اسلامیات

ایک عشرہ کی تکمیل۔۔۔ کیا کھویا کیا پایا

رمضان المبارک کا پہلا عشرہ رخصت ہوا چاہتا ہے ہوسکتا ہے اس تحریر کو پڑھتے وقت عشرہ مکمل ہوچکا ہو۔عشرہ کی تکمیل کا مطلب یہ ہے کہ ہماری عبادت وریاضت،روزہ نماز اور تلاوت واذکار کا دورانیہ دس روز یا اس سے آگے بڑھ چکا ہے۔اللہ کے رسول محمد عربی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے تین حصے کیے ہیں اس کا بڑا مقصد یہ ہیکہ ہر عشرہ کے آغازواختتام پر اپنے اعمال کا جائزہ لیا جاے اوراس کی بنیاد پرماضی کے تلخ تجربات اور اعمال بد سے پرہیز کرتے ہوے مستقبل میں نیک اعمال کے ذریعہ اپنی دنیا وآخرت کو سجایا اور سنوارا جاسکے۔اعمال کا محاسبہ،اپنے نفس کا محاسبہ اور اپنے شب وروز کا محاسبہ ایک ایسا کارآمد اور مفید چراغ ہے جس سے انسانوں کی تاریک زندگیوں میں ایسا اجالا اور ایسی روشنی ہوجاتی ہے جو ان کی ہر شام کو صبح دوام عطا کردیتی ہے۔
باری تعالی کا ارشاد ہے:  أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ(حشر ١٨)؛اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور ہر شخص کو دیکھنااور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تمھارے اعمال سے باخبر ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ  تقوے کے دومرحلے ہیں، پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان نیک کام انجام دے اور بُرے کاموں سے پرہیز کرے، اور دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انجام شدہ کاموں پر تجدید نظر کرے۔اور اپنے کیے کا محاسبہ کرے۔
اس لیے ہمیں ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیئے تاکہ اپنے اعمال پر نظر رہے اور اچھے اور غلط کی تمیز کرتےہوئے برے کاموں سے اپنے آپ کو روکا جاسکے۔
،لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کہ ہم جہاں روپے پیسے بلکہ ہلدی مرچ،دھنیا اور چینی کا حساب و کتاب کرتے ہیں تو کیا یہ نا انصافی نہیں ہے کہ ہم خود اپنی زندگی کا کوئی حساب وکتاب نہ کریں اورشرعی و اخلاقی طور پر اپنے گھاٹے اور نقصان کا کوئی تخمینہ و اندازہ نہ لگائیں۔رمضان المبارک کی یہ زندگی اور اس زندگی کے شب و روز کے معمولات یقینا اس قابل ہیں کہ ہم ایک عشرہ کی تکمیل پر ان کا محاسبہ کریں۔
یہ محاسبہ اس لیے بھی کہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں وقت کی قسم کھائی ہے’’والعصر ان الانسان لفی خسر‘‘۔زمانے کی قسم! بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔ یہی وجہ ہے اسلام میں جہاں زندگی کے دیگر شعبہ ہائے حیات میں حساب و کتاب کو ضروری قرار دیا گیا ہے وہیں خود زندگی پر بھی ایک نظر ڈالنے کی تاکید ملتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کے یہاں ایک خاص وقت میں چوبیس گھنٹے کے معمولات کے محاسبہ کا معمول ہے۔
بات لمبی ہوگئی اس طوالت کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم رمصان کے ایک عشرہ کی تکمیل پر اپنے اعمال کا ضرور محاسبہ کریں تاکہ کیا پایا اور کیا کھویا ہمارے سامنے آسکے۔
*روزے کا محاسبہ:*
