اسلامیات

ناقدینِ صحابہ پر بے وقوفی کی قرآنی مہر

*صحابہ کرام؛آسمان ہدایت کے ستارے ہیں*

حضرات صحابہ کرام رضی الله عہنم اجمعين دین اسلام کے ترجمان وعلم بردار، قرآن مجید کے محافظ وپاسبان، سنت نبوی (علی صاحبھا الف الف تحیۃ وسلام) کے عامل ومبلغ، بلند سیرت وکردار کے حامل وداعی اور امتِ مسلمہ کے محسن ومعمار ہیں، *بقول مفکرِ اسلام علامہ سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ:”آپ صلی الله علیہ وسلم کے تیار کیے ہوئے افراد میں سے ایک ایک نبوت کا شاہ کار ہے اور نوع انسانی کے لیے باعثِ شرف وافتخار ہے، انسانیت کے مرقع میں بلکہ اس پوری کائنات میں حضرات پیغمبروں کو چھوڑ کر اس سے زیادہ حسین وجمیل، اس سے زیادہ دل کش ودل آویز تصویر نہیں ملتی، جو ان کی زندگی میں نظر آتی ہے ، ان کا پختہ یقین، ان کا گہرا علم ، ان کا سچا دل ، ان کی بے تکلف زندگی ، ان کی بے نفسی، خدا ترسی، ان کی پاک بازی، پاکیزگی، ان کی شفقت ورافت اور ان کی شجاعت وجلادت، ان کا ذوقِ عبادت اور شوقِ شہادت ، ان کی شہ سواری اور ان کی شب زندہ داری ، ان کی سیم وزر سے بے پروائی اوران کی دنیا سے بے رغبتی ، ان کا عدل ، ان کا حسن انتظام دنیا کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ مختلف قبائل، مختلف خاندانوں اور مختلف حیثیتوں کے افراد ایک خوش اسلوب، متحد القلوب خاندان میں تبدیل ہو گئے اور اسلام کی انقلاب انگیز تعلیم اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معجزانہ صحبت نے ان کو شِیروشکر بنا دیا۔“*(بحوالہ:دو متضاد تصویریں)

*مناقب صحابہ قرآن و سنت کی روشنی میں*

یہی وہ جانثاران رسول ہیں جن کو رضائے الٰہی کی قرآنی دستاویز حاصل ہے بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں آیات اور احادیث میں جنکے فضائل ومناقب امتیازات اورکمالات مختلف عنوانات اور زاویوں سے بیان فرمائے گئے ہیں
چنانچہ ارشاد باری ہے
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم الله تعالیٰ کے منتخب ومختار بندے ہیں اور حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد پوری دنیا کے لیے اسوہ ونمونہ ہیں۔ ( سورہ حج:78)

یہ حضرات الله تعالیٰ کے نہایت محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں اور بخشے بخشائے ہیں،حتی کہ الله تعالیٰ نے ان کو ”رضی الله عنہم ورضوا عنہ“ کا پراونہ خوشنودی عطا فرما دیا ہے۔ ( سورہ توبہ:100)

اور آخرت میں الله تعالیٰ نے ہرصحابی سے ان کے ایمان ، انفاق اورجانی قربانیوں کے نتیجہ میں” جنت“ کا اہم وعدہ فرمایا ہے ۔ (سورہ حدید :10)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل و مناقب بہت تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں چنانچہ
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”آپ صلی الله علیہ وسلم (کے انتخاب) کے بعد (اللہ تعالیٰ نے) لوگوں کے قلوب پر نظر ڈالی تو کچھ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب اور اپنے دین کے ناصر ومدد گار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے وزراء اور نائبین کے طور پر منتخب فرمایا۔“ (مؤ طا امام محمد)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تعلق براہ راست نبی کریم  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہے، اس لیے ان سے محبت حضور علیہ السلام سے محبت ہے اور ان سے بغض ، بغض رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شعبہ ہے۔ ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی ناقابل معافی جرم ہے۔ چنانچہ ارشاد نبوی ہے:” اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملہ میں، مکرر کہتا ہوں، اللہ سے ڈرو۔ اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملہ میں، میرے بعد ان پر تنقید نہ کرنا؛کیوں کہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر، اور جس نے ان سے بغض رکھا تو مجھ سے بغض کی بنا پر، جس نے ان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی،اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑ لے۔”(ترمذی)
ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم  ناقدینِ صحابہ اور منافقین پر لعنت بھیجنے کا صریح حکم دیا ہے کہ “ جب تم لوگ حضرات صحابہ کرام کو گالی دیتے ہوئے (منافق) لوگوں کو دیکھو تو کہو کہ تمہاری بد گوئی پر الله تعالیٰ کی لعنت ہو۔“( ترمذی)
ایک اور حدیث میں بہت ہی بلیغ ومؤثر اسلوب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” جو شخص حضرات صحابہٴ کرام کو گالیاں دے ، اس پر الله تعالیٰ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے،نہ اس کا فرض مقبول ہے اور نہ نفل( حکایت صحابہ)

