احوال وطن

حالات کے بنانے اور بگاڑنے والی ذات اللہ کی ہے ‘مومن اسی کی طرف نظر کرے حالات سے نہ گھبرائیں

نظام آباد: 8؍اکٹوبر (عبدالقیوم شاکر القاسمی) حالات تو انتہائی سنگین سے سنگین تر ہوتے جارہے ہیں لیکن مومن کو چاہیے کہ وہ کارساز حقیقی اور حالات کے بنانے و بگاڑنے والے کی جانب دیکھے حالات کو نہیں .آج ہر طرف سے امت کے ایمان پرشب خون مارا جارہا ہے اور طرح طرح سے ان کے ایمان کو نوچا جارہا ہے اور امت ہے کہ اپنے نبی کے طریقوں کو چھوڑ کر غیروں کی تہذیب وتمدن کو اپنانے میں فخر محسوس کررہی ہے آج ہمارے نوجوانوں کا حال دیکھیں کہ ان کو کسی کا ہیر اسٹائل پسند آتا ہے تو کسی کا کھیلنا تو کسی کا لباس تو کسی کا طرز زندگی اگر پسند نہیں آتا تو صرف اور صرف نبی کا طریقہ اور ان کی سنت پسند نہیں آتی‘ ایسے ماحول میں ہم اپنے ایمان کو کیسے محفوظ رکھیں گے ..دنیا والوں نے سمجھ لیا کہ اب اسلام کا چراغ گل ہوجائے گا اور بظاہر حالات بھی یہی بتاتے ہیں لیکن قرآن مجید کو اگر تفصیل اور غور سے پڑھا جائے تو پتہ چلے گا اور حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ اللہ پاک نے فرمایا .یریدون لیطفئوا نوراللہ بافواھھم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون …اللہ نے ان دشمنوں کے منصوبوں اور پلان کوافواھھم یعنی پھونک سے تعبیر کیا اور دین اسلام کو نور سے تعبیر کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پلان اور سازشیں پھونک جو کمزور ہوتی ہے اس میں کوئی دم نہیں ہے اور اسلام کو اللہ نے نور سے تعبیر کیا اور اس کو مکمل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے ان دو لفظوں نے حقیقت کھول کر رکھ دی ہے اس کو سمجھیں۔ مولانا نے اپنی مکمل بات کو تین بنیادی سوالوں میں تقسیم کرتے ہوے قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کے تفصیلی جوابات سے سامعین کی آنکھیں کھول دی فرمایا.. پہلا سوال ..کیا ہوگا ..دوسرا سوال کیوں ہوگا ..تیسرا سوال ہمیں کیا کرنا ہوگا ……غزوہ احزاب کا ذکر کرتے ہوے فرمایا کہ اس وقت حالات آج سے کہیں زیادہ خطرناک تھے اس وقت کے حالات میں اللہ کا منصوبہ ایمان والوں کو ختم کرنا نہیں تھا بلکہ منافقین کے نفاق کو بے نقاب کرنا تھا اس لئے اللہ نے دروازے کھول دئیے تھے کہ جس کو جانا ہو وہ شوق سے چلا جائے اور وہی لوگ باقی رہیں گے جن کے دلوں میں ایمان مضبوط اور پختہ ہے اور انہی کے ذریعہ اللہ پاک اس دنیا میں انقلاب لائیں گے آج یہی ہورہاہے کہ اللہ نے دروازے کھول دیئے تاکہ جس کو اپنے ایمان کا سودا کرنا ہو وہ کرلے اور زیادہ مقدار میں لوگ چلے جائیں گے بہت کم باقی رہیں گے جن کو اللہ نے وقلیل من عبادی الشکور ..فرمایا کہ تھوڑے بچیں گے اور پھر ان ہی سے کام لیا جائے گا. فرمایا کہ آج ہمارے دل خوف خدا سے خالی ہوچکے ہیں اسی لیے محنتیں تو کافی ہورہی لیکن اس کے باوجود نتائج صفر ہیں پھر اللہ پاک ایک ایسی قوم کو لائیں گے جن میں چند صفات ہوں گی کہ اللہ ان سے محبت کریں گے اور وہ اللہ سے محبت کریں گے جب دل میں اللہ اور اسکے رسول کی محبت آئے گی تو پھر محبت کے ساتھ محنت کرنے والے الگ بنا محبت محنت کرنے بولے الگ ہوجائیں گے منافقین الگ اور پختہ ایمان والے الگ ہوجائیں گے یہ جواب ہے اس سوال کا کہ کیا ہوگا ….