علم کی حقیقت‘ عمل کی اہمیت اور محنت کی ضرورت کو سمجھنا چاہیے
نظام آباد: 12؍مارچ (عبدالقیوم شاکر) دنیا کے تمام ہی علوم وفنون انسان کو مشنری بنانا سکھلاتے ہیں اشیاء اور چیزیں بنانا سکھلاتے ہیں لیکن آسمان اور اللہ والا علم انسان کو بناناسکھلاتا ہے جب تک انسان نہیں بنیں گے کوئی مشنری نہیں چل سکتی ہے آج دنیا کو سب سے زیادہ ضرورت انسان بنانے والے علم کی ہے
اللہ والاعلم سے انسان کو حدود اور حقوق کا پتہ چلتا ہے اور پوری شریعت اسلامیہ کا مدار اور محور بھی یہی دو چیزیں ہیں اگر انسان کو حدود اور حقوق کا علم ہوجائے تو پھر وہ اپنی دنیاوی واخروی دونوں زندگیوں میں کامیاب وکامران ہوگا اس لیے کہ جہاں انسانوں کا تجربہ ختم ہوتا ہے وہاں سے اللہ کا علم شروع ہوتا ہے اللہ والے علم اور دنیا والے علم کا آپس میں کوئی تقابل نہیں ہوسکتا جس کو حقیقت علم کا پتہ چل جائے وہ کبھی بھی شریعت کو نہیں چھوڑتا ہے آج ہمیں شہریت کے چھوٹنے کا غم اور ڈر ہے مگر حق یہ ہیکہ ہمیں شریعت کے چھوٹنے کا غم ہونا چاہیے
اللہ والاعلم دل کوبناتا ہے اس سے دل سنورتا ہے اور زندگی کی حقیقت سمجھاتا ہے اس علم سے اللہ اور اس کے راستہ میں قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو اصل زندگی ہے آج جمادات نباتات پر اور نباتات حیوانات پراور حیوانات انسانوں پر قربان ہوتے ہیں کمال زندگی یہ ہیکہ یہ انسان اللہ پر قربان ہوجائے آج اگر کسی جانور کو لکڑی ماری جائے تو وہ لکڑی کو نہیں لکڑی مارنے والے انسان کو دیکھتا ہے اس کو اتنی تو عقل ہیکہ وہ ڈنڈا مارنے والے کو دیکھتاہے لیکن انسان اتنا بے عقل ہوگیا کہ وہ رزق کو دیکھتا ہے رازق کو نہیں دیکھتا بیماری کو دیکھتاہے بیماری دینے والے کو نہیں دیکھتا اس علم کے ذریعہ یہ حقیقت بتائی جاتی ہیکہ انسان کو خالق پر نظر رکھنی چاہیے یہ علم انسان کو رزق سے ہٹاکر رازق کہ جانب نظر کرنا سکھلاتا ہے اس لیے اس علم کی حقیقت کو آج سمجھنے کی ضرورت ہے
دوسری چیز یے عمل مثال دیتے ہوئے سمجھایا کہ صرف سیڑھیاں گننے سے انسان اوپر نہیں پہونچ جاتا بلکہ اس کے لیے عمل کی محنت درکار ہوتی ہے چڑھنے کا مجاہدہ برداشت کرنا پڑتا ہے اس لیے صرف علم سے کام نہیں چلے گا بلکہ عمل میں کوشش کرناپڑتا ہے گناہ سے بچنے کی نیک عمل کی جانب جانے کی کوشش کرنا پڑے گا اللہ تعالی کی معرفت اور خدا تک رسائ صرف عقل والے علم سے نہیں ہوتی ہے بلکہ عمل والی زندگی سے ہوتی ہے اس لیے اعمال صالحہ کی فکر بہت ضروری ہے چونکہ بد عملی کے ساتھ یہ علم حاصل نہیں ہوسکتا ہماری خلوت اور جلوت دونوں ہی گناہوں سے پاک ہونا چاہیے اس لیے کوئی بھی گناہ ہوں وہ اپنا اثر دکھاتا ہے گناہ انسان کو محرومیت کی جانب دھکیل دیتا ہے گناہ سے اللہ ناراض ہوتے ہیں اور اللہ کی ناراضگی کے ساتھ ملنے والی نعمت .نعمت نہیں بلکہ اللہ کی جانب سے مہلت ہوتی خاص طور پر تنہائی کے گناہ سے بچیں حسن بصری رح نے فرمایا کہ تنہائی کے گناہ سوء خاتمہ اور تنہای کی عبادت حسن خاتمہ کا ذریعہ بنتی ہے
تیسری بات علم وعمل کے حصول میں مجاہدہ اور قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے اپنے نفس کی خواہشات کو ترک کرنا پڑتا ہے تب جاکر یہ دولت ہاتھ آتی ہے ہم یہاں صرف اکیلے تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ والدین اساتذہ اور عوام الناس اور رشتہ داروں کی تمنائیں ہم سے وابستہ ہیں اس لیے لغویات اور فضولیات میں رہ کر اپنی زندگی کو گنوانا عقلمندی نہیں ہے ہمیں اونچے عزائم لے کر پڑھنے کی ضرورت ہے انسان بلند عزائم سے ہی بلند فکروں سے ہی ہمت حاصل کرتا ہے اور اسی کے مطابق اپنی علمی وعملی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتا ہے سطحیت والا علم عوام اور امت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے اعلی قسم کی استعداد بنانے کی ضرورت ہے اس راہ میں آنے والی ہر مشقت ومصیبت کو سہ کر اپنے عزائم میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو توفیق علم وعمل نصیب فرمائے