عالمی خبریں

افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کے لیے مسلم امہ اور عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے

اسلام آباد: 19؍دسمبر (ذرائع) اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان کا معاشی بحران خطے کے لیے تباہ کن ہو گا۔

افغانستان کی صورتحال پر سعودی عرب کی تجویز اور پاکستان کی میزبانی میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کے وزرا خارجہ کی کونسل کا 17واں غیر معمولی اجلاس اسلام آباد میں جاری ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی عوام کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے اور یہ اجلاس افغانستان کے لوگوں سے آگاہی کے لیے ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس افغانستان کی بقا کے لیے اہم ہے کیونکہ افغانستان کا معاشی بحران خطے کے لیے تباہ کن ہو گا۔ 40 سال قبل بھی پاکستان نے افغانستان کے لیے اسی طرز کا اجلاس بلایا تھا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام افغانستان میں خوراک کے مسئلے کی نشاندہی کر چکا ہے اور پاکستان ایک بار پھر افغانستان میں انسانی بحران کے حل کے لیے سرگرم ہے۔ دنیا کو تمام چیزوں سے بالاتر ہو کر افغان مسئلے پر آگے بڑھے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کے لیے امہ اور عالمی برادری اپنا کردار ادا کرے۔ پاکستان نے بھارت کو افغانستان گندم اور ادویات پہنچانے کے لیے سہولت دی۔ اس وقت افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔

انہوں نے پاکستان کی طرف سے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ او آئی سی کے اندر ہی ایک ایسی راہ نکالی جائے جس سے افغانستان کو مطلوبہ مالی اور انسانی امداد او آئی سی کے ممبرز یا دیگر ڈونرز کی طرف سے با آسانی پہنچائی جا سکے۔

دوسرا یہ کہ ہمیں افغانستان کی عوام میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانی ہو گی جیسا کہ افغان نوجوانوں کی تعلیم، صحت اور تکنیکی مہارت بڑھانے کے لیے۔

تیسرا یہ کہ ایک گروپ تشکیل دیا جائے جس میں او آئی سی، اقوام متحدہ اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ماہرین شامل ہوں اور جو افغانستان کی قانونی بینکنگ سیکٹر تک رسائی ممکن بنائے۔

چوتھا یہ کہ ہمیں افغان عوام کے لیے خوراک کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ اسلامی تنظیم برائے تحفظ خوراک کو اس عمل کی رہنمائی کرنی چاہیے۔

پانچواں یہ کہ افغان اداروں کی صلاحیت بڑھائی جائے کہ وہ دہشت گردی اور غیر قانونی تجارت کی روک تھام کر سکیں۔

اپنے خطاب کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ ہم افغان حکام کے ساتھ رابطہ رکھیں اور ان کی مدد کریں تاکہ وہ بین الاقوامی برادری کی توقعات کو پورا سکیں۔ خاص کر سیاسی اور سماجی امور میں تمام مکاتب فکر کی شمولیت۔ انسانی حقوق خصوصی طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی پاسداری اوردہشت گردی کے خلاف جنگ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×