اسلامیات

بدعتی؛صحابہؓ اور اولیاءؒ کی نظر میں

انسان کی ہرعبادت اورہر عمل چاہے کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، بظاہر وہ کتنا ہی خوشنما کیوں نہ ہو، وہ عمل اس وقت تک عبادت اور نیکی نہیں ہوگا جب تک آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول سے ثابت نہیں ہوگا۔نیکی وہ ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر لگی ہو، جو اصحابِ رسول ﷺسے ثابت ہو۔
اگر کوئی شخص عبادت و نیکی اور ثواب سمجھ کر کوئی ایساکام کرے گا جس کا وجود آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دَور میں نہیں تھا۔ اور خلفاء راشدین کا سنہرا دور بھی اس کام سے خالی رہا ۔  تو وہ سراسر فریب دھوکہ اور غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ وہ کام ثواب اور دین نہیں بلکہ بدعت ہے۔
مفتی کفایت اللہؒ (متوفی 1372ھ) رقمطراز ہیں :
بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو، یعنی قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں اس کا ثبوت نہ ملے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرام ؓ، تابعین اور تبع تابعین کی زمانہ میں ان کا وجود نہ ہو اور اسے دین (ثواب) کا کام سمجھ کر کیا جائے .
( تعلیم الاسلام حصہ چہارم ، صفحہ ٢٧)
 دو مثا لیں پیشِ خدمت ہیں؛
(۱)جس فعل شرعی کا سبب اور محرک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود ہو اور کوئی مانع بھی نہ ہو اس کے باوجود نہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو نہ صحابہٴ کرام کو اس کے کرنے کا حکم دیا ہو۔ اور نہ ترغیب دی ہو، دین سمجھ کر ایسا کام کرنا بدعت ہے، جیسے مروجہ میلاد کا سبب (حضور کے زمانہ میں) موجود تھا۔ اور صحابہٴ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا عشق اور عقیدت و محبت تھی اس کے باوجود کسی نے آپ کا یوم ولادت منایا، نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔
(2)شریعت نے جو چیز مطلق رکھی ہے اس میں اپنی طرف سے قیودات لگانا بدعت ہے، جیسا کہ زیارت کے لیے وقت مقرر کرنا، ایصالِ ثواب کے لیے وقت متعین کرنا، مثلاً سیوم(تیجا)، چہلم(چالیسواں)۔
تین صحابہؓ عظام کا ایک نصیحت آموز واقعہ؛
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ تین آدمی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ ان سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کا حال دریافت کریں، جب ان لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کا حال بتلایا گیا تو انہوں نے آپ کی عبادت کو کم خیال کر کے آپس میں کہا:
 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلہ میں ہم کیا چیز ہیں اللہ تعالیٰ نے تو ان کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردیئے ہیں-
ان میں سے ایک نے کہا، اب میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا-
 دوسرے نے کہا: میں دن کو ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا۔
 تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا،
 ان میں آپس میں یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے اور فرمایا : تم لوگوں نے ایسا ویسا کہا ہے۔
 خبردار ! میں تم سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ تقوی اختیار کرتا ہوں (لیکن اس کے باوجود) میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں میں ( رات میں) نماز بھی پڑھتا ہوں او سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں (یہی میرا طریقہ ہے لہٰذا) جو آدمی میرے طریقہ سے انحراف کرے گا وہ مجھ سے نہیں (یعنی میری جماعت سے خارج ہے) ۔ ” (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
       اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نیکی کا ہر کام جو انسان خود تجویز کرتا ہے وہ نیکی نہیں بنتا، بلکہ وہی کام نیکی اور ثواب ہوگا جس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق ثبت ہوگی۔
