سیاسی و سماجی

موتیوں کا شہر‘ پانی میں

قوموں کی تہذیب اور بہتری کئی اور چیزوں کے ساتھ اسکی حکومت سے ہوتی ہے اور حکومت کی پہچان ان کی سڑکوں گلیوں اور راستوں سے کی جاتی ہیں اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک گاوں یا شہر جاتے ہے تو سب سے پہلے آپ کا واسطہ وہاں کی سڑکوں گلیوں اور راستوں سے ہی پڑتا ہے اگر آپ نے وہاں کی سڑکیں گلیاں وغیرہ پختہ و صاف ستھری پائی تو آپ وہاں کی قوم و حکومت کے لئے اچھے خیالات رکھیں گے، لیکن خدا نا خواستہ وہاں کی سڑکیں کچی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو صفائی کے نظام ابتر ہو تو آپ کے ذہن میں اس ملک و قوم کے لئے سوائ نفرت اور حیرانی کے کچھ بھی نہیں آئے گا، آج اگر ہم باہر کی دنیا میں جاتے تو وہاں کی صاف صفائی کے نظام سڑکوں و گلیوں کی پختگی اور ٹریفک نظام کو دیکھ کر حیران ہو جاتے ہے۔ سب سے پہلے وہاں کی سڑکوں پے نظر ڈالیں تو کئی پر بھی مٹی کچرا یا ٹوٹ پھوٹ نظر نہیں آتی ہر طرف صفائی کا ایک بہتر ین نظام ٹریفک جام کا تو نام و نشان بھی نہیں ہوتا، اگر کہیں پر ترقیاتی کام ہو بھی رہا ہو تو کھدائی کے دوران ایکسویٹر کے ساتھ پانی کا فورا لگا ہوانظر آتا، جس سے دھول کو بیٹھا یا جاتاتھا۔ سینگل پر لال بتی جلتے ہی کسی گاڑی والے کی ہمت نہیں کے وہ سنگل توڑے۔ کہی جاتے ہوئے یہ ڈر نہیں لگتا کے جلدی نکلو کہیں ٹریفک جام نہ ہو۔ایک پرسکون ماحول آسان سفر ہی انسان کو دماغی سکون فراہم کرتا ہے۔

اور آج آبادی کے لحاض سے حیدرآبادد دنیا کا پانچ بڑے شہر وں میں جسکا شمار ہے، ہندوستان کا معاشی حب بھی حیدرآبادہی ہے، مگر گزشتہ دو دھائیوں سے اس شہر کو کسی کی نظر لگ گئی ہے، جو کبھی غریب کی ماں ہوا کرتی تھی، آج یہاں غریب تباہ ہے، جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا، آج یہاں اندھروں کا راج ہے، جہاں کبھی لوگ کاروبار کے لئے ملک کے کونے کونے سے آتے تھے، آج یہاں سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہے، جہاں کی سڑکیں خوبصورتی کی وجہ سے ملک میں مثالی ہوا کرتی تھی، آج ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے، شہر حیدرآباد جو ماضی میں شہروں کاسندور، موتیوں کا شہر اور نجانے کیا کیا کہلاتا تھا اور اب بھی بلاشبہ اس شہر کو ہندوستان کی معیشت کا سب سے اہم ستون قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ بدنصیب شہر گزشتہ کئی عشروں سے جس بدترین صورتحال کا شکار ہے، اس کی مثال شاید ہی کہیں اور ملتی ہوگی۔ آج اس شہر کی مانگ اجڑ چکی ہے، اس شہر کا ہر علاقہ پکار پکار کر توجہ مانگ رہا ہے مگر کوئی اس کی طرف نگاہ اٹھا کردیکھنے کاارادہ نہیں رکھتا۔

افسوسناک حیرت اس بات پر ہے کہ ذمہ داران شہرنےاس سے نظریں ہی پھیرلیں اور اسے یوں نظر انداز کر دیا جیسے طلاق کے بعد مطلقہ سے بے اعتنائی برتی جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ شہر یتیم ہے، اس کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں۔ صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات اور نکاسی آب کی بدترین صورتحال کے باعث شہر کا برا حال ہورہا ہے۔ شہریوں کو سڑکوں پر آمدورفت پر کافی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور جب بھی حیدرآباد میں بارش ہوتی ہے تو سیوریج بھر جاتے ہیں۔ ان میں مثل”طغیانی“ آجاتی ہے۔ شہر میں نکاسی آب کانظام بھی درست نہیں۔ سیوریج لائنوں میں کچرا پھنس جاتا ہے۔ ان کی صفائی بھی نہیں ہوتی چنانچہ جا بجاگٹر ابلتے دکھائی دیتے ہیں۔ چند منٹوں کی بارش، ناقص بلدیاتی نظام کی قلعی کھول کر عوام کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ برساتی نالوں کی صفائی اورسڑکوں کے اطراف برساتی پانی کی نکاسی کے انتظامات نہ ہونے کے باعث چند منٹوں کی بارش حیدرآباد کے باسیوں کے لئے زحمت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ انتظامیہ کی نااہلی کے باعث بارش کا چھینٹا پڑتے ہی سڑکوں کا برا حال ہو جاتا ہے۔ جگہ جگہ ٹریفک جام، اور سڑکیں کیچڑسے اَٹ جاتی ہیں اور راہ گیر اس کیچڑ سے لت پت ہو جاتے ہیں۔

اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب موسلا دھار بارش ہوتی ہے تو نشیبی علاقے جھیل کا منظر پیش کرتے ہیں ۔ جو غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کےلییے دردسر بن جاتا ہے، جب بھی شہر میں بارش ہوتی ہے تو اکثر کھلے مین ہول دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر حادثات رونما ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجودہمارے ذمہ دران اس جانب توجہ نہیں دیتے، اس کے علاوہ بارش کے موسم میں بجلی کی تاریں اس کھڑے پانی میں گر جاتی ہیں۔ راہگیروں کو علم نہیں ہوتا کہ اس پانی میں بجلی کی تاریں گری ہوئی ہیں یوں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ ویسے بھی بارش کے بعد پانی کا اس طرح کھڑا ہوجانا انتہائی تعجب کی بات ہے اور وہ بھی موتیوں کے شہر میں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شہر میں نکاسی آب کا کوئی درست نظام سرے سے موجود ہی نہیں یا پھر نکاسی کا منصوبہ تو بنایا گیا مگر اس میں کوئی نہ کوئی نقص رہ گیا ہے جس کے نتیجے میں بارش کا پانی سڑک کے بیچوں بیچ کھڑا ہےاور یہ سب اس وقت بھی ہے جب چند منٹوں کی بارش ہوئی ہو جس کی بنا پر شہریوں کے لئے گھر سے نکلنا اپنے لئے کسی مشکل کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ نکاسی آب کا منصوبہ خاصا تکنیکی انداز میں بنایاجاتا ہے۔ اس میں یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ پانی کا بہاو کس سمت ہے پھر اسی لحاظ سے نالے تعمیر کئے جاتے ہیں او رنالوں میں بھی پانی کی نکاسی کا کافی اچھا نظام ہوتا ہے۔ اردگرد کا پانی ان نالوں کے ذریعے آگے کسی بڑے نالے تک پہنچایاجاتا ہے لیکن یہاں نہ ہی کوئی نالہ دکھائی دیتااور اگر ہو بھی تو وہ کچرے کے انبار سے بھرا ہوا ہے جس میں کوئی صفائی کا نظام نظر نہیں آتاہے۔ اور ہم شہری بھی اپنے گھریلوں کچرے کو ان نالوں میں پھنکنا شان نوابی تصور کرتے ہیں، اب حیدرآباد میں موسم کی تبدیلیوں کے باعث بارش ہونے لگی ہے لہٰذا اس کی نکاسی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر منصوبہ بندی ہونی چاہئے تا کہ شہر کی خوبصورتی برقرار رہ سکے اور قیمتی ا نسانی جانیں بجائی جا سکیں۔

یہ بات بھی ضروری ہے کہ حکومت عوام کے مسائل کی نوٹس لیں اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے متعلقہ ذمہ داروں کو یہ ہدایت کریں کہ ہنگامی بنیادوں پر ایسے علاقے جہاں پانی کھڑا ہے، وہاں سیوریج سسٹم کی درستگی اور ہر گھر میں صاف پانی کی ترسیل کا نظام درست کریں تا کہ عوام کو پینے کے لئے صاف پانی مل سکے کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سیوریج کا پانی بھی پینے کے پانی میں مل جاتا ہے اور یوں عوام صاف پانی کو بھی ترستے ہیں،جسکی وجہ سے قوم کا مستقبل وبایئ امراض کا شکار ہوجاتا ہے صاحبان اختیار کو چاہئے کہ وہ صرف زبانی جمع خرچ کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کر کے عوام کی مشکلات کے ازالے کی کوشش کریں۔

