اسلامیات

طلاق کا حق صرف مرد کو ہی کیوں ، عورتوں کو کیوں نہیں؟

عام طور پر غیر مسلم برادران بلکہ اعداء و دشمنان دین کی طرف سے یہ سوال اٹھایاجاتا ہے کہ اسلام برابری کا قائل نہیں ہے، اسی لئے اسلام میں طلاق کا حق صرف مردوں کو ہے جبکہ عورتوں کویہ حق نہیں دیا گیا، اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ جس طرح نکاح میں ایجاب یا قبول لڑکی کی طرف سے نہ ہو تو نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے، تو پھر طلاق میں اس کی مرضی پوچھے بغیر کیوں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔
یہ اور اس طرح کے اعتراضات پہلے بھی کئے جا چکے ہیں، اور اس کا مسکت جواب بھی علماء اہل حق نے دیا ہے، لیکن آج میں یہ تحریر صرف غیر مسلم برادران کے لئے نہیں بلکہ خود مسلمانوں کے لئے لکھ رہاہوں جن کے دل ودماغ میں بھی اس طرح کے شکوک وشبہات نے جگہ بنا رکھی ہے اور سوشل میڈیا اور دیگر جگہوں پر اپنے اعتراضات وہ خود بھی درج کراتے رہتے ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ اسلام نے عورتوں پر کوئی ظلم نہیں کیاہے، بلکہ ان کی خلقت کا اعتبار کرتے ہوئے تمام حقوق دیا ہے، جن میں سے کچھ مشترک اور برابری کے ہیں، مثلاً بحیثیت انسان عورت کو جو عزت وشرافت اور وقار اسلام نے دیا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، چنانچہ جب عورتوں کو زندہ در گور کیا جارہاتھا تو اسلام نے زندہ رہنے کا حق دیا، میراث میں ترکہ کا حق نہیں مل رہا تھا تو اسلام نے ترکہ میں حق دیا، سماج میں عورت کو کام کاج کی مشین سمجھاجاتا تھا، اسلام نے اسے بحیثیت بیٹی کے باپ کے گھر کی زینت اور برکت بنایا، بحیثیت ماں کے ان کے قدموں کے نیچے جنت عطا کی ، بحیثیت بیوی کے ان کو گھر کا ملکہ بنایا اور مالی ذمہ داریوں سے بالکلیہ فارغ کردیا اور نان ونفقہ ، رہاش وآسائش کے نظم کی ذمہ داری شوہر کے گاندھے پر رکھی، عورت کے جتنے روپ ہوسکتے ہیں ہر روپ میں اسلام نے اسے مالی ذمہ داری سے آزاد رکھا، سماج میں عورتوں کو تعلیم کا حق نہیں تھا اسلام نے انہیں نہ صرف تعلیم کی اجازت دی بلکہ میدان علم وعمل میں اپنا لوہا منوانے کی ترغیب دی، انسانوں کے بنائے ہوئے قانون ’’ستی‘‘ کے ذریعہ زندہ عورتوں کو مردہ شوہر کی لاش کے ساتھ جلادیا جاتا تھا، اس قانون کو اسلام نے ختم کرکے اسے آزادی کی زندگی عطا فرمائی، اسلام عورتوں کا مخالف نہیں بلکہ ان کا محافظ ہے اور ان کے حقوق کا پاسدار ہے۔
جہاں تک بات ہے طلاق کی کہ مرد کوکیوں حق طلاق دیا گیا، عورتوں کو کیوں نہیں ؟ اس سوال کا جواب پیش ہے:
۱۔ قرآن کریم کی آیات اور احکامات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ طلاق کی حفاظت مردوں کے ہاتھ میں ہے، اور مرد ہی اس کا حق رکھتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: {الذی بیدہ عقدۃ النکاح} (شوہر ) وہ شخص ہے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، لہذا جس کے ہاتھ میں گرہ ہو ،اس کو کھولنے یعنی طلاق کا حق بھی اسی کو ہوناچاہئے ، یہ تو عقل بھی کہتی ہے کہ دوسرا کیوں کر گرہ کھولے گا۔
۲۔ شوہر حاکم ہے اور بیوی محکوم ، اور یہ اس وجہ کہ شوہر ، بیوی کے نان ونفقہ کا ذمہ دار ہوتا ہے؛ اس لئے کسی بھی معاملہ میں فیصلہ کا حق تو حاکم کے پاس ہی ہونا چاہئے، محکوم کے پاس نہیں۔
۳۔ مرد جسمانی قوت وطاقت میں عورت سے کئی گنا زیادہ طاقت ور ہوتا ہے، اگر عورت کو طلاق کا حق دیدیا جاتا ، تو پھر شوہر اپنی طاقت اور بَل کا استعمال کرتا ؛چنانچہ ایسی صورت میں شوہر اس سے چھٹکارہ پانے کیلئے اسے قتل تک کرنے کی سازش کرتا، جیسا کہ آج ہندو سماج میں آئے دن اس طرح کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

