیا دیکھا یا کیا کہا۔
مرگی کی بیماری اور اس کے آثار وعلامات کو ذکر کرنے کے بعد ہم شق صدر اور مرگی کا باہمی تقابل کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ:
(۱) مرگی کے عارضے کا شکار شخص مخبوط الحواس ہو کر زمین پر خود بخود گر جاتا ہے ، جب کہ واقعہ شق صدر میں اس بات کی تصریح ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر لٹایا تھا۔
(۲) واقعہ شق صدر میں اس بات کی وضاحت ہے کہ آپ کے سینے پر سلائی کے نشانات تھے، جب کہ مرگی زدہ شخص کے اندر اس طرح کا نشان سینہ پر نہیں پایا جاتا۔
لہذا واقعہ شق صدر کو مرگی کے عارضے سے تعبیر کرنا پرلے درجے کی حماقت اور نادانی ہے ،اور چہرہ نبوت کو داغ دار کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
(ب) کفارمکہ مرگی اور اس کے آثار و علامات سے بخوبی واقف تھے، اگر واقعی یہ عارضہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر ہوتا تو پھر کفار مکہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر طعن و تشنیع کرنے کا بہانہ ہاتھ آجاتا ، اور وہ آپ علیہ السلام کو بد نام کرنے کا یہ موقع نہیں چھوڑتے، لیکن آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں گے تو معلوم ہو گا کہ کہیں سے یہ بات ثابت نہیں ہے کہ مکہ کے مشرکین نے آپ علیہ السلام پر مرگی کا الزام لگایا ہو، اور اس کو لے کر آپ کی ذات گرامی کی تنقیص کی ہو۔
(ج) ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ عہد نبوت میں خود مرگی کی شکار عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی، اور مرگی سے شفا یابی کے لیے دعا کرنے کی خواست گار ہوئی ، چنانچہ بخاری شریف کی روایت ہے:
قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ:أَلاَ أُرِيكَ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ فقُلْتُ: بَلَى، قَالَ: هَذِهِ الْمَرْأَةُ السَّوْدَاءُ، أَتَتِ النَّبِيَّ – صلى الله عليه وسلم -، فَقَالَتْ: إِنِّى أُصْرَعُ، وَإِنِّى أَتَكَشَّفُ، فَادْعُ اللَّهَ لِي. قَالَ:”إِنْ شِئْتِ صَبَرْتِ وَلَكِ الْجَنَّةُ، وَإِنْ شِئْتِ دَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُعَافِيَكِ”.فَقالتْ: أصْبِرُ، فقالتْ: إنِّي أَتَكَشَّفُ، فادْعُ اللهَ أَنْ لا أَتَكَشَّفَ، فدَعَا لَها.
عبداللہ بن عباس نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ایسی خاتون نہ دکھاؤں جو اہل جنت سے ہے۔ میں نے کہا: کیوں نہیں ، تو انھوں نے فرمایا: اس حبشی خاتون کو دیکھو۔ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اورمیری ستر کھل جاتی ہے؛ اس لیے آپ میرے لیے اللہ سے دعا کردیجیے! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہوتو صبرکرلو اور تمہارے لیے جنت ہے اوراگر چاہو تو میں اللہ سے دعا کردوں کہ تم کو عافیت عطا کردے۔ اس عورت نے جواب دیا: میں صبر کرلوں گی۔ پھر اس نے عرض کیا: البتہ میں برہنہ ہوجایاکرتی ہوں ۔ آپ اللہ سے دعا کردیجیے کہ برہنہ نہ ہوا کروں ؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کردی۔ (بخاری)
مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرگی کے عارضے کی شکارخاتون نے مرگی سے صحت یاب ہونے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی، اور آپ نے اس خاتون کو مطمئن کر دیا، اور بامراد واپس کیا ، اگر آپ کو خود یہ مرض لاحق ہوتا تو کیا آپ اپنے لئے دعا نہ فرماتے؟ اور اس مرض سے چھٹکارا نہ پالیتے۔
(د) دیسی ملحد کو یہ بھی علم ہونا چاہئے کہ بہت سے مستشرقین آپ علیہ السلام کی طرف اس الزام کی نسبت کو درست نہیں سمجھتے ، اور مرگی کے عارضہ میں آپ علیہ السلام کے مبتلا ہونے کا پروپیگنڈہ کرنے والوں کو احمق اور جاھل قرار دیتے ہیں ، چنانچہ مشہور مورخ تھامس کارلائل کہتا ہے:
اس طرح کا الزام دلوں کی خباثت، قلوب کے بگاڑ اور جسم کی زندگی میں روح کے مرجانے کی دلیل ہے اور شاید دنیا نے کبھی اس سے زیادہ جھوٹی اور تکلیف دہ رائے کا مشاہدہ نہیں کیا۔‘‘ (الابطال:۵۵، ترجمہ محمد السباعی)
امریکی قلم کار ویل ڈورانٹ نے لکھا:
’’محمدؐ کے یہاں ایسی کوئی چیز نہیں جو عام طور سے مرگی کے دورے کے وقت پیش آتی ہے اورنہ محمدؐ کی تاریخ میں ایسی کوئی بات ہے جس سے پتہ چلے کہ ان کی قوت عقلیہ متزلزل ہوگئی تھی جیساکہ عموماً مرگی کے نتیجے میں ہوتاہے؛ بلکہ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ جوں جوں عمر بڑھتی گئی، ان کی روشن خیالی، قوت فکر، خوداعتمادی اور جسم، روح اور قیادت کی طاقت میں اضافہ ہی ہوتا گیا یہاں تک کہ آپ کی عمر ساٹھ سال کی ہوگئی‘‘ (قصۃ الحضارۃ:۲۶/۳۱)
جرمن مستشرق فیکس میئر ہوف لکھتا ہے:
بعض کی کوشش رہی ہے کہ انھیں محمد(ﷺ ) میں اعصاب کی بیماری میں مبتلا شخص نظر آئے؛ لیکن ابتدا سے لے کر انتہا تک ان کی تاریخِ حیات میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کو اس کی دلیل قرار دی جاسکے۔ نیز اس کے بعد جو انھوں نے قانون سازی کی ہے اور نظام حکومت کو چلایا ہے، اس سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے۔‘‘ (دیکھیے: آراء المستشرقین حول القرآن وتفسیرہ:۱/۴۰۳)