*صحابہ کرام ؛حق و باطل کا معیار ہیں*
مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ نے صحابہ کرام پر تنقید کرنے والوں کے سلسلے میں رقمطراز ہیں
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ بعد کی امت کے لئے حق وباطل کا معیار ہیں‘ انہیں معیتِ نبوی کا جو شرف حاصل ہوا‘ اس کے مقابلہ میں کوئی بڑی سے بڑی فضیلت ایک جو کے برابر بھی نہیں‘ کسی بڑے سے بڑے ولی اور قطب کو ان کی خاکِ پابننے کا شرف حاصل ہوجائے تو اس کے لئے مایہٴ صد افتخار ہے‘ اس لئے امت کے کسی فرد کا خواہ وہ اپنی جگہ مفکرِ دور ان اور علامہٴ زماں ہی کہلواتاہو‘ ان پر تنقید کرنا قلبی زیغ کی علامت ہے۔(ماہنامہ البینات)

*ناقدینِ صحابہ پر بے وقوفی کی قرآنی مُہر*

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صحابہ کرام کے ایمان معیار قرار دیا ہے :جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جیسے صحابہ نے ایمان لایا ہے تو منافقین کہتے ہیں کیا ہم ان بے وقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟ اللہ تعالیٰ نے ناقدینِ صحابہ کا بغض واضح فرماکر منافقت کا پردہ فاش کرتے ہوئے تا قیام قیامت ان پر بے وقوفی کی مہر لگادی کہ یہی لوگ بے وقوف ہیں لیکن وہ اپنی بے وقوفی کو جانتے نہیں ہیں
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے روح المعانی میں سفاہت کی تشریح کرتے ہوئے دو معنی ذکر کئے ہیں:
١خِفَّۃُ الْعَقْلِ ہلکی عقل والے کہ ان کی عقل کمزور ہوتی ہے اسکا ثبوت یہی ہے کہ وہ صحابہ کرام جیسے عظیم اشخاص کو ہدف تنقید بناتے ہیں
٢والْجَہْلُ بِالْاُمُوْرِ اور جو حقائق امور سے ناواقف ہو۔
حقائق سے قطع نظر کرتے ہوئے ظاہری مفاد، حب جاہ اور مال و منصب کی لالچ میں صحیح اور غلط کی تمیز سے قاصر رہتے ہیں
اس آیت کے ذیل میں اگر ناقدینِ صحابہ کا جائزہ لیں تو یہ معلوم ہوگا کہ در حقیقت ناقدینِ صحابہ اپنی شیطنت، دو رخی اور نفاق کو ہوش و عقل اور درایت کی دلیل سمجھتے ہیں جو صریح بے وقوفی ہے

کیا یہ بیوقوفی نہیں کہ اپنی استعداد اور قوت کو شیطنت ، سازش اور تخریب کاری کی راہ میں صرف کرے اور اس کے باوجود اپنے آپ کو عقلمند سمجھے؟

کیا یہ زمرہ سفاہت میں شامل نہیں کہ اجماعی عقیدہ کہ "تمام صحابہ عادل ہیں”سے روگردانی کرکے  تحقیق کے نام پر صحابہ کرام کے مقدس گروہ پر تفسیق کا دروازہ کھولے ؟
کیا یہ بے وقوفی نہیں کہ تنقیدِ صحابہ اور تنقیصِ اصحاب نبی جیسے باعثِ ننگ و عار کام پر مصر رہے؟
اس سے بڑھ کر اور کیا سفاہت اور منافقت کی مثال ہوسکتی ہے خون جگر سے اسلام کی آبیاری کرنے والے، فقر و فاقہ کے انتہا کے باوجود مکمل دیانت و امانت تقوی و طہارت کے ساتھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و اعمال سیرت اور کردار کو جمع کرنے والے،چونسٹھ لاکھ مربع میل پر اسلامی حکومت کرنے والے اصحاب مصطفی کی سیرت وکردار کو داغدار بنایا جائے اور ان کی شخصیت کو گھناؤنے رنگ میں پیش کیا جائے‘ ان کے  پر تنقید کی جائے‘ ان پر مال وجاہ کی حرص، خیانت‘ غصب اور کنبہ پروری‘ اقربا نوازی کے الزامات لگائے جائیں (الامان و الحفیظ)

