اسلامیات

شب قدر؛ خدا کا بے مثال انعام

ماہ رمضان اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ عشرہ رحمت اور عشرہ مغفرت کو مکمل کرچکا ہے اور بہت سے مسلمان اس ماہِ مبارک کو گذشتہ سالوں کے رمضان سے بہتر گذارنے کی کوشش کرتے نظر آئے ہیں تو وہیں بہت سارے اپنی پرانی روش پر اب بھی قائم ہیں، لیکن ان لوگوں کے لیے ابھی ایک موقع جو خداوند عالم نے انہیں دے رکھا ہے وہ رمضان کا عشرہ اخیرہ اور اس میں ہزار مہینوں سے افضل رات کی تلاش ہے،اور اعتکاف کے مقاصد میں ایک عظیم ترین مقصد شب قدر کی تلاش بھی ہے اس کو بہتر بنا کر رمضان کی مبارک ساعتوں کو اپنے لیے مغفرت اور رحمت کا ذریعہ بناسکتے ہیں۔

شب قدر؛خدا کا بے مثال انعام
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ماہ رمضان ماہ غفران ہے اور اسلام کا دستور حیات قرآن کریم اس ماہ میں نازل ہوا،اس مہینے میں ایک فرض ادا کرنے سے ستر فرائض کا ثواب اور ایک نفل ادا کرنے سے ایک فرض کا ثواب حاصل ہوتا ہے،روزہ کی حالت میں کی گئی دعا بارگاہ الٰہی میں رد نہیں کی جاتی، اس مہینہ کے اخیر عشرہ میں شب قدر ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جس میں ایک لمحے کی عبادت سالہا سال کی عبادت کے مانند ہے جس میں رب کائنات کی جانب سے مغفرت کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور بے شمار انسانوں کو مغفرت کا پروانہ عطا کیا جاتا ہے،گویا ایک مسلمان کے لئے یہ مہینہ اور اسکا آخری عشرہ ایک ایسا انعام ہے جس کی عظمت اور قیمت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
شب قدر در اصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے دینی اعمال سے محبت اور رغبت کا صلہ ہے چنانچہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ نے بنی اسرائیل کے چار حضرات ، حضرت ایوب علیہ السلام ، حضرت زکریا علیہ السلام ، حضرت حزقیل علیہ السلام ، حضرت یوشع بن نوع علیہ السلام کا ذکر فرمایا کہ ان حضرات نے اسیّ اسیّ برس اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اس کی نافرمانی نہیں کی ، اس پر صحابۂ کرام کو تعجب ہوا ۔ فورا ہی حضرت جبرئیل علیہ السلام حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ کی امت کو ان حضرات کے اسیّ اسیّ برس عبادت کرنے پر تعجب ہو رہا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر چیز بھیجی ہے۔چنانچہ آپ نے سورۃ القدرپڑھ کر سنائی اور فرمایا یہ اس سے بہتر ہے جس پر آپ اور آپ کی امت کو تعجب ہورہا ہے۔یہ سن کر نبی علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابۂ کرام خوش ہو گئے۔(الدر المنثور)

سورۃ القدر کے تناظر میں شب قدر کی فضیلت
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک پوری سورت (سورة القدر)اس رات کی عظمت اور فضیلت کو بیان کرنے کے لئے نازل فرمائی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ ہم نے کلام پاک کو شب ِقدر میں اُتارا یعنی قرآن پاک کو لوحِ محفوظ سے آسمان ِدُنیا پر اِسی رات میں اُتارا،اِس رات کی فضیلت کے لیے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ قرآن جیسی مقدس کتاب اِس رات میں نازل ہوئی لیکن پھر آگے ارشاد فرمایا کہ شب ِ قدرہزار مہینوں سے بھی زیادہ افضل ہے،(ہزار مہینوں کے تراسی (٨٣) برس چار ماہ ہوتے ہیں، خوش نصیب ہیںوہ لوگ جو اِس ایک رات کو اللہ رب العزت کی عبادت میں گزار دیں تو گویا انھوں نے تراسی (٨٣)برس چارماہ سے زائد کو عبادت میں گزاردیا،اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے قدردانوں کے لیے یہ بہت بڑا انعام واکرام ہے۔)اِس رات میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اپنے رب کے حکم سے ہر اچھے کام کے لیے، اوروہ مومنین پر سلامتی بھیجتے رہتے ہیں، یہ رات اپنے فضائل وبرکات کے ساتھ طلوع ِفجر سے لے کر صبح ِصادق تک رہتی ہے ،ایسا نہیں کہ رات کے کسی حصہ میں برکت ہو اورکسی حصہ میں نہ ہوبلکہ صبح صادق ہونے تک اِن تمام فضائل وبرکات کا ظہور ہوتارہتا ہے۔