نیزچاہئے تو یہ کہ بارش سے قبل تمام نالوں کی صفائی کی جاتی۔ ان میں پھینکا جانے والا کچرا نکالا جاتا، تا کہ نکاسی آب کے راستے میں رکاوٹیں دور ہو سکیں لیکن ہمارے ذمدار تو تو میں میں کی جنگ میں مصروف ہیں، جس کی وجہ سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شہر کے اندر نکاسی آب کا نظام اب بوسیدہ ہوچکاہے۔ سیوریج کا پورا نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے او رواٹر بورڈ اپنے سیوریج کا نظام برساتی نالوں میں مربوط کر کے گزارہ کر رہا ہے۔ برساتی نالوں کے اوپر او ردرمیان سے پانی کی بوسیدہ اور ٹوٹی پھوٹی لائنیں گزر رہی ہیں جن سے سیوریج کے بوسیدہ نظام سے پانی کی لائنوں میں گندا پانی شامل ہوجاتا ہے، ان سب کی وجہ ایک ہی ہے وہ یہ کہ شہر میں پانی و سیوریج کی لائنوں کی تنصیب واٹر بورڈ، ضلعی ادارے، کنٹونمنٹ بورڈ کے افراد اور پھر سیاسی افراد کرتے ہیںاور یہ لوگ لائنیں بغیر منصوبہ بندی کے اس طرح ڈالتے ہیں کہ پانی و سیوریج کی لائنیں ٹوٹ پھوٹ کے باعث آپس میں مل جاتی ہیں،آخر ی بات بلدیاتی نظام کے ذمداران اور میر حیدرآباد سے گذارش ہے کہ شہر کے پورے نظام کی اوورہالنگ کرایئں تاکہ نظام درست ہوسکے ۔ نااہل اور کرپٹ لوگوں نے شہرکے نظام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے لہٰذا ایسے افراد کا سب سے پہلے احتساب کیا جائے، تب ہی جا کر شہر میں ترقی و خوشحالی آئے گی۔

اپنے گھریلوں کچرے کو ان نالوں میں پھنکنا شان نوابی تصور کرتے ہیں، اب حیدرآباد میں موسم کی تبدیلیوں کے باعث بارش ہونے لگی ہے لہٰذا اس کی نکاسی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی بنیادوں پر منصوبہ بندی ہونی چاہئے تا کہ شہر کی خوبصورتی برقرار رہ سکے اور قیمتی ا نسانی جانیں بجائی جا سکیں۔
یہ بات بھی ضروری ہے کہ حکومت عوام کے مسائل کی نوٹس لیں اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے متعلقہ ذمہ داروں کو یہ ہدایت کریں کہ ہنگامی بنیادوں پر ایسے علاقے جہاں پانی کھڑا ہے، وہاں سیوریج سسٹم کی درستگی اور ہر گھر میں صاف پانی کی ترسیل کا نظام درست کریں تا کہ عوام کو پینے کے لئے صاف پانی مل سکے کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سیوریج کا پانی بھی پینے کے پانی میں مل جاتا ہے اور یوں عوام صاف پانی کو بھی ترستے ہیں،جسکی وجہ سے قوم کا مستقبل وبایئ امراض کا شکار ہوجاتا ہے صاحبان اختیار کو چاہئے کہ وہ صرف زبانی جمع خرچ کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ عملی اقدامات کر کے عوام کی مشکلات کے ازالے کی کوشش کریں۔
نیز چاہئے تو یہ کہ بارش سے قبل تمام نالوں کی صفائی کی جاتی۔ ان میں پھینکا جانے والا کچرا نکالا جاتا، تا کہ نکاسی آب کے راستے میں رکاوٹیں دور ہو سکیں لیکن ہمارے ذمدار تو تو میں میں کی جنگ میں مصروف ہیں، جس کی وجہ سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شہر کے اندر نکاسی آب کا نظام اب بوسیدہ ہوچکاہے۔ سیوریج کا پورا نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے او رواٹر بورڈ اپنے سیوریج کا نظام برساتی نالوں میں مربوط کر کے گزارہ کر رہا ہے۔ برساتی نالوں کے اوپر او ردرمیان سے پانی کی بوسیدہ اور ٹوٹی پھوٹی لائنیں گزر رہی ہیں جن سے سیوریج کے بوسیدہ نظام سے پانی کی لائنوں میں گندا پانی شامل ہوجاتا ہے، ان سب کی وجہ ایک ہی ہے وہ یہ کہ شہر میں پانی و سیوریج کی لائنوں کی تنصیب واٹر بورڈ، ضلعی ادارے، کنٹونمنٹ بورڈ کے افراد اور پھر سیاسی افراد کرتے ہیںاور یہ لوگ لائنیں بغیر منصوبہ بندی کے اس طرح ڈالتے ہیں کہ پانی و سیوریج کی لائنیں ٹوٹ پھوٹ کے باعث آپس میں مل جاتی ہیں،آخر ی بات بلدیاتی نظام کے ذمداران اور میر حیدرآباد سے گذارش ہے کہ شہر کے پورے نظام کی اوورہالنگ کرایئں تاکہ نظام درست ہوسکے ۔ نااہل اور کرپٹ لوگوں نے شہرکے نظام کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے لہٰذا ایسے افراد کا سب سے پہلے احتساب کیا جائے، تب ہی جا کر شہر میں ترقی و خوشحالی آئے گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×