سیاسی و سماجی

لاک ڈاؤن میں پیش آئے دل کو چھوجانے والے سو واقعات (۱)

کوویڈ 19 بحران کے دوران نفرت کے سوداگر چند میڈیا چینلوں کی وجہ سے من گھڑت کہانیوں کی ایک کالی گھٹا سی چھا گئی ہے جس کی تاریکی میں انسانیت دوستی کے دل پذیر مناظر نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ ایسے ماحول میں ضرورت ہے کہ عوام کو بتایا جائے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے لیے ہر قوم اپنا اپنا حصہ ادا کر رہی ہے۔

عالمی وبا کے کٹھن ایام کے بیچ انسانیت دوستی کی سچی تصویروں کے ذریعے بھائی چارے اور یک جہتی کا ماحول پیدا کرنے کے مقصد کے پیش نظر ہم نے ملک بھر سے مسلم والنٹیرس کی خدمات پر مشتمل  سو حیرت انگیز، حوصلہ بخش  اور دلپذیر جھلکیاں سمیٹی ہیں ۔

1)  آزمائشی دنوں میں ڈاکٹروں کو دوہرے چیلنجوں کا سامنا ہے: مسلسل کام اور ضروری اشیاء (بالخصوص پی پی ای کٹس) کی قلت! ڈاکٹروں کی وہ تصویریں بھی عوام نے دیکھی ہیں جن میں وہ پھٹے حفاظتی لباس ( پی پی ای )  کے ساتھ یا رین کوٹ اوڑھے ہوئے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق احمد آباد وبائی مرض کا ہاٹ اسپاٹ ہے، لیکن یہاں ڈاکٹروں کو پی پی ای کٹوں کی قلت کا ویسا سامنا نہیں جیسا دیگر مقامات پر ہے۔ اس اعزاز  کے حق دار ہیں  شہر کے تاجر غلام محمد!

ان کا یہ کارنامہ ڈاکٹروں کے لیے بڑی راحت کا سبب بن گیا۔ غلام محمد نے اپنی گارمنٹ یونٹ کو پی پی ای کٹ مینو فیکچرنگ یونٹ میں تبدیل کردیا۔ تمام  کاریگروں کو ضروری ٹریننگ اور مہارت کے ساتھ اس کام پر لگا دیا۔ وہ خود اور ان کے کاریگر رمضان میں روزوں کے دوران مسلسل محنت کرتے ہوئے روزانہ سیکڑوں پی پی ای کٹوں کی تیاری کے ذریعے پیرامیڈکس کی خدمات کے جوکھم کو کم کررہے ہیں۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ کٹوں کی تیاری کا کام غلام محمد بالکل مفت کررہے ہیں ۔ ( نرنئے کپور کی رپورٹ، نشر کردہ انڈیا ٹی وی)

2) حج کی ادائیگی وہ دیرینہ خواب ہوتا ہے جس کے لیےلوگ ہزار تمنائیں قربان کرتے ہوئے سالہا سال بچت کرتے ہیں۔ کعبے کی دید کا یہی دلآویز خواب اگر ایک یومیہ مزدور اپنی آنکھوں میں سجائے ہو تو اس کی انمول بچت کے پیچھے بہنے والے پسینے کا تصور بھی محال ہوتا ہے۔ کرناٹک کے عبدالرحمان گوڈینابلی لاک ڈاؤن کےدوران اپنے ہم پیشہ مزدوروں کے کرب کو خوب سمجھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنے اور اپنی اہلیہ کے سفر حج کا خواب قربان کردیا اور اس خون پسینے کی بچت کو کم ازکم 25 مزدور پیشہ خاندانوں کی غذائی ضرورتوں پر صرف کردیا۔ عبدالرحمان ایک قلی ہیں اور ان کی اہلیہ بیڑی کارخانے میں مزدوری کرتی ہیں۔  انھوں نے اپنی انمول بچت کے سہارے  کئی کوئنٹل غذائی سامان خرید کر محتاجوں تک پہنچادیا۔ انھیں یقین ہے کہ حالات ساتھ دیں تو ممکن ہے حج کے لیے راہیں کبھی نہ کبھی  کھل جائیں گی ۔

مال کے لیے مرمٹنے والوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے "تباہی ہے اس کے لیے جس نے مال جمع کیا اور گن گن کر رکھا”  ایسے تنگ دل دولتیوں کے لیے دل کی دولت سے مالا مال عبدالرحمان کے یہ الفاظ تازیانہ ہیں کہ "میرے پڑوسی بھوک سے تلملارہے ہوں تو جمع پیسوں کا ذخیرہ بچت نہیں لعنت محسوس ہوتا ہے!” ( شیخ ذاکر حسین کی رپورٹ، مشمولہ دی کوگنیٹ ڈاٹ کام 25 اپریل)