*نسل نو کو دین بیزار کرنے کی مذموم کوشش*
ذرا غور کیجئے!! وحی خداوندی نے جن حضرات کی تعدیل فرمائی‘ جن کے قلوب کو یقین محکم اور غیر متزلزل ایمان سے منور کیا‘ جن کے اخلاص وللہیت پر شہادتیں دی ہو اور انہیں یہ رتبہ بلند عطا کیا ہو کہ وہ اصحاب رسول جیسے عظیم لقب سے ملقب ہوئے ، اور جن کو یہ شرف عطا ہوا کہ رسالت محمدیہ علی صاحبہا الف الف تحیۃ وسلام کے عادل گواہوں کی حیثیت سے وہ ساری دنیا کے سامنے پیش کیے گئے اگر ان پر انگشت نمائی کی جارہی ہے تو در اصل دین کی مکمل عمارت کو منہدم کرنے کے مترادف ہے، اور نسل کو دین بیزار کرنے اور صحابہ کرام کے تقدس کو پامال کرنے کی ایک گھٹیا ترین کوشش ہے
کہا جاتا ہے کہ اگر گناہ ایک حد سے بڑھ جائے تو پھر انسان سے حسِ تشخیص چھن جاتی ہے بلکہ اس کی تشخیص برعکس ہوجاتی ہے اور ناپاکی و آلودگی اس کی طبیعت ثانوی بن جاتی ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ  نقد صحابہ کی وجہ سے حس تشخیص چھن گئی ہو،اپنے فاسد نظریات کو صحیح سمجھ کر ان سے چمٹے رہنے کا مرض لاحق ہوگیا ہو‘ کہیں ذہنی کجی، بے راہ روی کی وہ نچلی سطح پر تو نہیں پہونچ گئے ہو کہ اس سے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کی استعداد ہی سلب ہوگئی ہو، پھر نہ کسی کے قول کا اثر،نہ کسی کی مخالفت کی پرواہ اور نہ ہی خدا و رسول کے سامنے جواب دہی کا احساس

حب صحابہ کا تقاضہ تو یہ تھا ان کا تذکرہ پورے ادب اور لحاظ کے ساتھ کیا جاتا، تحریر و تقریر میں رعایت برتی جاتی؛ بایں وجہ کہ علامہ یوسف بنوری رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
دین کے سلسلہٴ سند کی یہ پہلی کڑی اور حضرت خاتم الانبیاء علیہ الصلوۃ و السلام کے صحبت یافتہ حضرات کی جماعت -معاذ اللہ- ناقابل اعتماد ثابت ہو‘ ان کے اخلاق واعمال میں خرابی نکالی جائے اور ان کے بارے میں یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ دین کی علمی وعملی تدبیر نہیں کرسکے تو دینِ اسلام کا سارا ڈھانچہ ہل جاتا ہے اورخاکم بدہن رسالت محمدیہ مجروح ہوجاتی ہے۔
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت کو زور دار انداز میں متنبہ فرمایا ہے کہ ” بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ( تمام بندوں میں ) مجھے منتخب فرمایا ہے او رمیرے لیے اصحاب، انصار اور رشتہ داروں کو منتخب فرمایا ہے ،عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو میرے اصحاب کو برا کہیں گے اوران کی تنقیص ( بے ادبی) کریں گے پس تم ان کے ساتھ میل ملاپ نہ کرنا، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔ “( مرقاة)

حضرت ایوب سختیانی رحمہ اللہ سے حکایات صحابہ میں منقول ہے ” جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی، منافق اور سنت کا مخالف ہے مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہو، یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اور ان کی طرف سے دل صاف ہو ۔“ (حکایت صحابہ)
بلا شبہ حضرات صحابہ کرام تاریخ ساز، عہد آفریں شخصیات کا مجموعہ ہیں اور یہ حضرات الله تعالیٰ کی نعمت عظمی کے پر تو ، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کا ثمرہ او راسلام کی صداقت کی دلیل وحجت ہیں، اور انہیں نقش پا کو چوم کر چلنا دارین میں عافیت کا باعث ہے،
ذرا ان احادیث اور اقوال پر نظر کیجیے!!
خدارا اپنے ایمان کی فکر کیجئے!!
اپنی عاقبت کے بارے میں سوچئے!!
روز محشر اصحاب رسول سے کیسے سامنا کروگے؟ محدث رسول اللہ حضرت ابوہریرہ، حضرت معاویہ، حضرت سعد بن ابی وقاص شیخین مکرمین کو کیا منہ دکھاؤگے؟؟
حق تعالیٰ جل شانہ اپنے فضل سے ہمیں ہر طرح کی گمراہی سے محفوظ فرمائے اور صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا و آخرت کی سرخروئی عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×