اسلامیاتسیاسی و سماجی

مسلمانوں کی بد حالی کا سبب

ملت اسلامیہ آج جن حالات اور مصائب و مشکلات کا شکار ہے اور جن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے تاریخ کے ایک عجیب دور سے ہم گزر رہے ہیں باوجودیکہ اس کے حل کے لئے مختلف طرح کی کوششیں اسباب اور طرح طرح کی تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں ۔ مگر پھر بھی ساری تدبیریں کار گر ثابت نہیں ہو رہی ہیں ۔
آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟
کیا ہم نے کبھی اس پر غور وفکر کرنے کی زحمت کی ‌‌؟
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ پوری دنیا میں صرف مسلمان ہی کیوں حالات کا شکار ہیں ؟
ظلم و ستم کا ننگا ناچ مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے ؟
جب ہم اس پر غور وفکر کریں گے تو معلوم ہو گا کہ ہماری بد اعمالیاں اور بد کرداریاں اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ،
آۓ دن مسلمانوں پر فسادات کے ذریعہ وحشتناک ظلم ڈھایا جاتا ہے ، ان کے ساتھ درندگی اور بربریت کا معاملہ کیا جاتا ہے ، ان کی عزتوں سے کھیلا جاتا ہے ، ان کی معیشت کو تباہ وبرباد کیا جاتا ہے ، گھروں کو لوٹا اور دکانوں کو جلایا جاتا ہے ، کبھی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی جاتی ہے ، کبھی مسجدوں کو مندر اور چرچ میں تبدیل کیا جاتا ہے ،
لیکن ۔
ہم لوگ ان چیزوں کو محض اتفاق سمجھتے ہیں اور ان کے اسباب و علاج کی طرف دھیان بھی نہیں دیتے ، ضرورت ہے کہ ہم قرآن وحدیث میں اس کا حل اور علاج تلاش کریں ، ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس عالم کائینات میں کوئی بھی چیز از خود اور اتفاق سے نہیں ہوتی ، بلکہ وہ منجانب اللہ ہوتی ہے اور ظاہر میں اس کے کچھ اسباب بھی ہوتے ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث پاک میں بیان فرمایا ہے ،
آج ہر شعبہ زندگی میں جو بحران نظر آرہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بلند اخلاقی اقدار سے منہ موڑ لیا ہے اور سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا ہے کہ انسانوں نے اپنے مذاہب کے پاکیزہ اصولوں ، خاص طور پر مسلمانوں نے اسلام کی روشن ہدایات سے روگردانی اختیار کر لی ہے، جس کی وجہ سے زندگی کے تمام شعبے بحران کے شکار ہیں ، اور آپ کو ایک جگہ  بھی ایسی نہیں ملے گی جہاں انگلی رکھ کر کہہ سکیں گے کہ یہاں کوئی برائی نہیں ہے ،
عصر حاضر میں انسانوں کے سامنے جو بڑے بڑے مسائل پیدا ہو گئے ہیں ان میں ایک بڑا مسئلہ مادیت پرستی ہے کہ آج نفسانفسی کا عجیب عالم ہے ، پہلے لوگ ایک دوسرے کا غم بانٹتے تھے ایک دوسرے کے دکھ درد میں کام آتے تھے مگر آج کی مادی زندگی نے ساری انسانی قدروں کو پامال کر دیا ہے ، اخلاق کا دیوالیہ نکل گیا ہے ، روحانی قدریں ایک ایک کرکے مٹ رہی ہیں ، تہذیب و شرافت زندگی سے رخصت ہوتی جا رہی ہے ،
عصر حاضر کی پوری تہذیب ہی بے خدا ہوکر رہ گئی ہے، آج مذہب بھی فقط کلچر کا حصہ بن کر رہ گیا ہے ، عملی زندگی میں انسان مذہب پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتا بس اس ماضی کی ایک چیز سمجھتا ہے ، آج کا انسان بغیر خدا کے حوالہ کے اور بغیر وحی الہی کے اور بغیر کسی مذہبی، روحانی اور اخلاقی روایت کے زندگی گزار لینا چاہتا ہے ۔
تہذیب جدید کا نعرہ کہ زندگی تھوڑی سی ہے لہذا کھل کر عیش کرلو ، اور دادعیش دے لو اس کے بعد نہ کوئی زندگی ہے اور نہ کوئی حساب وکتاب ، نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کا آوے کا آوا ہی بگڑ کر رہ گیا ہے اور بالکل وہی تصویر سامنے آگئی ہے جس کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے ۔ ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملو ا لعلھم یرجعون ۔
خشکی اور تری فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھ کی کمائی کے باعث تاکہ ہم ان کو کچھ ان کے کرتوتوں کا مزہ چکھا دیں شاید کہ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی نگہبانی اور مہربانی سے جو ہمیشہ اس کی طرف سے بندوں پر ہوتی رہتی ہے کسی قوم کو محروم نہیں کرتا جب تک وہ اپنی روش اللہ تعالیٰ کے ساتھ نہ بدلے ، اور جب کوئی قوم اپنی روش خود بدل لیتی ہے تو خدا کی طرف سے آفت آتی ہے پھر کسی کے ٹالے نہیں ٹلتی اور نہ کوئی مدد اس وقت کام آتی ہے ،