3) احمد نگر ضلع (مہاراشٹر) کا تعلقہ جام کھیڑ کورونا سے متاثرہ علاقہ ہے ۔ شہر کی بڑی آبادی قرنطینہ میں محصور ہے ۔ اسی شہر کے سید ابراہیم  سہیل ایک تخلیقی ذہن کے دردمند نوجوان ہیں۔ ملک میں وینٹی لیٹروں کی قلت کے بحران سے وہ فکر مند تھے۔  قرنطینہ میں سید ابرہیم سہیل نے فارغ وقت اورمعمولی اشیاء کا استعمال کرتے ہوئے  ایک کارآمد وینٹی لیٹر مشین تیار کی ۔ آٹومیٹک کنٹنیو پوزیٹیو ائیر وے پریشر نامی اس وینٹی لیٹر اور اس کے موجد کا تفصیلی تعارف مہاراشٹر کے دو سب سے بڑے مراٹھی روزناموں (لوک مت اور  سکال) نے  ایجاد کی پذیرائی کرتے ہوئے بہت نمایاں طور سے شائع کیا۔ ای سکال نے وینٹی لیٹر کی کارکردگی پر مبنی ایک ویڈیو بھی پورٹل پر اپلوڈ کی ۔ سہیلنے اس وینٹی لیٹر کا نام چھترپتی شیواجی مہاراج کے باڈی گارڈ سردار جیوا مہالے کے نام پر "جیوا” تجویز کیا ۔  سہیل ایک ابھرتے انٹر پرینیور ہیں ۔ حال ہی میں ان کی کمپنی کو قومی سطح پر بہترین کم عمر سی ای او کا  اعزاز بھی ملا ۔ (وسنت سنپ کی رپورٹ ۔ دینک ای سکال 30 اپریل، لوکمت نیوز نیٹ ورک -30 اپریل)

4)   ممبئی کے نوجوان انجینیر حمزہ شیخ، آنترپرینورشپ اور حسن خدمت کی عمدہ عملی مثال پیش کررہے ہیں۔ ان کی بائیو میڈیکل  اسٹارٹ اپ  کمپنی انڈوبائیونکس (2017)  نے سماج کی ایمرجنسی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے پی پی ای کی تیاری   کا آغاز کیا ۔ نتیجتاً  آج وہ  نہ صرف بڑے پیمانے پر پی پی ای کٹیں تیار کرکے ایک اہم طبی ضرورت کو پورا کررہے ہیں بلکہ ہزاروں بے روزگاروں کا بروقت سہارا بن چکے ہیں۔ کمپنی  اپنے ورکروں کے  نہ صرف قیام و طعام کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہے بلکہ  طبی احتیاط اور سوشل ڈسٹنسنگ کے تمام اصولوں  کو بھی ملحوظ رکھتی   ہے۔ ممبئی کے کئی سرکاری اسپتال، راشٹریہ کیمیکل فرٹیلائزر،  انڈین آرمی  سمیت کئی ادارے اس پروڈکشن سے استفادہ کررہے ہیں ۔ کئی ریاستی حکومتیں  کٹوں کے حصول کے لیے کمپنی سے ربط کررہی ہیں۔

ٹوسرکل ڈاٹ نیٹ نے حمزہ شیخ کے اس کارنامے پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔

میں نے  بھی شیخ حمزہ سے راست گفتگو کی اور انکی کمپنی  کے پروڈکشن  کی موجودہ کیفیت دریافت کی ۔ معلوم ہوا  کہ ان کی کمپنی لاک ڈاؤن  کے صدمے کے شکار ہزاروںورکروں کے روزگار کا ذریعہ بنی ہے۔ حمزہ  کہتے ہیں کہ ہم نے 1000 کٹ یومیہ  پروڈکشن سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا اور ڈیمانڈ بڑھتا گیا ۔ آج ہم پانچ ہزار ورکروں کی ٹیم کے ساتھ یومیہ چالیس ہزار کٹیں تیار کررہے ہیں ۔ ان کی کمپنی ممبئی، کولکتہ  اور بنگلور پلانٹس کے پروڈکشن کے ذریعے  پی پی ای کٹوں کی ضرورتیں پوری کررہی  ہے ۔ یہی نہیں ان کی کمپنی  کم قیمت وینٹی لیٹروں کی تیاری میں بھی جٹی ہے جو کلینیکل ٹرائل کے مرحلے میں ہے ۔ اور سرٹیفیکیشن کے مرحلے کی تکمیل کے ساتھ جلد ہی لانچ کیا جائے گا۔

