سیاسی و سماجی

گاندھی ہاسپٹل میں ڈاکٹروں کا احتجاج؛ لمحہ فکریہ

تلنگانہ کی سرکاری زبان تلگو کے اخبارات میں گاندھی اسپتال ڈاکٹرز کے احتجاج سے متعلق خبریں نہیں کے برابر شائع ہوئی ہے۔ اسی طرح اردو اخبارات نے بھی اس قضیہ سے متعلق خبروں کی اشاعت کے لیے دور دراز کے خبر رساں اداروں پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اردو اخبارات نے تو ایک جونئیر ڈاکٹر پر کووڈ۔19 سے فوت شدہ لواحقین کی جانب سے حملے کو اپنی خبروں کی سرخی بنائی ہے اور اسی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ جس سے معاملہ کا رخ دوسری طرف موڑ سکتا ہے۔ یقیناً ڈاکٹرز پر حملہ ناقابلِ برداشت اور قابل سزا ہے۔ جس نے بھی ایسے حرکت کی ہے، اسے قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔

کل 10 جون 2020 ، چہارشنبہ کو دن بھر جو احتجاج ہوا۔ اس کی وجہ دوسری ہے۔ احتجاج کے دوران ڈاکٹرز نے جو پوسٹرز تھامے رکھا اور جن ڈاکٹرز نے سامنے آکر بات کی۔ اس سے احتجاج کی وجہ کھل کر سامنے آئی ہے۔ اردو اور تلگو کے اخبارات نے اتنی بھی جرات نہیں کی کہ ڈاکٹرز نے جو پوسٹر تھامے رکھا، اسے ہی شائع کیا جائے۔ تاکہ عوام تک صحیح معلومات پہنچ سکے۔ جب کہ انگریزی اخبارات کے نمائندوں نے مقام واقع پر پہنچ کر اور متعلقہ ڈاکٹرز سے بات چیت کرکے ان کے اقتباسات نقل کیے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا نے اس واقعے کے کوریج کو پہلے صفحہ پر جگہ دی ہے۔ یہ اخبار انتظامیہ کی پالیسی ہے کہ جس خبر کو جہاں چاہے اور جیسے چاہے پیش کرے، مگر بات یہ ہے کہ اس سے کہیں نہ کہیں حکومتی دباؤ کا اثر بھی دکھتا ہے۔ جس سے ہوگا یہ کہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے جوں کا توں برقرار رہے گا۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کا احتجاج ڈاکٹرز کو نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اس سے مریضوں کے علاج و معالجہ، تشخیص، دیکھ بھال اور توجہ دہانی میں خلل آسکتا ہے۔ یہ احتجاج تو منگل 9 جون کی رات سے شروع ہوا۔ لیکن مریضوں اور ان کے متعلقین کی شکایتیں اس سے قبل بھی آنا شروع ہوچکی تھی۔ تب تو احتجاج نہیں چل رہا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح مریضوں کی تعداد بڑھتی جائے تو ڈاکٹرز کی قلت ہوگی ہی۔ ایک طرف مریضوں کی عدم توجہ والی شکایت ہے تو دوسری طرف ڈاکٹرز کی بغیر کسی وقفہ کے لگاتار اپنی خدمات جاری رکھنے کی بھی شکایت ہے۔ کیا ڈاکٹرز وقفہ نہیں لے سکتے؟ کیا انہیں ذہنی سکون کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا وہ اپنے دورانیہ سے بھی زائد محنت کرنے کے بعد سکون نہیں لے سکتے؟ کچھ ڈاکٹرز نے تو یہاں تک شکایت کی ہے کہ انھیں صبح صبح اپنی ڈیوٹی شروع کرنے سے لے کر شام تک ناشتہ تک نہیں دیا جارہا ہے۔ ان ڈاکٹرز کا یہ بھی کہنا ہے کہ چار کروڑ کی آبادی پر صرف ایک ہی کووڈ-19 اسپتال کیوں ہے؟ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کا گاندھی اسپتال کے علاوہ دوسرے اسپتالز میں علاج ہونا چاہیے۔ ڈاکٹرز تو عام حالات میں اونچی آواز سے تک بات نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور انہیں احتجاج کا سہارا لینا پڑا۔

دہلی میں تو معاملہ ہی الگ ہے۔ وہاں مقامی اور غیر مقامی مریضوں کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اس پر زبردست سیاست ہورہی ہے۔ ایک تازہ خبر یہ ہے کہ دہلی کے کستوربا اسپتال ریذیڈنٹ ڈاکٹرز اسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر سنیل کمار کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کو گزشتہ تین ماہ سے تنخواہ ادا نہیں کی گئی ہے۔ اگر ایسا ہی رہا تو وہ بڑے پیمانے پر استعفیٰ دے سکتے ہیں۔

بہر حال کورونا وائرس کا بحران خود مریضوں کے رویہ، ڈاکٹرز کی خدمات اور پورے نظام صحت پر ازسر نو غور کرنے کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ ڈاکٹرز مریضوں کے لیے مسیحا کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن کیا حکومت ڈاکٹرز کے درد کا مداوا کر پائی گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×