رمضان کے دس روزے گذر گئے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا روزوں کے جو فضائل وارد ہیں اور روزوں پر جن روحانی فوائد کے حصول کا وعدہ کیا گیا ہے کیا ہم ان کے مستحق ہوگئے کیا ہمیں روزے سے حاصل ہونے والا مخصوص تقوی حاصل ہوا کیا ہمارے یہ دس روزے اس لائق تھے کہ باری تعالی ان کے بارے میں ارشاد فرمائیں کہ یہ روزے میرے لیے ہیں اور میں ہی ان کا بدلہ دوں گا کیا ہمارے یہ روزے اس معیار کے تھے کہ ان کی وجہ سے ہمیں باب الریان سے داخلہ جنت نصیب ہوسکے؟ کیا ہمارے روزے ہمارے حق میں گناہوں سے پرہیز کے حوالہ سے ڈھال کی حیثیت اختیار کر سکے؟ ایسے کئی سوال ہیں جن کے مثبت جوابات اس موقع پر ہمیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ابھی دو عشرے باقی ہیں ان سوالوں کے جوابات آخری دو عشرے کی زمین ہموار کرنے میں بہت معاون ثابت ہوں گے ۔
*نمازوں کا محاسبہ:*
نماز کے سلسلے میں فرائض کے ساتھ سنن ونوافل کا بطور خاص محاسبہ کرنا ضروری ہے۔اس ماہ میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوجاتا۔کیا ہم نے سنن: موکدہ وغیر موکدہ اور نوافل:بطور خاص تہجد،اشراق،چاشت،صلات التسبیح،اور اوابین کے ذریعہ کتنے سنن ونوافل کو فرض جیسا بنایا؟یاد رکھنا چاہیے کہ نوافل کے بارے مین یہ جو بات مشہور ہے کہ اس کے ترک پر گناہ نہیں ہوتا یہ ایک علمی چیز ہے عملی چیز نہیں ہے یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ نفل نمازیں پڑھی نہ جائیں بلکہ نوافل کا اہتمام ایک طرف قرب الہی کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف فرائض وواجبات کی جانب رغبت کا سبب بھی ہے۔اس لیے اس موقع پر نوافل کا بطور خاص جائزہ لینا اپنی زندگی میں پرلطف انقلاب کے لیے از حد ضروری ہے ۔
*تلاوت قرآن کا محاسبہ:*
اس ماہ رمضان کو ماہ قرآن بھی کہتے ہیں قرآن کریم کو رمضان المبارک سے خاص تعلق اور گہری خصوصیت حاصل ہے۔ چنانچہ رمضان المبارک میں اس کا نازل ہونا، حضور اکرم ﷺکا رمضان المبارک میں تلاوتِ قرآن کا شغل نسبتاً زیادہ رکھنا، حضرت جبرئیل علیہ السلام کا رمضان المبارک میں نبی اکرم ﷺکو قرآن کریم کا دور کرانا، تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام کرنا، صحابۂ کرام اور بزرگان دین کا رمضان میں تلاوت کا خاص اہتمام کرنا، یہ سب امور اس خصوصیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ لہذا اس ماہ میں کثرت سے تلاوتِ قرآن میں مشغول رہنا چاہئے۔
ماہ رمضان کا قرآن کریم سے خاص تعلق ہونے کی سب سے بڑی دلیل قرآن کریم کا ماہ رمضان میں نازل ہونا ہے۔ اس مبارک ماہ کی ایک بابرکت رات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے لوح محفوظ سے سماء دنیا پر قرآن کریم نازل فرمایا اور اس کے بعد حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوتا رہا اور تقریباً ۲۳ سال کے عرصہ میں قرآن مکمل نازل ہوا۔
اس موقع پر یہ محاسبہ ضروری ہے کہ کیا ہم نے قرآن کے حقوق ادا کیے:تلاوت میں اپنا وقت گذارا؟،تراویح میں اس کے پڑھنے اور سننے کا اہتمام کیا؟قرآن کو صحت الفاظ اور رعایت تجوید کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کی؟اس کے ساتھ حسب موقع ترجمہ وتفسیر پڑھنے کی جدوجھد کی تاکہ مراد الہی سے بھی کچھ واقفیت ہو؟
*دعا کا محاسبہ:*
 اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کو عبادت کی روح قرار دیا ہے: دُعا عبادت کی روح اور اس کا مغز ہے۔ (ترمذی ۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء) نیز حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: دُعا عین عبادت ہے۔ (ترمذی۔ باب ماجاء فی فضل الدُعاء) اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام وصالحین کی دعاؤں کا ذکر اپنے پاک کلام (قرآن کریم) میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔دعا کی اہمیت کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ فاتحہ میں اپنے بندوں کو نہ صرف دُعا مانگنے کی تعلیم دی ہے بلکہ دعا مانگنے کا طریقہ بھی بتایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے دُعا کومؤمن کا خاص ہتھیار یعنی اس کی طاقت بتایا ہے، (الدُّعَاءُ سِلاحُ الْمُوْمِنِ) (رواہ ابویعلی وغیرہ)۔ دُعا کو ہتھیار سے تشبیہ دینے کی خاص حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ جس طرح ہتھیار دشمن کے حملہ وغیرہ سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، اسی طرح دعا بھی آفات سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالی نے قبولیت دعا کے بعض خاص مواقع بھی متعین کیے ہیں تاکہ انسان ان سے فایدہ اٹھا سکے رمضان المبارک کے تمام لمحاتِ شب و روز قبولیت کے مواقع ہیں۔کیا ہم نے شروع عشرے میں اس سے فایدہ اٹھا لیا ؟نمازوں سے متصل رٹی رٹائی دعاؤں کے علاوہ کسی خاص وقت میں اپنی ساری ضروریات کی تکمیل،رحمت الہی کے حصول،گناہوں سے توبہ واستغفار کی محنت اور نعمتوں پر شکریہ کے حوالے انتھک کوشش کی؟
*ذکروتسبیح کا محاسبہ:*
 ذکر الہی کی اہمیت کا اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ آپ ﷺ کا مبارک ارشادہے کہ ذکر کرنے والے اور ذکر نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ یعنی ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے یعنی ذکر روح کی روح ہے۔ اسی لیے اللہ جل شانہ نے اس کو ہماری روحانی حیات کے لئے بہت ضروری قرار دیا ہے اور اسی لیے  ہر طرح سے اللہ پاک کا نام لیا جاسکتا ہے۔ لیٹے ، کھڑے بیٹھے ہر طرح سے ذکر جائز ہے ۔
 قرآن مجید کی وضاحت کے بموجب انسان پوری دنیا میں سکون کی تلاش کر لے، نہیں ملے گا۔ کیوں کہ حق تعالیٰ نے دل کا سکون اپنی یاد میں رکھا ہے۔ جب دل میں سکون ہوگا تو ظاہراً بھی طمانیت جھلکتی نظر آئے گی۔ جو قلب میں یاد خدا بساتا ہے وہی روحانی سکون پاتا ہے۔
اس عشرہ کی تکمیل کے موقع پر اس حوالے سے بھی محاسبہ ضروری ہے کہ ہم نے رمصان کے گزرے ہوئے اس عشرہ میں ذکر واذکار کے ذریعہ خود کو کتنی غذا فراہم کرنے کی کوشش کی؟
یہ  محاسبہ کے چند بنیادی پہلو ہیں ورنہ اس کے علاوہ انسان خود مختلف پہلوؤں سے اپنے اعمال کا محاسبہ کرسکتا ہے۔اس لیے مزید پہلوؤں سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔
یقین مانئیے (اگرچہ یقین ماننے والے بہت کم ہیں) اگر ہم نے سچے دل سے ان امور پر غور کیا اور اصلاح احوال اصلاح نفس اور اصلاح اعمال کی خاطر محاسبہ کیا تو یقینا ہم سے زیادہ نیک بخت کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔اور اگر محاسبہ کو غیر ضروری سمجھ کر اپنی رفتار بے ڈھنگی پر کنٹرول نہیں کیا تو یقینا ہم سے زیادہ بد نصیب کوئی دوسرا نہیں ہوگا۔
میں نے یہ چند سطریں اولا خود کو مخاطب بناکر لکھی ہیں اور ان سطور کو عام کرکے یہ امید کی ہے کہ ہوسکتا ہےکہ اللہ تعالی ان سطور کوکسی کے لیے مفید اور نافع بنادیں ورنہ اس امر کا قوی امکان ہے کہ دوسرے لوگ راقم الحروف کے مقابلہ میں ہزارہا درجہ نیک اور نیکیوں سے سرشار ہوں گے اور ان کا محاسبہ بڑا حوصلہ افزاء ہوگا۔
اللہ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک کے بقیہ ایام کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے
۱۰رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ بروز پیر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×