Uncategorized

نفتالی بینیٹ کا دورہ متحدہ عرب امارات اور ولی عہد شیخ محمد بن زاید آل نیہان سے ملاقات

دبئی: 13؍دسمبر (ذرائع) اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے متحدہ عرب امارات کے تاریخی دورہ کے موقع پرابوظبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زاید آل نہیان سے ملاقات کی ہے اور ان سے دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے فروغ اور باہمی دلچسپی کے علاقائی امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

اسرائیلی حکام کے مطابق اتوارکو رات گئے وزیراعظم نفتالی بینیٹ اماراتی دارالحکومت پہنچے تھے اور انھوں نے شیخ محمد سے ان کے ذاتی محل میں ملاقات کی ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان گذشتہ سال اگست میں دوطرفہ سفارتی تعلقات استوار ہونے کے بعد کسی اسرائیلی وزیراعظم کا یواے ای کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کے ترجمان کے مطابق بینیٹ نے کہا کہ ’’ان کا دورہ خطے میں ایک ’’نئی حقیقت‘‘کی عکاسی کرتا ہے‘‘۔قبل ازیں ان کے دورے سے متعلق یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی روابط کو مضبوط پرتوجہ مرکوز کریں گے۔

انھوں نے یو اے ای کی سرکاری خبررساں ایجنسی وام کو بتایا کہ ’’میری رائے میں،خطہ ایک نئی حقیقت دیکھ رہا ہے اورہم اپنے بچّوں کے بہترمستقبل کو یقینی بنانے کے لیے مل کرکام کررہے ہیں‘‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ دوطرفہ تجارت کا حجم گذشتہ چندماہ کے دوران میں بڑھ گیا ہے اور مستقبل میں اس کی ترقی کے لامحدود مواقع موجود ہیں۔
نفتالی بینیٹ کا کہنا تھا کہ ’’متحدہ عرب امارات کی طرح اسرائیل بھی تجارت کا علاقائی مرکزہے۔ ہمارا تعاون نہ صرف ہمارے لیے بلکہ مزید ممالک کے لیے بھی بے مثال معاشی مواقع فراہم کرتا ہے‘‘۔
اسرائیلی حکام نے بتایا کہ بینیٹ اپنے مختصردورے میں یو اے ای کے ٹیکنالوجی اور ٹرانسپورٹ کے وزراء سے بھی ملاقات کرنے والے تھے۔
وہ یواے ای کا دورہ کرنے والے پہلے اسرائیلی لیڈر ہیں،ان کے وزیرخارجہ یائرلاپیڈ نے جون میں یواے ای کا ایک تاریخی دورہ کیا تھا۔اس موقع پراسرائیل نے ابوظبی میں اپناسفارت خانہ اور دبئی میں قونصل خانہ کھولاتھا۔متحدہ عرب امارات نے جولائی میں تل ابیب میں اپنا سفارت خانہ کھولا تھا۔
نفتالی بینیٹ نے ویانا میں عالمی طاقتوں اورایران کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کے تناظر میں یہ دورہ کیا ہے۔اسرائیل ان مذاکرات کا فریق تو نہیں لیکن وہ ان کے بارے میں تشویش اور تحفظات کا اظہارکرچکا ہے۔وہ ایران سے 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی بحالی کا مخالف ہے اور وہ عالمی طاقتوں کے ایران کے ساتھ نئے سرے سے بین الاقوامی مذاکرات کے خلاف سفارتی مہم چلا رہا ہے۔
اسرائیل اور متحدہ عرب امارات طویل عرصے سے ایران کے جوہری پروگرام اور خطے میں سرگرمیوں کے بارے میں مشترکہ تشویش کے حامل ہیں اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ سیکورٹی تعاون کرتے رہے ہیں لیکن گذشتہ سال امریکا کی ثالثی میں دونوں ملکوں کے درمیان طے شدہ ’’معاہدۂ ابراہیم ‘‘کے بعد ان کے دوطرفہ تعلقات میں زیادہ گرم جوشی آئی ہے اوراب وہ ایک دوسرے کے ساتھ مختلف شعبوں میں باضابطہ اور کھلم کھلا دوطرفہ تعاون کررہے ہیں۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے پرعزم ہے جبکہ تہران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری بم نہیں بنانا چاہتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×