جس قوم کے بارے میں اللہ صفات بیان کی ہیں ان کے دلوں میں اللہ و رسول کی محبت ایسے ہوگی جیسے رسول کے صحابہ میں ہوتی ہے کہ براہ راست صحابہ نبی سے محبت کرتے تھے لیکن یہ قوم توجہات اور باطن کے ذریعہ محبت کرے گی جیسے اللہ کے نبی نے فرمایا کہ اس بعد میں آنے والے لوگوں کا ایمان انتہائی تعجب خیز ایمان ہوگا وہ اسی امید پر پوری دنیا میں پلان بنارہے ہیں کہ کسی طرح ہم اس ذات کو دیکھ لیں جس کے آنے کی بشارت اور خوشخبریاں ہماری کتابوں میں دی گئیں ہیں انہوں نے یوں سمجھا کہ یہ مسلمان ہی ان کو دیکھنے میں ہمارے لیے رکاوٹ ہیں تو ان کو ختم کرو یہ جائیں گےتو وہ ذات آئے گی (اسی لیے تو آج ہمارے ملک میں ہمیں نکالنے اور بھگانے کی باتیں کہی جارہی ہیں) اور ہم ان کے چرنوں اور قدموں سے چمٹ جائیں گے یہ ہے محبت صحابہ کرام جیسی لیکن جب ان کو پتہ چلے گا کہ وہ تو آکر چلے گئے ہیں تو اب ان کے دلوں میں یہ تمنا ہوگی کہ کاش اگر ہم اپنا مال جان سب کچھ قربان کرکے اس نراشنس مہاراج کا دیدار کرلیتے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا ان کو شدت سے انتظار ہے جس طرح کسی گرم پانی کے گلاس کو ہاتھ سے پکڑنا چاہو تو مشکل ہے کیوں کہ اس میں گرمی کی شدت اور حرارت بہت زیادہ ہوتی ہے اگر اس پر ایک کپڑا لپیٹ دیں تو اس حرارت میں تو کمی نہیں آئے گی مگر احساس میں کمی آجائے گی اسی طرح اگر اس گلاس پر چودہ پرت کپڑوں کی پھیردو تو مکمل طور پر آسانی سے اس گلاس کو پکڑا جاسکتا ہے چونکہ اس کی حرارت کے احساس میں پوری ٹھنڈک ہوجائے گی بالکل اسی طرح اللہ کے نبی نے فرمایا کہ اس قوم کی محبت کی حرارت ایسی ہوجائے گی جیسے ایک دم ان چودہ کپڑوں کو ہٹا کر ڈائرکٹ گلاس کو پکڑلیا جارہا ہوں اور یہ قوم کوئی اور نہیں وہ ہمارے ہی ملک کے برادرانِ وطن ہوں گے جن کو اللہ پاک نے ..وآخرین منھم.لما یلحقوا بھم …سے بیان کیا یہ جواب ہے اس سوال کا کہ کہاں ہوگا. ہمیں کیا کرنا ہوگا اللہ سے اپنےتعلق کو جوڑ کر ان آنے والے مہمانوں کی میزبانی کا شرف اللہ سے مانگنا ہوگا. دلوں میں اللہ کی محبت بھرنا پڑے گا جس کے لیے سب سے پہلے مخلوق خدا سے محبت کرنا ہوگا انسانیت کی بنیاد پر لوگوں سے محبت کروتو اللہ تم سے محبت کریں گے من احب خلق اللہ فاحب اللہ ..مخلوق خدا سے محبت کے لیے لازم ہے کہ پہلے خدمت خلق کریں کمزورں اور بے کسوں کی مدد کریں بھوکوں کو کھانا کھلائیں غریبوں کی فریادرسی کریں تو مخلوق سے محبت پیدا ہوگی جس کے نتیجہ میں خالق کی محبت دل میں آئے گی پھر دلوں میں ایمان پختہ ہوگا پھر آنے والی قوم کی میزبانی کا شرف ملے گا ورنہ تو ہم بھی اس چھٹنی میں چھٹ جائیں گے. اللہ پاک نے یہ پیغام سورہ مائدہ میں دیا ہے جس مائدہ کے معنی ہے دستر خوان تم اللہ کے بندوں کی خدمت کے لیے کھلانے میں دستر خوان لگاتے رہو اللہ پاک لوگوں کے دل میں تمہاری محبت ڈال دے گا اور سب لوگ تم سے محبت کا اظہار کریں گے …اللہ پاک ہم سب کو توفیق فہم و عمل صالح کے لیے قبول فرمائے۔

Related Articles

One Comment

MD Kaleemuddin کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×