احوال وطن

دین کی محنتوں کا خلاصہ ہے کہ انسان دنیا کی بے ثباتی کو سمجھ جائے

نظام آباد:9؍ڈسمبر (عبدالقیوم شاکر القاسمی) اگر ذات پر محنت ہوگی تو معاشرہ بنے گا خاندان بنے گا افراد بنیں گے اور محنتیں عام ہوں گی جب کوئی بڑا آدمی بات بولتا ہے تو اس کی بات کا اثر ہوتا ہے اگر اس کی ذات بن جاتی ہے تو پھر قبیلے کے قبیلے مشرف بہ اسلام ہوجاتے ہیں اللہ کے نبی نے ایک ایک کی ذات پر محنت کی ہے صحابہ کرام کو بنایا ہے ان کو دنیا کی بے ثباتی سمجھائی اور آخرت کے باقی رہنے کو سمجھایا ۔ دعوت وتبلیغ کی محنتوں کا نتیجہ ہیکہ آج پوری دنیا میں لوگ اس حقیقت سے آشنا ہورہے ہیںمولانا ابوالکلام آزاد ؒکا حوالہ دیتے ہوے فرمایا کہ نہرو جی کے زمانہ میں اس کام پر پابندی لگانے کے سلسلہ میں پارلیمنٹ میں بل پاس ہوگیا تھا کہ ہندوستان میں اس کام اور تحریک کو روک دیا جاے لیکن مولانا ابوالکلام آزاد نے کھڑے ہوکر کہا کہ نہرو جی یہ میرا کام یہ میری جماعت ہے بس اتنا کہنا تھاکہ اس بل کو کاالعدم قرار دے دیا گیا اور کام کو علی حالہ برقرار رکھا گیااللہ کے نبی کی ذات کو اللہ پاک نے بے عیب وبے غبار بنایا اور چالیس سال تک نبی کی ذات کو سمجھایا اسی وجہ سے نبی نے مشرکین مکہ سے کہا لقد لبثت فیکم عمرا .عمرکا ایک بڑاحصہ میں نے تمہارے درمیان گزارا کسی آدمی کی مجال نہیں کہ وہ نبی کے کردار پر صداقت وامانت پر حرف گیری کرے اورانگلی اٹھاے اللہ نے چالیس سال تک لوگوں کو نبی کی ذات سمجھایااللہ کے نبی نے لوگوں کے دلوں کو جیتنے کا کام کیا مختلف طریقوں سے اپنی ذات کو سمجھایا پھر نبوت ملنے کے تین سال بعد علی الاعلان دعوت دین کا آغاز کیا صفا پہاڑی پر چڑھ کر لوگوں سے سوال کیا کہ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے دشمن حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات پر یقین کروگے لوگوں نے بیک زبان ہوکر اثبات میں جواب دیا لیکن جب دعوت حق وتوحید کی بات فرمائی تو لوگوں نےا نکارکردیا اور خفا ہوکر چلے گئے‘اللہ کے نبی نے صحابہ کرام کی ایک ایک ذات پر ایسی محنت فرمائی تھی کہ صرف اپنے اونٹوں کو پانی پہلے پلانے کے لیےآپس میں قتل وقتال کرنے والے دین کی محنت کے نتیجہ میں ایسے بن گئےکہ ایک بکری کا سرا گھر سے نکلتا ہے تو سات گھروں کو پھرتا ہوا واپس اسی گھر کو آجاتا ہے اتنا تواضع اور دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھنے والے بن گئے یہ محنت اور دعوت دین ہی تھی کہ صحابہ کرام جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے جان دینے والے بن گےءاللہ کے نبی نے کلمہ کی حقیقت کو سمجھایا اور ایمانیت کو بتلایاآج پوری دنیا مادیت پر محنت کررہی ہے اور ترقی کررہی ہے ہمیں انسانیت کی ذات پر محنت کرنے کی ضرورت ہےمولانا الیاس صاحب ؒ کی محنتوں پر آج رشک آتا ہے کہ ان کی محنتوں کے نتیجہ اور اکابرین کی کاوشوں کے نتیجہ میں اللہ تعالی نے اس کام کو ایسا چمکایا کہ سالہاسال کے گناہوں میں ملوث ومرتکب لوگوں نے اس کام کو قبول کرکے اس لائن میں لگے اور اپنی ساری برائیوں سے توبہ کرکے دین ودعوت دین کے لیے وقف ہوگئے ہی۔ تاریخ گواہ ہیکہ اس کام کے نتیجہ ہی میں قسطنطنیہ کا پورا علاقہ مشرف بہ اسلام ہوا صحابہ کرام کی ایک جماعت بغرض تجارت تین تین ہزار اونٹوں پر لدا سامان لیکر قسطنطنیہ پہونچے اور بادشاہ سے تجارت کی اجازت لی بادشاہ نے اپنے ملک کی قحط سالی کاذکر کرتے ہوے واپس جانے کا مشورہ دیا صحابہ کرام  نے باہمی مشورہ سے کہ دیا کہ اگر یہاں کے لوگ قحط میں مبتلا ہیں تو ہم لوگ اپنا ساراکا سارا سامان لوگوں کو دے دیں گے تاکہ ان کی قحط سالی دور ہوجاے اور وہ خوش ہوجائیں چونکہ دنیا کامال ومتاع تو ایک وقتی اور فناء یونے والی چیز ہے اصل چیز تو وہ نیکی اور آخرت ہے چنانچہ بادشاہ وقت نے صحابہ کرام کے مال کو لوگوں میں تقسیم کردیااور اور ان کے اس عمل سے متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوگیا یہ کہ کر کہ جس مذہب کے ماننے والوں کے اتنے اچھے اخلاق ہوں وہ مذہب کتنا اچھا ہوگا اور پھربادشاہ کے ساتھ ساتھ سارے لوگوں نے اسلام کو قبول کرلیایہی ہماری محنتوں کا مقصد ہیکہ لوگوں پر ایسے محنت کہ جاے کہ ان کے قلوب پلٹ جائیں اور وہ دین کے علمبردار بن جائیں مولانا یوسف صاحب ؒ فرمایا کرتے تھے کہ لوگوں نے چیزوں پر محنت کی تو وہ ہوا میں اڑنے لگیں پانی میں چلنے لگیں مگر ہم انسانوں پر محنت نہیں کرے جس کی وجہ زمین پر چلنے والا انسان صحیح معنی میں انسان نہ بن سکا اس لیے ضرورت اس بات کی ہیکہ آج ایک ایک انسان کی ذات کو محنت کامیدان بنائیں مولانا نے صحابہ کرام کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوے حیاۃ الصحابہ کے کئی ایک واقعات کو بیان کیا اور ترغیب دلائی کہ اس کام کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو اپنی خواہشات کو آج قربان کرنے اور وقت لگاکر امت مسلمہ کی خیر وبھلائی کے لیے دن رات محنت کو جاری رکھنا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×