شب قدر احادیث نبوی کی روشنی میں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ اللہ جل مجدہ نے شبِ قدر صرف میری اُمت کوعطا فرمائی اِس سے قبل کسی بھی اُمت کو یہ رات نہیں دی گئی۔
اس سلسلہ میں مختلف روایات ہیں کہ صرف اِسی اُمت کو اِس فضیلت سے کیوں نوازا گیا؟ بعض احادیث سے معلوم ہوا کہ حضوراکرم ۖ نے اپنی اُمت سے پہلی امتوں کو دیکھاکہ اُن کو بڑی لمبی لمبی عمریں دی گئیں تھیں اورمیری اُمت کی عمریں بہت کم ہیں ،اگر میری اُمت اعمال کے اعتبارسے پہلی اُمتوں کا مقابلہ کرنا چاہے تو محال ہے،یہ خیال کرکے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو احساس ہوا، تو اللہ تبارک تعالیٰ نے اِس کمی کو پورا کرنے کے لیے یہ رات اُمت محمدیہ کو عطا فرمائی ، اگر کسی خوش قسمت کو زندگی میں چند مبارک راتیں مل گئیں تو گویا اُس نے ہزاروں سال عبادت کرلی، اللہ تبارک وتعالیٰ کا کتنا بڑا انعام واکرام ہے کہ اس نے پچھلی اُمتوں کو لمبی لمبی عمریں عطافرماکر زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کا موقع دیا، اوراس اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمریں اللہ تعالیٰ نے بہت کم رکھیں ، تو رمضان ، شب ِقدر ، عشرہ ٔذی الحجہ وغیرہ عطا کرکے پچھلی اُمتوں سے بہت زیادہ نیکیاں کمانے کا موقع دیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس رات کو بندوں سے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ لوگ اِس کی تلاش کریں اورمتعدد راتوں میں عبادتوں میں مشغول ہوکر اپنے رب سے دُعاء واستغفار کرکے بے پناہ ثواب پائیں ۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” َمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرے گا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔﴿صحیح بخاری، كتاب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ،باب فَضْلِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، صحیح مسلم کتاب صلاة المسافرین و قصرہا ، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح ﴾

شب قدر کی مخصوص دعا
عن عائشة أنها قالت يا رسول الله أرأيت إن وافقت ليلة القدر ما أدعو ؟ : قال ( تقولين اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني {سنن ابن ماجہ كتاب الدعاء، باب الدعاء بالعفو والعافية}
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے حضور اکرم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مجھے شب قدر معلوم ہو جائے تو کیا دُعا مانگوں؟تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس وقت خاص طورسے یہ دعا مانگی جائے:اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوّتُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے اللہ ! توبے شک معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس مجھے بھی معاف فرمادے۔

شب قدر کی طاق راتوں میں تلاش اور حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول
اس مبارک رات کو پانے کیلئے آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ و سلم خود آخری عشرے میں مستعدی سے عبادت میں مشغول رہتے تھے بلکہ اپنے گھر کے تمام افراد کو بھی شب قدر کی تلاش کے لیے متوجہ فرمایا کرتے تھے۔ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ روایت فرماتی ہیں کہ’’جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوجاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کمر کس لیتے اور شب بیداری کرتے یعنی پوری رات عبادت اور ذکر و دعاء میں مشغول رہتے۔چنانچہ اسی سلسلہ میں سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہؐ نے فرمایا کہ شب قدر  کو مضان کی آخری دس راتوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘(بخاری)
زیادہ امکان ہے جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ۖ نے فرمایا کہ شب ِقدر اِن طاق راتوں میں تلاش کرو ، وہ طاق راتیں یہ ہیں،اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیس،انتیسویں۔
ایک اور جگہ مروی ہے
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال: “تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنْ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ” (صحیح بخاری، كتاب صلاة التراويح، 4 – باب تحري ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر)
اس لیے جو شخص بھی اِس رات سے محروم رہ گیا گویا کہ وہ بڑے اجرواثواب سے محروم رہ گیا یقینا اُس شخص سے بڑا محروم القسمت کون ہو سکتا ہے جس کی زندگی میں رمضان المبارک کا مہینہ آئے اورجس مہینہ میں لیلة القدر بھی ہو اور وہ اُس کی قدرنہ کرے۔
خلاصہ یہ کہ شب قدر کون سی رات میں ہے اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹ویں رمضان کی سبھی راتوں کے بارے میں حدیثیں ملتی ہیں،لہذا ہمیں شب ِقدر کے حصول کی جستجو میں رہ کر رمضان المبارک کی آخری طاق راتوں میں خوب محنت سے عبادت ، توبہ،استغفار اوردُعامیں مشغول رہنا چاہیے ، اگر تمام رات جاگنے کی ہمت نہ رکھتا ہو تو جس قدر بھی ہو سکے جاگے اورنفل نماز، قرآن پاک کی تلاوت ، ذکر وتسبیح میں منہمک رہے اوراگر اتنا بھی نہ کرسکے ، تو کم از کم عشاء ،تراویح اورصبح کی نماز باجماعت ادا کرنے کا خاص طورسے اہتمام کرے۔خاص طور پر بارگاہِ ایزدی میں اپنے گناہوں سے توبہ و استغفار کرکے معافی مانگیں زیادہ سے زیادہ اللہ رب العزت سے دعا مانگنے میں لگائیں اور نیک اعمال کرنے کی ہمت و طاقت طلب فرمائیں، اور اپنے لئے اپنے عزیز و اقارب،دوست احباب کیلئے دعاء خیر کریں۔اور تمام مرحومین کیلئے دعائے مغفرت کریں۔بالخصوص اس وقت پورا عالم اسلام کرونا وائرس کی وبا سے پریشان ہے بلکہ ساری انسانیت سسک رہی ہے تو ایسے قبولیت کے اوقات میں ان وبائی امراض کے خاتمہ کیلئے دعا کریں اور دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں
اللہ پاک ہم سب کو شب قدر نصیب فرمائے اور شب قدر کی قدر دانی کی توفیق مرحمت فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

Related Articles

One Comment

مفتی عبداللہ کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×