5)  ولساڈ (گجرات) کے نصر اللہ خان اپنے علاقے میں  حسن انتظام اورحسن خدمت کی ملی جلی انوکھی مثال پیش  کررہے ہیں ۔ دی انڈین ایکسپریس نے ان کی منظم خدمات پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔

نصراللہ خان  اپنے علاقے کے 35 دیہاتوں کے کئی مستحق خاندانوں کا واضح اہداف کے ساتھ سہارا بنے ہوئے ہیں۔  وہ ایک صنعتکار ہیں اور واپی میں ان کی الیکٹریکل  پینل مینوفیکچرنگ انڈسٹری ہے ۔ وہ اپنی آمدنی سے تاحال1.1کروڑ روپیے  خرچ کرکے  21000 خاندانوں کوراشن کے ذریعے  سہارا دے چکے ہیں ۔   ان کی ٹیم 70 افراد پر مشتمل ہے ۔ ان میں تمام 35 دیہاتوں کے سرپنچ شامل ہیں ۔ وہ ولساڈ، سورت،  اور واپی کے ہول سیل ٹریڈروں سے راشن خریدتے ہیں ۔ ان کی ٹیم اس راشن اسٹاک کو ضرورت کے مطابق مناسب ترتیب دیتی ہے ۔ ٹیم میں شامل تمام گاؤں کے سرپنچ  اپنے اپنے مقامات کی  تازہ صورت حال اور ضرورتوں کی فہرست لیے  حاضر ہوتے ہیں ۔ اس تجزیے کے بعد روزانہ صبح ٹھیک 9  بجے تین ٹرک نصر اللہ خان کے گودام سے 35 دیہاتوں کی سمت  راشن لاد کر نکلتے ہیں ۔ ان کے ٹرکس اور ٹیم کے پاس ضروری  اجازت نامے (پاس) ہوتے ہیں ۔ موٹا پانڈا گاؤں کے سرپنچ دھیرو بھائی کہتے ہیں  کہ اس گروپ کوانکے حسن انتظام کے سبب  انتظامیہ کا تعاون حاصل ہوتا ہے ۔ نصر اللہ خان کہتے ہیں  کہ آج خدا نے مجھے بہت کچھ  دیا ہے اس لیے میں لاک ڈاون کے ختم ہونے تک یہ کام جاری رکھوں گا ۔مجھے یاد ہے  ہمارے والد نے بڑی مشقت سے ہمار ی پرورش کی  تھی ۔

میں خوب جانتا ہوں کہ  خالی شکم سونا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔   (کمال سید کی رپورٹ، مشمولہ دی انڈین ایکسپریس 1 مئی)

6)خدا خدا کرکے خبر آئی کے دو ماہ سے خالی پڑیں اُن پٹریوں پراب کچھ اسپیشل ٹرینیں دوڑیں گی جنکے سونے پن سے دھوکہ کھا کر کئی مزدور جان گنوا بیٹھے تھے۔ اس خبر نے ان لوگوں کے دل میں امید جگائی جو انجانے شہروں میں پھنسے ہوئے تھے یا سڑکوں پر بھوکے پیاسے چلنے کو مجبور تھے۔ لیکن جب شرمک ٹرینیں شروع ہوئیں تو پٹریوں پرسرکاری بےحسی اور عوامی انسانیت دوستی کی تاریخ متوازی طور پر رقم کرتی چلی گئیں۔ ہر ٹرین کی اپنی داستان ہے۔ خبریں آرہی ہیں کہ کئی دنوں سے خالی پڑے اسٹیشنوں پر سناٹا ہے۔ پانی، غذا، پنکھے، صفائی اور پینٹری کی سہولت سے ٹرینیں محروم ہیں۔کسی ہاکر کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں۔ تاخیر گھنٹوں میں نہیں بلکہ دنوں میں چل رہی ہے۔ دوران سفر اموات کی خبریں بھی آئیں۔ شائد ریلوے کی تاریخ میں پہلی بار ایسا بھی ہوا کہ کئی ٹرینیں سیکڑوں کلومیٹر راستہ بھٹک کر دوڑتی رہیں۔