بدعتی صحابہ اور اولیاء کی نظر میں
      حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگرد حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ میرے استاذ ابن عمر زندگی کے آخری حصہ میں نابینا ہوگئے تھے، میں انہیں پکڑ کر مسجد میں لے جاتا تھا،ایک دفعہ ہم ایک مسجد میں داخل ہوئے اذان ہوچکی تھی کہ ایک شخص نے اذان کے بعد اَلصَّلوٰة اَلصَّلوٰة کے ساتھ تثویب شروع کردی، یعنی وہ لوگوں کو نماز کی طرف دعوت دے رہاتھا۔ لوگوں کو نماز کی طرف بلا رہا تھا۔ حضرت ابن عمرؓ نے سنا تو اس شخص سے فرمایا: ارے تم پاگل ہو! تیری اذان میں نماز کی جو دعوت تھی کیا وہ لوگوں کو بلانے کے لئے کافی نہیں تھی؟
 حضرت مجاہد کہتے ہیں: پھر ابن عمرؓ نے مجھ سے فرمایا: اُخْرُجْ بِنَا فَاِنَّ ہٰذِہ بِدْعَةٌ (ابوداؤ د  رقم:۵۳۸) مجھے اس مسجد سے لے چل اس لئے کہ یہ بدعت ہے۔ (اور جہاں بدعت کا ارتکاب ہو میں وہاں نماز نہیں پڑھنا چاہتا)
حضرت امام مالکؒ
جو شخص بدعت کا کام کرتا ہے، اور اسے نیکی سمجھتا ہے وہ یہ گمان کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ رسالت میں خیانت کی ہے پس جو کام اس زمانے میں دین نہیں تھا، وہ کام آج بھی دین نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا ہے۔
(الاعتصام علامہ شاطبی، ص: ۴۸، ج:۱)
سیدنا علیؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز عید سے پہلے نفل نماز پڑھ رہا ہے۔ فرمایا کیوں عذاب کا کام کررہا ہے۔ اس نے کہا کیا نماز پڑھنے سے بھی عذاب ہوتا ہے؟ سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ نماز پر عذاب نہیں ہوگا مگر سنت کی مخالفت پر عذاب ہوگا(نظم البیان؛۳۷)
امام ابن جوزیؒ نے اپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘ میں عبداللہ ابن مسعودؓ کا یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ آپؓ نے دیکھا کہ مسجد میں کچھ لوگ بعد مغرب حلقہ باندھ کر ایک خاص ترتیب سے ذکر کررہے ہیں یعنی ایک مقررہ تعداد سے اللہ اکبر اور تسبیحات پڑھ رہے ہیں تو آپ نے ان پر برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا قسم ہے اس معبود کی جس کے سواء کوئی معبود نہیں ہے۔ تم نے بڑا ظلم کیا جو یہ بدعت نکالی۔ اس واقعہ کو امام دارمیؒ نے جو امام بخاری کے ہمعصر تھے نقل کیا ہے۔ اس واقعہ سے ظاہر کہ عبداللہ بن مسعودؓ نے ذکر و تسبیح کو بدعت نہیں قرار دیا بلکہ ذکر و تسبیح کا ایک خاص طریقہ جو اپنے طور پر تجویز کرلیا گیا تھا۔ اس کو بدعت فرمایا۔ نیز سیرت و آثار کی کتابوں میں تابعین و تبع تابعین کے ایسے کئی واقعات ملتے ہیں کہ یہ اصحابؓ جب کسی عمل کو نبویؐ طریق اور روش صحابہ کرامؓ کے مطابق نہ دیکھتے تو اس کو بدعت قرار دیتے۔(تلبیس ابلیس)
خلاصہ
یہ چند  سنجیدہ سطریں تھیں جن کا خلا صہ یہی ہے کہ
جو شخص بھی دین کا اور نیکی کا کوئی کام کرنا چاہتا ہے اُسے دیکھنا اور پرکھنا ہوگا کہ آیا حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اوراصحابِ رسول نے یہ کام کیا تھا؟ یا اس کام کے کرنے کاحکم دیا تھا؟ اگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی اور اصحابِ رسول کی زندگیوں میں وہ کام ہوا، انھوں نے وہ کام کیا، یاکرنے کا حکم دیا تو پھر وہ کام دین بھی ہوگا، ثواب بھی ہوگا اور باعث رحمت بھی ہوگا۔
       لیکن اگر وہ کام آنحضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں! آپ نے اس کام کے کرنے کا حکم نہیں دیا! اور اصحابِ رسول کے زمانے میں وہ کام نہیں ہوا۔ حالانکہ سبب موجود تھا اور وہ یہ کام کرسکتے تھے مگر انھوں نے نہیں کیا! تو وہ کام بظاہر کتنا ہی خوبصورت اور خوشنما کیوں نہ ہو ! وہ کام بظاہر نیکی اور ثواب کا کام لگ رہا ہو! وہ نیکی اور ثواب نہیں ہوگا؛ بلکہ بدعت اور ضلالت ہوگا!! باعث ذلت اور موجب عذاب ہوگا۔
حق و باطل برابر ہو نہیں سکتے قیامت تک
 حقیقت ایک رہتی ہے بدل جاتے ہیں افسانے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×