احوال وطن

موجودہ حالات میں ارتداد کی لہر تشویشناک اور قابل غور: مولانا عبد القوی

ملک کے موجودہ پریشان کن حالات میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈریں اور صبر کریں یعنی اپنے ایمان پر جم جائیں ثابت قدم رہیں دنیا کا کوئی بھی حکمران یا حکومت یا کوئی کالا قانون ہمیں اپنے ایمان سے ہٹانے نہ پائے آج ہمارے ملک میں ایک قسم کا اضطراب اور بے چینی پائی جارہی ہے خاص طورپر دیہات اور سلم علاقوں میں لوگ اپنے ایمان سے پھرتے جارہے ہیں علم سے ناواقف اور لاعلم ہونے کی وجہ سے آج کئ عورتیں برقعہ پوش ہوکر مندروں اور چرچوں کو جارہی ہیں بعض تو سانپ کو الٹا لیٹ کر دودھ بھی پلارہی ہیں ان کو اپنے ایمان اور عقیدوں کی آج کوئی پروا ہی نہیں ہے بلا سوچے سمجھے اپنے ایمان کا سودا کررہی ہیں اس لیے آج کے دور میں ایسے لوگوں کے ایمان واسلام کے تحفظ کو یقینی بنانے کی سخت ضرورت ہے جس کے لیے جگہ جگہ قریہ قریہ گاؤں گاؤں مکاتب کا قیام نہایت ناگزیر ہے تاکہ ان مکاتب قرآنیہ کے ذریعہ ہم اپنی نسل کے ایمان وعقائد کی حفاظت کرسکیں۔
حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب نے فرمایا کہ شدھی تحریک جو اس ملک کے پنجاب سندھ وغیرہ کے علاقہ میں شروع کی گئی تھی جس سے متاثر ہوکر سینکڑوں لوگ مرتد ہوکراپنے اسلام کو سلام کربیٹھے فرمایا کہ اس تحریک سے متاثر ہوکر مرتد ہونے والے وہی گھرانے اور لوگ تھے جو علم سے دورتھے جن میں جہالت عام ہوچکی تھی آج لوگوں کی عمریں گزر رہی ہیں مگر ان کو عقیدوں کا پتہ نہیں ہے بس یوں ہی ان کی زندگیاں پوری ہورہی ہیں۔
ان مکاتب قرآنیہ کے ذریعہ ہی ایمان کا تحفظ ممکن ہے چونکہ قرآن کا پڑھنے والا کبھی ہدایت سے محروم نہیں ہوتا ہےآج ہم لوگ قرآن کی حفاظت نہیں کرتے جس کی وجہ قرآن ہماری حفاظت نہیں کررہاہے جس دم مسلمان قرآن کی حفاظت کرنے والا بن جاے گا تو یہ قرآن ان کی جان مال اور دین واعمال کا محافظ بن جاے گا آج ہم دیکھیں کہ سونا چاندی مال ودولت اور قیمتی سامانوں کی اس لیے حفاظت کرتے ہیں تاکہ یہ ہمارے لیے کسی بھی آڑے وقت مصیبت کے وقت کام آئے گا لیکن قرآن کی ہم نے حفاظت کرنا نہیں سیکھا اگر مکاتب کا قیام عمل میں آجائے اور وہاں بچوں اور بچیوں چھوٹے بڑوں کی تعلیم کا اچھا انتظام ہوجائے توپھر یہی قرآن ہماری حفاظت وہدایت کا کام کریگا ۔
انہی مکاتب کے ذریعہ ہمیں اعمال کا شوق پیدا ہوگا ہمیں معلوم ہوگا کہ نماز کیا ہے روزہ کیا ہےتعلیمات اسلام کیا ہیں
آج مسلمانوں کا اکثر طبقہ بے نمازی ہوتا جارہا ہے جن کو نماز کی اہمیت کا ہی پتہ نہیں ہے نماز کے ترک کرنے کا انجام کتنا برا ہوگا اور اس کے نہ پڑھنے کی کیا سزا اللہ اور اس کے رسول نے بتلای ہے وہ اس سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ہمیں اگر حالات کا مقابلہ کرنا اور اپنے ایمان کا تحفظ کرنا ہے تو مسجدوں کو نمازوں سے آباد کرکےہمیں اپنے ایمان پر جم جانا پڑے گا۔  ان حالات میں ہمیں کسی حکمران جماعت یاکوئی ایک فرد یا دشمن نے مبتلا نہیں کیا بلکہ ان دشمنوں کے مالک نے ہمیں ان حالات میں گھیرا ہے دشمنوں کی کیا مجال اور طاقت کہ وہ ہم سے مقابلہ کریں ان لوگوں کی کیا ہمت جو ہم کو حالات میں مبتلا کریں ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہیکہ اللہ نے ہمیں ان حالات میں کیوں مبتلاء کیا ہے ؟