مولانا آزاد یونیورسٹی کے کچھ طلبا بھی ان ٹرینوں کے مسافر تھے۔انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات اپنے اساتذہ سے شیئر کیے۔ کہتے ہیں کہ ان سخت حالات میں مسافروں کی امیدیں ریلوے ٹریک سے جڑی وہ متوسط بستیاں تھیں جہاں عام محنت کش لوگ ہاتھوں میں فوڈ پیکٹ اور دلوں میں جذبہ خیر لیے ٹرینوں کی سمت دوڑتے۔ پٹری کنارے کئی غریب بستیوں میں لوگ دیگیں چڑھا کر نہ صرف انتظار کررہے ہیں بلکہ یہ تمنا بھی کہ سگنل آف ہو اور ٹرین میری بستی کے سامنے ہی رک جائے۔ کچھ مسافروں نے قیمت ادا کرنی چاہی لیکن ان لوگوں نے بیک آواز لینے سے قطعاً انکار کردیا۔

بنارس کے قریب ایک گاؤں محتشم ہے۔ یہاں ایک غریب بستی کے چھوٹے معصوم بچے بھی بڑوں کے ساتھ اس کارخیر میں شامل ہوگئے۔ اپنے ننھے ہاتھوں میں بسکٹ کے پیکٹ تھامے دوڑ دوڑ کر پریشان مسافروں کو دے کر خوشی سے مسکرانے کا معصوم انداز دیدنی تھا۔ کسی نے پوچھا: بیٹے، تمھیں یہ بسکٹ پیکٹ کس انکل نے دیے؟ رضا کاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہنے لگے: انکل تو ادھر اپنا کام خود کر رہے ہیں۔ یہ پیکٹ تو ہم نے اپنی عیدی کے پیسوں سے خریدے۔ بچوں کے جذبہ خیر کو سلام، ان معصوموں نے بھی اپنی سالانہ عیدی لٹا کر ایک روپیہ بھی لینے سے انکار کیا۔

پوری خوشدلی سے خدمت میں جٹے ان لوگوں کی اکثریت کو پہچاننے کاسرکاری فارمولا بھی آسان تھا۔ کئی تصویریں اور ویڈیو اب عام ہوچکے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ پریشان حال لوگوں کی خدمت اب کیسے گھر گھر کی تحریک بن چکی ہے۔ حیرت تو یہ کہ بروز عید دوڑتی ٹرینوں کے مسافر شیر خرمے سے بھی مستفید ہوئے۔ (ذیشان الٰہی اور دیگر مسافر طلباکے راست مشاہدے پر مبنی رپورٹ بشکریہ ڈاکٹر بدر الاسلام)

7) ” انسانی زندگی، سرحد، ذات، مذہب سے پرے اور بیش قیمت ہوتی ہے۔”

بنتوال (کرناٹک) کے نوجوان محمد کے یہ الفاظ سوشل میڈیا پر پذیرائی پارہے ہیں۔ لاک ڈاؤن اور غربت کے مارے کولاکیرو گاؤں کے نشانت نے خودکشی کے ارادے سے نیتراوتی ندی میں چھلانگ لگادی۔ گہری ندی سے سہمے لوگ شور مچانے لگے۔ تبھی محمد، عارف، سمیر، توصیف اور زاہد نامی پانچ جانبازوں نے یکے بعد دیگر ے ندی میں چھلانگ لگادی۔ اور سخت مشقت کے بعد گہرائی سے نشانت کو کھینچ باہر نکالنے میں کامیابی پائی۔ کنارے لاکر نشانت کی اکھڑتی سانسوں کو بحال کرنے کے لیے عارف نے مصنوعی تنفس کی تکنیک (آرٹیفیشیل ریسپیریشن) کا استعمال کرتے ہوئے بھرپور کوشش کی۔ خوف اور خود غرضی کے ماحول میں ایک انجانے شخص کے منھ میں پھونک مار کر جان بچانے کی کڑی کوشش کرتے اس نوجوان کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر چل پڑی توعوام نے اسے انسانی ہمدردی اور بھائی چارگی کی بے مثل تصویر قرار دیا۔ گرچہ انھیں ان کی انتھک کوششوں میں کامیابی نصیب نہ ہوئی لیکن انکا اجر محفوظ ہوگیا۔ ساحلی کرناٹک کے معروف اخبار وارتھا بھارتی نے ویڈیو کے ساتھ تفصیلی رپورٹ اپنے پورٹل پر جاری کی۔

(وارتا بھارتی، 25 مئی)