۴۔ شوہر عقل وشعور اور ہوش وحواس میں کامل ہوتا ہے، معاملات کی دور اندیشی مردوں میں زیادہ ہوتی ہے، جبکہ بیوی کم عقل، فکر ونظر کی کوتاہ، اور جذبات کی رو میں بہہ جانے والی ہوتی ہے، لہذا مرد اپنی زندگی کا اچھا اور برا فیصلہ جتنا صحیح کرسکتا ہے، عورتیں نہیں کرسکتی ہیں، دیکھا گیا ہے کہ مرد کسی مشکل امر کو حل کرنے میں عقل کو فوقیت دیتا اور جذبات کو پیچھے رکھتا ہے، جب کہ عورتیں جذبات کو آگے رکھتی ہیں اور عقل کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں، بہت ضروری ہوا تو مرد طلاق دیتا ہے، ورنہ عورت کو حق دیدیا جاتا تو ہر لمحہ طلاق کی گولیاں چلتیں۔

۵۔ اللہ تعالی نے چونکہ مردوں کو مالی ذمہ داری دے رکھی ہے ، عقل کا تقاضہ ہے کہ جو مالی حقوق کا ذمہ دار ہو وہی طلاق کا حق بھی رکھتا ہو، جب کہ عورتوں کو مالی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا گیا ہے، یہاں تک کہ خود ان کے نفس کا نفقہ بھی ان کے ذمہ نہیں ہے، میراث میں جس ترتیب سے وارثین ہوتے ہیں ان کو عورتوں کے نان ونفقہ کا ذمہ دار بنایاگیا ہے، اگر عورتوں کو حق طلاق دیدیا جاتا تو پھر عقد نکاح کی حفاظت وہ نہیں کرپاتی کیوں کہ مالی ذمہ داری عائد نہ ہونے کی وجہ سے جیسے پہلا نکاح آسان تھا، دوسرا نکاح اسی طرح آسان ہوگا، اور اس طرح عورتیں نکاح کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی رقم مہر دین اور نفقہ ایام عدت کو حاصل کرنے کے لئے طلاق کو بہانہ بناتی اور نکاح ، نکاح کم اور کاروبار زیادہ ہوجاتا۔
رہی بات طلاق کے صحیح ہونے کے لئے عورت کی رضامندی کو اسلام نے کیوں ضروری قرار نہیں دیا، جبکہ نکاح کے لئے اس کی اجازت کو ضروری قرار دیا گیاہے، اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح میں عورت سے پوچھنا اور اس کی رضامندی کے بغیر نکاح کو کالعدم قراردینا ہی خود ان خواتین کی عزت وشرافت کی دلیل ہے، جو کہ اسلام نے اسے عطا کی ہے، ورنہ اسلام سے قبل عورتوں کی مرضی کے بغیر اولیا اور سرپرست ان کا نکاح کردیا کرتے تھے اور عورتوں کو اس پر چوں چراں کرنے کا حق نہیں رہتاتھا، اسے قبول کرنا ہی بہر صورت ضروری تھا، ان کے مزاج اور فطرت کو دیکھتے ہوئے شریعت نے طلاق کا حق اسے نہ دے کر بھی شریعت نے خواتین پر احسان کیا ہے، لہذا یہ ظلم نہیں بلکہ عورتوں کے ساتھ شریعت اسلامیہ کا عدل ہے۔
اسلام کا یہ تصور اور عدل بالکل صحیح اور درست ثابت ہوا، چنانچہ مغربی عیسائی ممالک میں طلاق کا تصور ہی نہیں تھا، لہذا ازدواجی زندگی کے مشکلات کے حل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں قانون طلاق لانا پڑا اور طلاق دینے کا حق مردو عورت دونوں کو دیدیا گیا، اس کی وجہ سے شرح طلاق میں اتنا زیادہ اضافہ ہوا کہ وہ ناقابل بیان ہے، ازدواجی زندگی کے تانے بانے بکھر گئے، طلاق کی شرح اتنی زیادہ ہوگئی کہ نکاح کم ہورہے ہیں اور طلاقیں زیاد ہورہی ہیں۔
جو اسلام عورتوں کے لئے یہ نظریہ پیش کرتا ہو وہ بھلا کیوں کر ازواجی زندگی میں ان کے اوپر ظلم کو روا رکھے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×