تو صاف بات ہے دوستوکہ ہم اپنے پیدا کرنے والے کی نافرمانی کرنے کے عادی ہوگے نمازوں کو چھوڑ کر اللہ کی نافرمانی اور بغاوت ہمارےاندر آگئی جس کی وجہ سے اللہ نے ہمارے اوپر ان ظالموں کو مسلط کرکے اس دنیا میں سزاؤں کا مزہ چکھارہے ہیں دنیا اور آخرت کی پریشانیوں اورہولناکیوں سے اگر ہم نجات چاہتے ہیں تولاز م ہے کہ ہم نمازوں کے پابند بنجائیں اپنے ایمان پر جم جائیں اور ہرحال میں نمازوں کا اہتمام کرنے والے بن جائیں اللہ تعالی دشمنوں کے دل میں ہماری ہیبت اور ڈر ڈال دیں گے اور اگر نمازوں کو ترک کردیں گے ہمارے دلوں میں ان کا ڈر پیدا فرماکر ان کے دلوں سے ہمارا ڈر نکال دیں گے
اس لیے ضروری ہیکہ ہم لوگ نمازوں کی پابندی کریں ‘ کسب حلال کا اہتمام کریں‘ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کریں‘ خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم برادران وطن سب کے ساتھ اچھار ویہ رکھنا چاہیے۔
آج ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا اور جائزہ لینا چاہیے‘ اللہ کے نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ قرب قیامت میری امت پر ایک ایسا دور آئے گا کہ لوگ اس طرح ان کے ایمان کو لوٹ نے کی غرض سےاکھٹا ہوں گے جس طرح کسی مالدار کے دستر خوان پر بھوکے لوگ امڈ پڑتےہیں صحابہ نے سوال کیا اے اللہ کے نبی کیا ہم لوگ اس وقت تعداد میں کم ہوں گے کہ لوگ ہم کو اتنا آسانی سے مٹانے کے لیے تلے ہوں گے اللہ کے نبی نے فرمایا کہ نہیں تم لوگ اس وقت بڑی تعداد میں ہوں گے تو صحابہ نے پھر پوچھا کہ ایسے کیسے ہوگا اور کیوں ہوگا تو آپ نے فرمایا کہ ان کے درمیان وھن آجائے گا سوال کیا گیا کہ وہن کیا چیز ہے فرمایا کہ
حب الدنیا وکراھیۃ الموت مرنے سے ڈرنا اور جینے کی آرزو کرنا ۔ صحابہ کرام مرنے کے لیے جیتے تھے کہ ہماری جان اللہ کے دین کے لیے قبول ہوجاے آج یہی وہن کا مرض ہم کو لاحق ہوچکا ہے اسی کی وجہ سے اللہ کے نبی نے فرمایا کہ دشمنوں کے دل سے تمہارا ڈر اور خوف نکل جائے گا اور ان کا خوف تمہارے دلوں میں آجائے گا آج غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے دلوں میں دشمن کاخوف آگیا ہے حالانکہ ہم اللہ کے بندے ہیں ایمان والے بندے ہیں ہم کسی سے نہ ڈریں چونکہ
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘ ہم ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اپنے دین پر اور زیادہ جم کر عمل کریں گے
حالات کا حل صرف اس بات میں ہے کہ
(1)ہرتدبیر کو اختیار کیا جاے اور احتجاج کرنے والوں کا تعاون کرکے اپنی حصہ داری بتائیں
(2)اللہ کو راضی کرنے کی فکر کریں بطور خاص نماز والے عمل سے اللہ کو راضی کیاجاسکتا ہے
(3)حرام کاموں سے بازرہیں اجتناب اور پرہیز کریں
اسی کے ساتھ ساتھ اگر جان کی نوبت پڑجائے تو بھی جان دے کر اپنے ایمان کا تحفظ کیا جائے جان دے کر ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کرنا بھی ضروری اور وہن کے مرض کو اپنے قریب بھی نہ آنے دیں اللہ سے تعلق پیدا کریں جس کا آسان طریقہ ہے کہ پانچ وقت کی نمازوں کو پڑھنے کے عادی بن جاؤ۔ ہم اگر اللہ کے سچے پکے بندے بن جائیں تو کوئی بھی طاقت اور دشمن ہم کو نہیں مٹاسکتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×