8) ٹائمز آف انڈیا نے گجرات سے ایک دلچسپ خبر شائع کی۔

بڑودہ شہرکا 19سالہ چراغ تڑوی کہتا ہے کہ اگر مسلم ہمسایوں کی ہمدردی نصیب نہ ہوتی تو شائد میں لاک ڈاؤن میں بھکمری کا شکار ہوچکا ہوتا۔ اس غریب بستی میں بھائی چارگی کے جذبات کے بل پر جاری کمیونیٹی کچن 700 لوگوں کا سہارا ہے۔ اخبار کے مطابق اپنے محسنین سے اظہار یگانگت کے طور پر تڑوی اور انکے تمام دوستوں نے 27 رمضان کے موقعہ پر روزے کا اہتمام کیا۔ اروند کہتا ہے کہ میں اپنے ہمسایوں کا احسان آخری سانس تک نہیں بھول سکوں گا۔ آج انکی 13 سالہ لڑکی نے بھی روزے کا اہتمام کیا۔ شنکر کہتے ہیں کہ” اگر یہ کمیونٹی کچن نہ ہوتا تو میرا کنبہ بھکمری کا شکار ہوچکا ہوتا۔ روزے کے دوران میں چار بجے تھک کر نڈھال ہوگیا۔ لیکن میں نے عزم کیا تھا اور اپنا روزہ مکمل کیا۔”

مشتاق کھتری نامی ایک کسان کی کوشش نہ جانے کتنے لوگوں کا سہارہ بنی اور بھائی چارگی کا درس دے گئی۔ آج یہ لوگ روزہ رکھ کر اظہار تشکر کررہے ہیں۔ ( جئے پچیگر کی رپورٹ، مشمولہ ٹائمز آف انڈیا 24 مئی )

9) حیدرآباد سے چلے مزدوروں کے کچھ قافلے اپنے گھر اڑیسہ پہنچ گئے۔ وہ اپنے گھروں سے اپنے خاندان کے بیچ ٹھہر کرمسکراتی سیلفیاں جذبہ تشکر کے ساتھ خالدہ باجی کو بھیج رہے ہیں۔

خالدہ پروین(المعروف خالدہ باجی)، حیدرآباد کی بیدار ذہن عوام کے لیے نہایت جانا پہچانا نام ہے۔خالدہ باجی کے اسائنمنٹ کی فہرست ختم نہیں ہوسکتی۔ خدمت کا ایک مرحلہ ختم ہوا اور دوسرا شروع۔ مزدوروں کے سفر کے انتظامات اور رمضان کے دوران سیکڑوں ضرورت مندوں کے سحر و افطار کا نظم خالدہ پروین صاحبہ کی خدمت کا رواں سلسلہ ہے۔ انکے معاونین اور والنٹیرس میں بڑی تعداد برادران وطن کی ہوتی ہے۔ انکی خدمات کی افادیت تسلیم کرتے ہوئے عظیم پریم جی فاؤنڈیشن نے 5 لاکھ روپیے کا عطیہ دیا۔ کئی تنظیموں نے انھیں اعزازات سے نوازا۔

10) یہ عوامی جذبہ خیر اب عام ہوتا جارہا ہے۔جو ٹویٹر پر بھونچال اور گودی میڈیا پر سکتے کا سبب بن رہا ہے۔

انھیں انسانیت نواز تصویروں پرمبنی ایک حالیہ ٹویٹر سیلاب نے ٹاپ ٹرینڈ پر جگہ بنالی۔ کچھ دلچسپ پیغامات ملاحظہ فرمائیے۔

” بہت ساری تصویریں اور ویڈیو دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس مہاماری ( وبا ) میں مزدوروں کو گھر پہنچنے میں اور ان تک بھوجن (غذا) پہنچنے میں زکوٰۃ نے بہت بڑی بھومیکا (کردار) نبھائی۔ ویسے یہ مسلمانوں پر فرض ہے پر اسکا پالن (ادائیگی) سب کو کرنا چاہیے۔ اگلی بار سے میں بھی ڈھائی فیصد انکم کا چیریٹی کروں گا۔ ” ( پرشانت کنوجیا۔ معروف صحافی اور دی وائر کے سابق ایڈیٹر )

” ہر سال نصف ٹریلین ڈالر کا خطیر عطیہ ماہ رمضان میں دیا جاتا ہے۔ یہ دنیا کی دولت کی منتقلی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو امیروں سے غریبوں کی طرف دولت منتقل کرتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی واضح اور مفصل سسٹم ہے جسے زکوٰۃ کہا جاتا ہے۔ عید مبارک سماجی انصاف کی خاطر اپنی دولت کو قربان کرنے کے جذبہ خلوص اورجذبہ بندگی سے سرشار ایک مقدس ماہ۔” ( کونڈا ویشویشور ریڈی۔ سابق ایم پی تلنگانہ )

جاری…………

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×