سیاسی و سماجی

ائے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا؟

اقوام و ملل کی تاریخ بارہا یہ ثابت کر چکی ہے کہ جو قوم اپنے ماضی کو فراموش کردے یا تاریخ کے روشن باپ پر جہالت و نادانی کے ذریعے سیاہی پھیر دے وہ کبھی بھی مستقبل میں کامیابی کو نہیں چھو سکتی یہ بات طئے شدہ ہے کہ عزائم و منصوبوں کی بلندی ماضی کے نقوش سے ہی حاصل ہوتی ہے اگر ماضی کو بھلادیا جائے یا تاریخ کی کتابوں کو کتب خانوں کی زینت بنادیا جائے یا پھر اس سے دانستہ یا غیر دانستہ تجاہل پرتا جائے تو اخلاقی انحطاط فطری تنزلی قوم کا مقدر بن جاتا ہے حتی کہ وہ قوم بتدریج رو بہ زوال ہوجاتی ہے
*نہ کوئی خواب نہ ماضی ہے میرے حال کے پاس*
**کوئی کمال نہ ٹہرا میرے زوال کے پاس*
ملک عزیز ہندوستان آزادی کے تقریباً ستر سال مکمل کرچکا ہے اور اپنے حقوق و شعائر کی حفاظت آزادی کے ذریعے سے ہی حاصل کیا ہے
لیکن مسلمانوں کے ساتھ آزادی کے بعد جو دہرا برتاؤ کیا گیا وہ کسی اہل نظر سے (جو مذہبی تعصب سے پاک ہو)مخفی نہیں ہے اور قومیت اور وطنیت سے علیحدہ کرنے کی جو سعی پیہم کی گئی اور کی جارہی ہے وہ بھی اہل علم جانتے ہیں حکومت ہو یا انفرادی حقوق، معاشرت ہو یا معیشت اقتصادیت ہو یا تجارت ہر ہر سطح پر آزادی کے وقار کو مجروح کیا گیا اور جمہوریت کو داغدار کیا گیا
*ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے ہیں لیکن*
**ائے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا*
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
 *محبت میں ہم آشفتہ سروں نے*
 **وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے*
کتنی احسان فراموشی؟
کس قدر تعصب؟
کس قدر پرایہ پن؟
کس قدر مشکوک نگاہیں؟
جب کہ ہمارا اپنے ملک سے یہ جذبہ ہے کہ
*ہم رنج بھی پانے پر ممنون بھی ہوتے ہیں*
**ہم سے تو نہیں ممکن احسان فراموشی*
آزادی کے لیے جن مسلم علماء و عوام نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، پھانسی کے پھندوں کو چوما تختہ دار کو خوش آمدید کہا گھر بار کو نیلام کردیا اتحاد و اتفاق کو فروغ دیا،گنگا جمنی تہذیب کے بقا کی کوششیں کی،
مغربی استعمار کے سامنے بے خطر کود پڑے،آتش نمرود میں عشق کے مانند بن گئے،اور ہر چیز سے پڑھ کر جذبہ حریت کو اپنے سینے میں پروان چڑھایا،
*افسوس صد افسوس* کہ آج انہیں کی مخلصانہ کد و کاوش اور درد مندانہ خدمات کو حرف غلط کی طرح مٹایا گیا آزادی کے باب میں ہندوستان میں پڑھائے جانے والے نصاب تعلیم سے تو ایسے نکال دیا گیا کہ نئی نسل کے سامنے ان کا نام اور خدمات جدت پسندی کا ایک دروازہ محسوس ہوتا ہے اور افسوس کی انتہا نہیں رہتی جب یہ ماجرا دیکھا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو اکابرین امت اور قائدین ملت کی صف میں مسافر کی حیثیت سے شریک ہوگئے تھے مذہبیت کے پس پردہ انہیں کے سر آزادی کا سہرا باندھا گیا ہے
*کیوں ہماری آزادی کی قربانی رائیگاں نظر آتی ہے؟
*کیوں ہماری آواز صد بصحرا ثابت ہوتی ہے؟
*کیوں ہم برادران وطن کو ایک آنکھ نہیں بھاتے؟
*کیوں سر زمین ہند ہمارا وجود کھل رہا ہے؟
*کیوں ہم ترچھی نگاہ کے شکار ہیں؟
*کیوں آئے دن کسی نہ کسی بہانے سے ہمیں ملک بدر ہونے کا مشورہ مل رہا ہے؟
*ہم دوسروں سے کیا گلہ کریں اور کیا شکوہ!!
*مگر جب ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارا اپنے اسلاف کی قربانیوں کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟
*اور ہمارا رابطہ ہمارے ماضی سے کس قدر گہرا ہے
*کیا ہم اپنی تاریخ سے بے اعتنائی کے شکار نہیں ہیں؟؟
*حتی کہ ہمارے ذہنوں میں حریت ہندوستان کو لیکر کیا وہی گنے چنے نام نہیں ہیں جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایک خاص ذہنیت کے تحت پڑھائی جاتی ہیں
*اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تحفظ تاریخ علماء ہند کے لیے اور نئی نسل تک صحیح تاریخ کو پہونچانے کیلئے کوئی موثر حکمت عملی کو اپنانا ہوگا ورنہ وہ دن دور نہیں کہ ہم اس شعر کے مصداق ہوجائیں
**ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں *اور اپنی روشن تاریخ سے ہاتھ دھو بیٹھیں
غور کرنا ہوگا آج وقت ہے اور وقت میں ہی اپنے اعمال کو ٹٹولنا زیب بھی دیتا ہے جبکہ موجودہ حالات کی عکاسی ہر کسی پر واضح ہے
*سکوت آموز طولِ داستانِ درد ہے ورنہ*
**زبان بھی ہیں ہمارے منھ میں اور تابِ سخن بھی*

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×