سیاسی و سماجی

آتا نہیں ہے فن کوئی استاذ کے بغیر!!!

اُستاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کا سامان کرتا ہے، اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے کو امن وامان،علم وکمال سے معطر کیے رہتا ہے، اُستاد ایک ایسا راہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر راہ راست کی راہنمائی وراہبری کرتا ہے؛کہ استاد ہی نو نہالان قو م کی تعلیم وتربیت کا ضامن ہوتا ہے،استاد ہی قوم کے نوجوانوںکو علوم و فنون سے آراستہ وپیراستہ کرتا اور اس قابل بناتا ہےکہ وہ آگے بڑھ سکے ،اور میدان میں بہت کچھ کرسکے ،والدین بچے کی جسمانی پرورش کرتے ہیں۔ جبکہ استاد کے ذمے بچے کی روحانی تربیت ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے استاد کی حثییت اور اہمیت والدین سے کس طرح سے کم نہیں بلکہ ایک لحاظ سے ان سے بڑھ کر ہے ۔ کیونکہ روح کو جسم پر فوقیت حاصل ہے،استاد جہاں نوجوانوں کی اخلاقی وروحانی تربیت کرتا ہے۔
استاذ کا مقام ومرتبہ:عالی مقام علا مہ اقبال استاذ کی عظمت واہمیت اور ذمہ داری کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہے:استاد کافرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کا کلید اس کے ہاتھ میں ہے۔ اور ہر قسم کی ترقی کا سرچشمہ اسکی محنت ہے۔ استاد فروغ علم کا ذریعہ ہے لیکن اس کے علم سے فائدہ وہ نیک بخت اٹھاتے ہیں جن کے سینے ادب و احترام کی نعمت سے مالا مال ہوں ۔
سکندر کا واقعہ:سکندر اعظم کا باپ یونان کی ایک چھوٹی سی ریاست مقدونیہ کا حکمران تھا لیکن سکندر اعظم نے بڑا نام پا کر شہرت عام حاصل کیںاس نے تقریبا آدھی دنیا کو فتح کیا حقیقت میں سکندر اعظم کی عظمت اس کے استاد اور وزیر ارسطو کی مرہون منت ہے سکندر اعظم خود کہا کرتا تھا ‘کہ میرا باپ مجھے آسمان سےدنیا پر لایا لیکن میرے استاد نے مجھے دنیا سے آسمان پر پہنچادیا۔
استاد کو ہر زمانے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے،استاد کی اہمیت اور ان کا مقام ومرتبہ کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری شخصیت سازی اور کردار سازی میں معاون ومددگار ثابت ہوتے ہے۔لہذا ہمیں بھی چاہئے کہ استا د کے مقام ومرتبہ کو پہچانیں ۔
استاد کے ادب وخدمت کے حوالہ سے چند مثالیں ۔۔
ذیل میں اسلاف کی اسا تذہ کے ادب واحترام کے حوالہ سے چند درخشندہ مثالیں کی جارہی ہیں جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔
۱) زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی.پھر آپکی سواری کے لئے خچر لایا گیا تو عبداللہ بن عباس آگے بڑھ کر رکاب تھام لی تو اس پر زید بن ثابت نے کہا اے ابن عم رسول اللہ! آپ ہٹ جائیں.اس پر ابن عباس نے جواب دیا کہ علمائے دین اور اکابر کی عزت اسی طرح کرنی چاہئے۔
۲) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ مجلس درس بڑی باوقار ہوا کرتی تھی،تمام طلبہ ادب سے بیٹھتے.حتی کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو۔
۳) ہارون رشید کے دربار میں جب کوئی عالم دین تشریف لاتے تو ہارون رشید اس کے استقبال کے لئے کھڑے ہوجاتے اس پر انکے درباریوں نے ان سے کہا اے بادشاہ سلامت! اس طرح سلطنت کا رعب جاتا رہتا ہے تو ہارون رشید نے جو جواب دیا یقیناًوہ آب زرسے لکھنے کے قابل ہےآپ نے کہا اگر علماء دین کی تعظیم سے رعب سلطنت جاتا ہے جائے۔
مولانا قاری صدیق احمد رحمہ اللہ بانی جامعہ ہتھوڑا باندہ یوپی اپنی کتاب”آداب المتعلمین” کے اندر استاد کے ادب کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:۔
۴) ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ استاد کے ادب واحترام کو اپنے اوپر لازم سمجھے،استاد کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے انکی باتوں کو بغور سماعت فرمائیں.
۴)اپنے استاد کو برا بھلا نہ کہیں،ورنہ تمہارے تلامذہ بھی تمہیں برا بھلا کہیں گے.
۵)استاد کو کبھی ناراض نہ ہونے دیں،اگر انکی شان میں کوئی بے ادبی ہوجائے تو فورا انتہاء عاجزی کے ساتھ معافی مانگ لیں.
۶)امام شعبی نے روایت کیا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک جنازے پر نماز پڑھی۔پھر سواری کا خچر لایا گیا،تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنھمانے آگے بڑھ کر رکاب تھام لی۔یہ دیکھ کر حضرت زیدرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا،اے رسول اللہ ﷺکے چچا کے بیٹے!آپ ہٹ جائیں۔ اس پر حضرت ابن عباس ؆نے فرمایا،علما کی اسی طرح عزت کرنی چاہیئے۔(جامع بیان العلم وفضلہ،صفحہ ۱۱۶)
مذکورہ طریقہ اسلاف اور اور اقوال خلف سے معلوم ہوا کہ استاد کی عزت اور ان کا مقام ومرتبہ کافی بلند وبالا ہے۔
لہذا ہم سبھوں پر واجب ہے کہ ہم اپنے استاد کی عزت کریں انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں
کسی عربی شاعر نے کیا خوب لکھا ہے:
مَاوَصَلَ مِنْ وَصْلٍ اِلاَّ بِالْحُرْمَۃِ
وَمَاسَقَطَ مِنْ سَقْطٍ اِلَّا بِتَرْکِ الْحُرْمَۃِ
ترجمہ: جس نے جو کچھ پایا اَدب واحترام کرنے کی وجہ سے پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ اَدب واحترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ استاد بادشاہ تو نہیں ہوتا لیکن وہ بادشاہ گَر ضرورہوتاہے۔استاد کا ادب و احترام کرنا ضروری ہے ،ان کی خدمت اوران سے تعلق کو اپنے لئے سعادت وخوش بختی کی علا مت سمجھنی چاہئے ۔
رہبر بھی یہ، ہمدم بھی یہ، غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
یوم اساتذہ کے حسین موقع سے ہم اپنے تمام اساتذہ کی مقدس بارگاہوں میں خراج عقیدت ومحبت پیش کرتے ہیں،اور دعا گو ہیں کہ مولی تعالی ہمارے اساتذہ کے جملہ حقوق کو ادا کرنے اور ان کے کردارو عمل کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے،ان کی محبتیں،شفقتیں،رحمتیں ہمیشہ قائم ودائم رہے،ان کے سایہ کو ہم طالب علموںپر دراز فرمائے،ہمارے وہ اساتذہ جو اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں ان کی مغفرت فرما ئے ۔
اٰمین یا رب العلمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×