نکاح مسیار؛ حقیقت اور پروپیگنڈہ
نکاح مسیار حقوق وفرائض کے اعتبار سے ایک نئی صورت ہے، جس کو موجودہ دور میں زیادہ تر عرب ملکوں میں اختیار کیا جاتا ہے، ہندوستان میں اس کا رواج نہیں ہے؛ لیکن آج کل اسلام کو بدنام کرنے کے لئے میڈیا کے لوگ اس کو غلط شکل میں پیش کرتے ہیں اور ایک عارضی نکاح قرار دیتے ہیں؛ مگر یہ درست نہیں ہے، نکاح مسیار ارکان وشرائط کے اعتبار سے نکاح کی عام صورتوں کے مطابق ہوتا ہے، یعنی عاقدین (دلہا، دلہن) کی طرف سے ایجاب وقبول ہوتا ہے، گواہان ہوتے ہیں، مہر مقرر ہوتا ہے، جیسے عام نکاح میں یہ بات ضروری ہے کہ عورت سے نکاح حلال ہو، دودھ یا قرابت کی وجہ سے وہ اس مرد کے لئے حرام نہ ہو، وہی شرط نکاح مسیار کے لئے بھی ہے، فرق یہ ہے کہ نکاح مسیار میں آپسی رضامندی سے بیوی اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے:
نکاح مسیار وہ نکاح ہے، جس میں نکاح کے تمام شرائط اور ارکان موجود ہوں اور زوجین باہمی رضامندی سے بعض حقوق زوجیت کو ساقط کر دیں، نیز ان کا اتفاق ہو کہ شادی کا عام اعلان نہ ہوگا؛ بلکہ محدود سطح پر اس کا اعلان ہو۔ (عقود الزواج المستحدثۃ للنجیمی ص:۱۱)
عام طور پر نکاح مسیار بیوہ، مطلّقہ یا سن رسیدہ عورت سے کیا جاتا ہے، اور مرد کا بھی یہ دوسرا نکاح ہوتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی پہلی بیوی کو یا پہلی بیوی کے خاندان یا خود اس کے خاندان کو اس کی اطلاع نہ ہو، عورت جن حقوق سے عام طور پردستبردار ہوتی ہے، وہ ہیں: نفقہ، رہائش کا انتظام، شب گذاری میں دوسری بیوی کے ساتھ اس کا مساوی حصہ وغیرہ۔
جہاں تک نکاح منعقد ہونے کی بات ہے تو اس میں نکاح کے ارکان پائے جاتے ہیں، گواہان موجود ہوتے ہیں، اور یہی بنیادی ارکان وشرائط ہیں، جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر: ۴۰۷۵، سنن ترمذی عن جابر بن زید، حدیث نمبر: ۱۱۰۳)
اس صورت میں مردوعورت کے اندر کوئی ایسا سبب نہیں پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے نکاح کی ممانعت ہو، اور عورت خود اپنے بعض حقوق سے دستبردار ہوجاتی ہے، جس کا اسے حق ہے، جیسا کہ ام المؤمنین حضرت سودہؓ حضرت عائشہؓ کے حق میں اپنی باری سے دستبردار ہو گئی تھیں، اور حضرت صفیہؓ بھی ایک دن حضرت عائشہؓ کے حق میں اپنی باری سے دستبردار ہو گئی تھیں(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب المرأۃ تھب یومھا لصاحبتھا، حدیث نمبر: ۳۷۹۱)
اس لئے موجودہ دور کے فقہاء کی رائے ہے کہ نکاح مسیار جائز ہے، یہ منعقد ہو جائے گا؛ البتہ اس میں کراہت ہے، یہ رائے اس دور کے مشہور فقیہ ڈاکٹر وھبہ زحیلیؒ ، ڈاکٹر یوسف القرضاوی، امام حرم مکی شیخ سعود الشریم وغیرہ کی ہے اور رابطہ عالم اسلامی کے تحت قائم اسلامک فقہ اکیڈمی نے بھی اسی کو ترجیح دیا ہے، (زواج المسیار للمطلق، ص: ۲۱۱، وموقع رابطۃ العالم الاسلامی) کراہت اس لئے ہے کہ نکاح کے منعقد ہونے کے لئے دو گواہوں کا ہونا کافی ہے؛ لیکن مستحب طریقہ یہ ہے کہ نکاح کا زیادہ سے زیادہ اعلان واظہار ہو؛ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی کہ نکاح مسجد میں رکھا جائے؛ کیوں کہ مسجد میں بہت سے نماز پڑھنے والے موجود ہوتے ہیں اور لوگ عقد نکاح سے واقف ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ حدیث میں ہے:
أعلنواھذاالنکاح واجعلوہ فی المساجد (سنن ترمذی، باب ما جاء فی اعلان النکاح، حدیث نمبر: ۱۰۸۹)
نکاح کا اعلان کرو اور اس کو مسجد میں رکھو:
چوں کہ اِس نکاح میں عمومی اعلان نہیں کیا جاتا، کچھ مخصوص لوگوں کو اس کی اطلاع ہوتی ہے، جو نکاح کے مستحب طریقہ کے خلاف ہے، دوسرے: نکاح کی روح یہ ہے کہ شوہر اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرے اور دونوں بیویوں کے درمیان برابری کا سلوک کرے، اس میں شوہر ان ذمہ داریوں کو قبول نہیں کرتا؛ اس لئے اس میں کراہت ہے۔
چوں کہ یہ اصطلاح موجودہ دور کی ہے، بیوہ اور مطلّقہ عورتوں سے نکاح نہ کرنے کے رجحان اور عورت کے اپنے سوکن کو برداشت نہ کرنے کے مزاج کی وجہ سے اس کا رواج ہوا ہے؛ اس لئے قدیم فقہاء کے یہاں اس کا ذکر نہیں ملتا ؛ البتہ فقہاء مالکیہ کے یہاں اسی طرح کے نکاح کا ذکر ’’زواج النہاریات‘‘ اور’’ زواج اللیلیات‘‘ کے نام سے ملتا ہے، نہار کے معنیٰ دن اور لیل کے معنیٰ رات کے ہیں، مرد کسی عورت سے نکاح کرتا اور معاہدہ ہوتا کہ وہ اس کے پاس صرف دن میں آئے گا تو اس کو ’ زواج نہاری‘‘ کہا جاتا، یا اس کے برعکس معاہدہ ہوتا کہ وہ اس کے پاس صرف رات میں آئے گا تو اسے ’’ زواج لیلی‘‘ کہا جاتا، فقہاء نے ایسے نکاح کو جائز قرار دیا ہے: (النوادر والزیادات للقیروانی: ۴؍۵۵۸، نیز دیکھئے: حاشیۃ الدسوقی: ۲؍ ۲۳۷— ۲۳۸)
بہر حال یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہ نکاح عارضی مدت کے لئے نہیں ہوتا ہے، ہمیشہ کے لئے ہوتا ہے، صرف یہ ہے کہ اس کی زیادہ تشہیر نہیں ہوتی ہے اور بیوی اپنی رضامندی اور خواہش سے بعض حقوق سے دستبردار ہو جاتی ہے؛ البتہ اس کا دستبردار ہونا صرف اپنے حقوق کے معاملہ میں ہوتا ہے، اگر وہ ماں بن جائے تو شوہر پر اس کے بچوں کو وہ تمام حقوق ادا کرنا ضروری ہوگا، جو اپنی اولاد کے لئے واجب ہوتا ہے، اسی طرح ترکہ میں پہلی بیوی کی طرح یہ دوسری بیوی بھی برابر کی مقدار ہوگی؛ کیوں کہ ترکہ سے وارثوں کا حق مالک کے مرنے کے بعد ہی متعلق ہوتا ہے، اس سے پہلے نہیں ہوتا ہے اور نہ اس سے پہلے اپنے حصہ کو معاف کرنے کا اعتبار ہوتا ہے؛ کیوں کہ معانی تو حق ثابت ہونے کے بعد معتبر ہے نہ کہ حق ثابت ہونے سے پہلے ،اور بچوں کا حق میراث بھی دونوں بیویوں سے پیدا ہونے والی اولاد کا یکساں ہوگا، اگر یہ دوسری بیوی اس شوہر سے پیدا ہونے والے اپنے بچوں کا نفقہ معاف کر دے تو اس کا اعتبار نہیں؛ کیوں کہ کوئی بھی شخص اپنا حق معاف کر سکتا ہے، دوسروں کا حق معاف نہیں کر سکتا؛ چاہے وہ اس کی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔
اگر ان تفصیلات کو سامنے رکھا جائے تو یہ نکاح کچھ اس قدر ناپسندیدہ بھی نہیں جتنا میڈیا میں ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے؛ کیوں کہ یہ بہت سی بیوہ اور مطلقہ عورتوں یا پہلی بیوی کے مریض ومعذور ہونے کی وجہ سے نکاح کے ضرورت مند مردوں کے مسائل کا با عزت حل ہے اور نکاح کے ظاہر نہ کرنے میں خاندان کو انتشار سے بچانا ہے، افسوس کہ جو لوگ لیونگ ریلیشن شپ جیسے بے ہودہ اور شرم وحیا سے عاری قانون کو برا نہیں سمجھتے، وہ نکاح کے پاکیزہ طریقہ کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں۔