تاریخ شاہد ہے کہ جب تک مسلمان خدا تعالیٰ کے قانون کے مطابق چلتے رہے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے حکم کے تابع کر رکھا تھا اس وقت تک دنیا میں مسلمانوں کا عروج تھا ، مسلمان فاتح قوم کہلایا جاتا تھا ، مشرق و مغرب میں ان کا سکہ چلتا تھا ، دنیا کی سپر طاقتیں ان کے مقابلے میں زیرو کے درجہ میں تھیں ، قیصر و کسریٰ کا دبدبہ جو چہاردانگ عالم میں گونج رہا تھا مسلمانوں کا نام سن کر ان کے تاج و تخت لرز اٹھے ، انسان تو انسان جانور تک ان کی فرمانبرداری سے انحراف نہیں کرتے تھے ، آخر ہم بھی تو مسلمان ہیں ہمارا بھی قرآن کا کلام الٰہی ہونے پر یقین ہے ، ہم بھی اللہ اور رسول کو مانتے ہیں ، پھر کیا اسباب و عوامل ہیں کہ ہم ذلت و پستی کے غار میں چلے گئے؟ اور ہماری حیثیت سمندر کے جھاگ اور پانی کے بلبلوں کے مانند ہو کر رہ گئی اربوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود کوئی عزت ووقار نہیں ، کوئی رعب و دبدبہ نہیں ،
یاد رکھیں ۔
جب سے مسلمانوں میں عیش و عشرت ، خواہشات نفسانی کی پیروی کا سلسلہ شروع ہوا ، اور اللہ تعالیٰ کے احکام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا پاس و لحاظ نہیں رہا ، اسلامی تہذیب و تمدن معاشرہ سے ختم ہوتا گیا ، مسلمان ہر طرح سے پریشانی میں مبتلا ہو نے لگے ۔
اس وقت پوری دنیا میں مسلمان پریشان کیوں ؟
مسلمانوں پر ہر طرف سے مظالم کیوں ڈھاۓ جارہے ہیں ، ایشیاء کے کسی ملک میں کوئی قوم پریشان ہے اس کا نام مسلمان ہے ،
یورپ افریقہ، امریکہ ،یوگوسلاویشیشان ،چیچنیاند،فلسطین
کہیں بھی کوئی قوم پریشان ہے اس پر طرح طرح سے مظالم کئے جارہے ہیں پتہ چلے گا کہ اس کا نام مسلمان ہے ،صومالیہ میں مسلمان خانہ جنگی کا شکار ہیں ، افغانستان میں مسلمان آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں ،
یہ سارے مسائل جو پوری امت مسلمہ کو درپیش ہیں ، ان کے سبب پر جب غور کرنے کی نوبت آتی ہے تو جن لوگوں کے دلوں میں ایمان کی ذرہ برابر بھی رمق ہے ، وہ لوگ غور کرنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ان مصائب وآلام کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم دین کو چھوڑ بیٹھے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے ، اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنی چھوڑدی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اتباع کرنا چھوڑ دیا ہے ،اور بد اعمالیوں میں مبتلا ہو گئے ہیں اس کے نتیجے میں یہ آفتیں ہمارے اوپر آرہی ہیں ، اور یہ بات بالکل درست ہے اس لئے کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے ،
۔ ما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت اید یکم و یعفوا عن کثیر ۔
یعنی جو کچھ مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ سب تمہارے ہاتھوں کے کرتوت کا نتیجہ ہو تی ہے ،اور بہت سارے تمہارے اعمال بد ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف فرما دیتے ہیں ان کی کوئی سزا تمہیں نہیں دیتے لیکن بعض بد اعمال ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی سزا اس دنیا کے اندر ان مصیبتوں کی شکل میں دی جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب ہم آپس میں بیٹھ کر امت مسلمہ کے ان مصائب کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں تو مشکل ہی سے شاید ہماری کوئی مجلس اس تذکرے سے خالی جاتی ہو گی کہ ہم سب بد اعمالیوں کا شکار ہیں ، بد عنوانیوں کا شکار ہیں ، گناہوں کے اندر مبتلا ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو چھوڑا ہوا ہے ، یہ ساری مصیبتیں ان بد اعمالیوں کا نتیجہ ہیں ، لیکن یہ سارا تذکرہ ہونے کے باوجود یہ نظر آتا ہے کہ پرنالہ وہیں گر رہا ہے اور حالات میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی ۔
