سیاسی و سماجی
ہندوستان ہمارا ہے ہم ہیں اس کی شان
سرزمین ہند جس کی تاریخ نہایت ہی قدیم ہے بلکہ اس کارگہ حیات میں انسان اول اور نبی اول نے جس سرزمین پراپنا پہلا قدم رکھا وہ ہندوستان ہی ہے اس گلشن میں مسلم حکمرانوں نے بے شمار گلہاۓ رنگارنگ کھلاۓ اور عظمت رفتہ کے ساتھ اس کی مختلف تہذیب وثقافت کو بھی پروان چڑھایا لیکن بد قسمتی سے اس خطہ ارض نے وہ دن بھی دیکھے جب یہاں پر انگریزوں کا ناپاک اور منحوس سایہ پڑا اور سونے کی چڑھیا کہے جانے والے اس ملک کی شان وشوکت کے تانے بانے بکھیر دییے گئے چناں چہ جب سلطان اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد دہلی کامرکز کمزور ہوگیا اور صوبہ جات میں طوائف الملوکی کا دور شروع ہوا تو برطانوی سامراج نےایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے اپنا سیاسی اثر ورسوخ بڑھانا شروع کیا تومسلم حکمرانوں میں سب سے پہلے بنگال کے نواب سراج الدولہ 1758میں مقابلہ کے لئے نکل آئے لیکن میر جعفر جیسے منافقوں کی سازباز کی وجہ سے جام شہادت نوش کیا جس کی وجہ سے کمپنی کی عملی حکومت کا راستہ صاف ہوگیا لیکن ایک اور مرد مجاہد نڈر جرنیل سلطان ٹیپو انگریزوں کے ایک بہت بڑی رکاوٹ بناہواتھا مگر وہ بھی جب انگریزوں کے مقابلے میں1799میں یہ کہتے ہوئے شہید ہو گئے کہ شیر کی زندگی کا ایک لمحہ گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے تو انگریز فوج کے کمانڈر نے بے اختیار یہ جملہ کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے اور اس طرح آہستہ آہستہ 1803میں انگریزفاتحانہ دہلی میں داخل ہوئے اور یہ اعلان کیا کہ خلق خدا کی ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی کا یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اب ہندوستان سے اسلام اور اس کی تعلیمات رخصت ہوچکی ہیں لیکن چند مخلص علماء اور محبین وطن نے خاص طور پر شاہ عبدالعزیز اور انکے رفقاء وتلامذہ نے 1824میں انگریزوں سے مقابلہ کے لیئے علم جہاد بلند کیا اور پورے ملک میں آزادی کی فضاء ہموار کی خواب گراں میں مست ومدہوش لوگوں کو جھنجھوڑ کر آزادی کا راہ روبنایا جس کے نتیجے میں تحریکیں چلیں کانفرنسیں ہوئیں لوگوں میں شعور پیدا ہوا قوم کے غیور نوجوان نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا پھانسی کے پھندوں کو چوما سینوں پر گولیاں کھا کر شہیدان قوم وملت کی فہرست میں اپنا نام رقم کیا 1857 کے بعد دیگر برادران وطن نے بھی اس ملک کی آزادی میں حصہ لیااور مسلسل انگریزوں کے سامنے عزم واستقلال ہمت و بہادری کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے بالآخر وہ صبح بھی نمودار ہوئ جس کا دو صدیوں سے انتظار تھا چناں چہ 15 اگسٹ 1947کو ہمارا ملک ہندوستان مکمل طور پر انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا خلاصہ یہ کہ آج ملک کو آزاد ہوۓ سات دہائیاں مکمل ہوچکی ہیں لیکن آج انہی مخلص اور بہی خواہ علماء کی خدمات کو فراموش کردیا گیا اور بے لوث خدمت کرنے والے مجاہدین وطن کا سہرا چند مخصوص لوگوں کے سر باندھا گیا اور مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں پردیس کہا جارہا ہے یہ تاریخ کے ساتھ ناانصافی اور مسلمانوں کی ناقابل فراموش خدمات کے ساتھ کھلواڑ ہے اور مسلمانوں کی اس سرزمین سے وابستہ ہزار سالہ تہذیب و تمدن کو طاق نسیاں کرنے کی سازش ہے لیکن انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ پوری تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی زمانے میں اس کی تہذیب وثقافت پر انقلابات زمانہ کا کوئ اثر نہیں ہوا بلکہ مسلمان اپنی اقدار وروایات کے ساتھ اس سرزمین پر ثابت قدم رہے ہیں اور انشاءاللہ آئندہ بھی ثابت قدم رہیں گے
اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ اقبال نے اپنے ترانہ ہندی میں کہاتھا
یونان ومصر روما سب مٹ گئے جہاں سے
اب تک مگر ہے باقی نام ونشاں ہمارا
کچھ بات ہے کہ ہستی مٹتی نہیں ہماری
صدیوں رہا ہے دشمن دور زماں ہمارا