اسلامیات

ہجری تقویم اور اس سے بے توجہی

ہجری تقویم (کیلنڈر) وہ واحد تقویم ہے جو خدائی روش پر قائم اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور اسلامی ادوار میں اس پر تعامل رہا ہے، عرصہ دراز تک امت مسلمہ ہجری (اسلامی) تقویم کو اپنے مراسلات، دستاویزات، اور روزہ مرہ کی زندگی میں جاری رکھے ہوئے تھی،اور اسکے برکات سے بہرہ ور ہورہی تھی،مگر افسوس صد افسوس آج یہ تقویم خال خال نظر آتی ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کو گنے چنے افراد نے قابل استعمال سمجھا ہوا ہے؛کیا خواص کیا عوام،کیا اساتذہ کیا طلبہ،کیا دانشمند کیا جاہل،ہر کوئی اس سے بے نیاز نظر آتا ہے!! .
اسے اپنوں کی بے حسی کہیے یا اغیار کی منصوبہ بندی،اپنوں کے ترک استعمال کی خامی کہیے یا اسلام دشمن عناصر کی طویل سازش کی کارستانی،غرض جو بھی ہو نقصان اس قدر ہوا ہے کہ اسکی تلافی جلد ممکن نہیں ہے (الا بتوفيق اللہ)
چنانچہ عصر حاضر میں امت مسلمہ اس تقویم سے نابلد و نا آشنا نظر آتی ہے؛اگر کچھ واقفیت اور آشنائی ہو بھی؛ تو اسکے استعمال سے گریزاں ہیں،حتی کہ بعض لوگ واقفیت کے باوجود بھی اس تقویم کو لکھنا اور اسکا استعمال کرنا عار سمجھتے ہیں.
افسوس صد افسوس! مرور ایام نے قوم مسلم کو کہاں سے کہاں لا کر کھڑا کردیا ہے،مسلمانوں کی ذہنی غلامی پر کس قدر افسوس کیا جائے؟کیا کہا جائے؟کیا قلم و قرطاس کے سپرد کیا جائے؟ایک وہ لڑکا جو مسلم گھرانے میں آنکھیں کھولتا ہے، پیدائش پر جسکے کانوں میں اذان و اقامت کے کلمات کی صدائیں دی گئی ہوں،مگر جب وہی بچہ پھلتا اور پھولتا ہے تو ایسی حالت میں کہ اسلامی اقدار و افکار، شعائر و امتیازات، اسلامی تہذیب و تمدن سے اس قدر غافل ہے کہ اسے شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کے دوسرے شعائر کے ساتھ اسلامی مہینوں کے نام اور دن تک یاد نہیں ہوتے جب کہ اس کے برعکس عیسوی کیلنڈر کے اصول اور اسکے تواریخ ازبر ہوتے ہیں؛ ہاں! یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے موجودہ دور میں عیسوی کیلنڈر کو پذیرائی حاصل ہے مختلف ممالک بلکہ ہر ہر علاقے میں اس کا ہی چال چلن ہے حکومتی سطح پر اسکو عروج حاصل ہے،بحث اس سے نہیں کہ شریعت میں عیسوی تقویم کا استعمال جائز ہے یا نا جائز؛مگر بات تو یہ بھی ہے کہ شریعت نے جب ہماری تقویم کی ضرورت کو پورا کردیا اور دیگر اقوام کی تقاویم سے عمدہ اور بہترین کیلنڈر ہمیں عطا کیا تو کیوں ہم اس کے استعمال سے کوسوں دور ہیں؟ کیوں ہجری تقویم کے ہوتے ہوئے بھی اسکا استعمال ترک کئے ہوئے ہیں؟
بات صرف اسلامی تقویم تک محدود نہیں ہے بلکہ مغربیت کے طوفان بلا خیز  کے سامنے امت مسلمہ پوری طرح غرقابی کی ہے،قوم مسلم مغربی استعمار اور مغربی ذہنیت کی حامل ہوچکی ہے؛کیا تہذیب و تمدن؟کیا تعلیم و تعلم؟کیا ذاتی زندگی کے مراحل اور کیا سیاسی مصالح؟قوم مسلم مغرب کی طرف سے ہر میدان میں دینی فکری تہذیبی ثقافتی عسکری یلغار کی زد میں ہے؛ ہاں جو لوگ اس سے علیحدہ ہیں شاید وہ عنقاء (گنے چنے) ہیں،
علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا:
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیح شیخ
بتکدے میں برہمن کی پختہ زنّاری بھی دیکھ
 الحاصل:مسلمان اگر دنیا میں بحیثیت قوم زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اس صورت حال کی سنگینی کو محسوس کر نا ہوگا، اور موجودہ حالات کی تبدیلی کیلئے بہت کچھ کرنا ہوگا، ایمان و یقین کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ شعائر اسلام کے تحفظ کے لئے جذبہ قربانی کو پروان چڑھانا ہوگا،ہجری تقویم کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرنا ہوگا،ملت اسلامیہ میں اسکو رائج کرنا ہوگا،شکوک و شبہات کا ازالہ کرکے اسکے امتیازات اور خصائص پر بحث کرنی ہوگی اور مکمل شرح صدر کے ساتھ اس تقویم کو اپنانا ہوگا تب جاکر اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے اور اچھے اثرات اور خیر و برکات امت مسلمہ سے وابستہ رہیں گے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×