آج کے اس پر فتن اور مہیب دور میں مغربی تہذیب کا سیل رواں پورے ملک کو غرق مئے ناب کئے ہوئے ہے ، بے حیائ و بے حجابی اور عریانیت و فحاشیت مسلم سماج کو اپنی زد میں لئے ہوئے ہے ، ہر طرف نغموں کے زیروبم ہیں ، زلفوں کے پیچ و خم ہیں ، اور فتنے قدم قدم پر ہیں ، جدھر رخ کیجئے وصل کی بے پردہ تصاویر حیا باختہ اور شہوت انگیز اشتھارات زینت درودیوار ہیں ، بد کاری اور سیہ مستی کے مراکز آباد ہیں ، حسن کی بے حجابی اور لہراتی اور بل کھاتی ہوئی زلف عنبریں آفت ایمان بنی ہوئی ہے ، فحش اور حیا سوز سائٹس نوجوانوں کی عفت و عصمت اور حیا و پاکدامنی پر ڈاکہ زن ہے ،
الغرض کون ایسی برائی ہے جو مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی ہے ۔
آج مسلم سماج ہزار ہا برائیوں اور ہلاکت خیز بداعمالیوں کا شکار ہوکر گناہوں کے سمندر میں ڈوب گیا ہے اور غفلت کے شبستان میں خواب خرگوش کا لطف اٹھا رہا ہے برائی ایک ہو تو اس کا ذکر کیا جائے ۔ آج تو ہر ذلیل کام سردار مسلمان ہے ، ہر رذیل حرکت کا موجد مسلمان ہے ، شراب نوشی ہمارا کام ، رشوت خوری ہمارا فعل ، جوۓ بازی ہمارا عمل ، ویڈیو فلم سے ہماری دلچسپی ، ناچ گانا ہمارا شیوہ ، گالی گلوج ہمارا خاصہ ، غیبت و چغلی ہمارا نشان ، غرضیکہ جملہ برائیاں ہماری علامت و فطرت بن چکی ہے ،
انہیں وجوہ کی بنا پر مشہور مغربی مفکر  ۔  جارج برنارڈ شا  ۔ نے اپنی کتاب اسلام اور مسلمان میں لکھا تھا کہ دنیا کا سب سے اچھا مذہب اسلام اور دنیا کی سب سے بدتر قوم مسلمان ہے  ۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آج ہم جس مصائب و مشکلات میں گرفتار ہیں یہ سب ہمارے ہی افعال و کردار کی سزا ہے ، ماضی میں ہماری کیا حیثیت تھی اور آج ہماری کیا پوزیشن ہے ،
ہمارے اسلاف صرف کلمہ طیبہ ۔ لا الہ الااللہ محمدرسول۔ پڑھ کر سارے عالم میں معزز و مکرم تھے ، لیکن آج ہماری پسماندگی و تنزلی کا سبب صرف یہ ہے کہ ہم نے تعلیمات قرآنی اور احکام خداوندی سے رو گردانی کرلی ہے ، اور جس دور میں بھی جس کسی قوم نے تعلیمات قرآنی سے اجتناب و احتراز کیا اسے قعر مذلت اور انحطاط کی کھائی میں گرنا پڑا ، اور وہ قوم پستی و گمنامی کی اس آخری حد کو پہنچ گئی جہاں سے کسی قوم کو بھی عروج و عظمت کے نگار خانوں کی طرف لوٹتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ،
ہم مسلمانوں نے قرآن وحدیث کی مقدس تعلیمات کو بھلا دیا اور یہود ونصاری ، کفار و مشرکین کے طریقوں پر چل پڑے ، نتیجہ یہ ہوا کہ ذلت ورسوائی تباہی و بربادی ، ہلاکت و پسماندگی ہماری تقدیر بن گئی ،اور دنیا میں ہم سب سے پچھڑے ،رذیل ، بے یار و مددگار ، اور ذلیل وخوار سمجھے جانے لگے ،  کیوں ؟ صرف اس لئے کہ ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر ۔
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر  ۔
 اعمال کی اصلاح ۔
 بحیثیتِ مسلمان ہم یہ ذہن نشین کرلیں کہ اسمانی فیصلے ہمیشہ انسان کی اعمال کی بنیاد پر ہوتے ہیں اگر انسان کے اعمال اچھے اور نیک ہوں تو آسمان سے اچھے فیصلے اترتے ہیں ، اور اگر انسان اعمال خراب اور فاسد ہوں تو برے فیصلے آسمان سے اتر تے ہیں اگر ہم آج بھی ان تمام غلط اور نازیبا حرکتوں سے باز آکر احکام شرعیہ پر اچھی طرح عمل کرنا شروع کردیں تو انشاءاللہ ہم کو پھر وہی عزت و شرافت ، عظمت و بلندی ، عروج و ارتقاء اور شان وشوکت حاصل ہو سکتی ہے جیسی کہ عہدِ ماضی میں تھی ، مگر اس کے لئے شرط ہے کہ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا اور اللہ ورسول کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنا ہوگا ، کیوں کہ؟
۔ ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما با نفسھم ۔
اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ اپنی حالت وہ خود نہ بدلے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کو صحیح بات سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے آمین ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×